• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ان سطور کی اشاعت تک امریکی صدر ٹرمپ کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے 19ستمبر کے خطاب کی تفصیل آپ تک پہنچ چکی ہو گی بلکہ ممکن ہے پاکستان سمیت بعض ممالک کا ردعمل بھی سامنے آ چکا ہو۔ اسی ہفتےکے آخر تک وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کی تفصیلات کے علاوہ امریکی نائب صدر مائک پنس، افغان صدر اشرف غنی، ایران کے صدر روحانی اور صدر ترکی اور دیگر سربراہان حکومت سے دو طرفہ تعلقات کی نوعیت والی ملاقاتوں کے بارے میں بھی پاکستانی قوم کوکچھ نہ کچھ آگاہی ہو جائے گی کہ عالمی ا سٹیج پر پاکستان کو کس صورتحال کا سامنا ہے ؟
سرکاری بریفنگ کے مطابق وزیر اعظم 18ستمبر تا22ستمبر اپنے قیام نیویارک کے دوران امریکی کونسل برائے فارن ریلیشنز سے بھی خطاب کریں گے اور عالمی میڈیا کو انٹرویوز بھی دیں گے۔ بظاہر پہلی بار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے والے وزیر اعظم عباسی کی مصروفیات اور اہم دکھائی دیتی ہیں۔وہ کشمیر اور کشمیریوں کے حقوق اور برما کے روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کا معاملہ بھی اٹھائیں گے اور او آئی سی رابطہ گروپ کے اجلاسوں میں بھی شرکت کریں گے لیکن وزیر اعظم کے اس دورہ اقوام متحدہ میں برطانیہ کے علاوہ فی الحال کسی یورپی ملک سے دو طرفہ ملاقاتوں کا پروگرام نظر نہیں آ رہا۔ البتہ کشمیر، روہنگیا اور اہم مسلم ممالک کے سربراہان سے ملاقاتوں اور مسائل پر گفتگو اور او آئی سی کے رابطہ گروپ کے اجلاس میں شرکت، فہرست میں شامل ہے۔ سابق وزیر خارجہ اور امریکی دانشور ہنری کسنجر سے ملاقات تو رسمی ہے لیکن امریکی نائب صدر مائیک پنس جو صدر ٹرمپ کی طرح سخت گیر رویہ یعنی ’’ہارڈ لائن‘‘ رکھنے والے ری پبلکن ہیں ان سے نیویارک میں ملاقات اہم ہو گی۔ کہا گیا ہے کہ یہ ملاقات امریکی خواہش پر ہو رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے والے سربراہان مملکت و حکومت کا دورہ اقوام متحدہ پر مرکوز ہوتا ہے اور ان کی تقاریر ان کے ملک کی خارجہ پالیسی اور مجموعی موقف کی ترجمان ہوتی ہیں لیکن یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ مختلف ممالک کےدرمیان تعلقات اور مسائل کی الجھی ہوئی گتھیاں اس اجلاس کی سائیڈ لائن پر دو طرفہ ملاقاتوں اور مذاکرات سے حل ہوتی ہیں بسا اوقات تو بااثر ممالک کی مداخلت سے ا قوام متحدہ کی چھت تلے ہی خفیہ یا اعلانیہ انداز میں تنازعات و معاملات میں سدھار یا بگاڑ پیدا کر دیا جاتا ہے۔ بہرحال سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے بھی بعض امریکی،افغانی اور دیگر عہدیداروں سے ملاقاتیں کی ہیں۔ مگر صدر ٹرمپ کے سخت موقف اور جنوبی ایشیا میں پالیسی کی تبدیلی نے پاکستان کیلئے مشکل صورتحال پیدا کر رکھی ہے کیونکہ امریکہ کے بعض اتحادی احتیاط سے کام لے رہے ہیں خود ہم نے بھی گزشتہ کچھ عرصہ سے داخلی سیاست کی قباحتوں اور عدم استحکام کے باعث خارجہ پالیسی کے شعبے میں غفلت سے کام لیا ہے اورہمارا ہمسایہ مستعد حکمت عملی اور بدلتے حالات کا فائدہ اٹھا کر ہمارے گرد ایک مخالفانہ حصار قائم کرنے میں کامیاب ہے۔ میری رائے میں ہمارے حکمرانوں اور پالیسی سازوں کو محض اپنی کامیابی کے دعوے کرنے اور عوام کو حقائق سے آگاہ نہ کرنے کی روش ترک کر کے قوم سے سچ بولنے اور حقائق کو بیان کر کے نئے جذبہ تعمیر و استحکام کو اجاگر کرنے کا راستہ اپنانا چاہئے ماضی میں حقائق کو چھپائے رکھنے کی پاداش میں پاکستانی قوم جن صدموں اور نقصانات کا سامنا کر چکی ہے اس سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔
ابھی تک یہ علم نہیں ہو سکا کہ ڈاکٹر ہنری کسنجر سے وزیر اعظم کی ملاقات کا ایجنڈا کیا ہو گا ؟ لیکن ماضی میں یادوں سے ایک واقعہ یوں ہے۔ کہ جنرل ( ر) پرویز مشرف کے دور میں ڈاکٹر ہنری کسنجر نے نیویارک کے روز ویلٹ ہوٹل میں ایک ملاقات ناشتہ پر کی۔ ڈاکٹر نسیم اشرف نے اس ملاقات میں رول ادا کیا اور اس ملاقات کیلئے مقررہ فیس ادا کی گئی تھی جو کہ امریکی معمول کے مطابق ہے۔
وزیر اعظم کے نیویارک پہنچتے ہی پہلے روز 19ستمبر کو 10مصروفیات کا پروگرام بڑا متاثر کن اور مصروف نظر آتا ہے مگر افادیت اور مقصدیت کے لحاظ سے اس کا تجزیہ ضروری ہے۔ ترکی، سری لنکا، اردن وہ ممالک ہیں جن سے خوشگوار تعلقات اور مفادات کی خاصی ہم آہنگی ہے جبکہ افغان صدر، امریکی نائب صدر پنس، اور ایرانی صدر سے ملاقاتوں میں اختلافی مسائل کا حل تلاش کرنے کی گنجائش ہے مگر ہم ایسے وقت میں اختلافی مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جب دوسرے فریق اپنا اپنا آپشن تلاش کر کے آپ سے منہ موڑ رہے ہیں۔ آپ لاکھ کہیں کہ ہم دوبارہ انگیج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن موجودہ صورتحال کا وقت سے پہلےادراک کر کے درست حکمت عملی اختیار کرنے کی ذمہ داری کیوں پوری نہیں کی گئی؟ آج بھی دعویٰ ہے کہ پاکستان کے بغیر امریکہ افغان مسئلہ حل نہیں کر سکتا۔ کیا خوش فہمی کہ عصر حاضر کی عالمی سپر پاور ہمارے ازلی دشمن ہمسایہ کے ساتھ اشتراک کر کے ہمارے خلاف محاذ قائم کررہا ہے اور ہم کچھ سوچنے اور حکمت عملی بنانے کی بجائے کہہ رہے ہیں کہ ہمارے بغیر مسئلہ ہی حل نہیں ہو سکتا۔ درست ہے کہ امریکہ کو ویت نام سے پسپا ہو کر لوٹنا پڑا لیکن اس دوران ویت نام کن شعلوں اور تباہی سے گزرا یہ تاریخ جانتی ہے۔
مختصر یہ کہ اقوام متحدہ کے اجلاس کی سائیڈ لائنز پر ہونے والی دو طرفہ ملاقاتوں سے ناخوشگوار صورتحال تبدیل ہونا مشکل ہے۔ اسی لئے ان ملاقاتوں کے بارے میں تفصیلات فراہم کرنے کی بجائے محض ’’سب اچھا‘‘ کہہ کر بہلایا جا رہا ہے۔ میڈیا کو نہ تو مقام ملاقات اور نہ ہی ایجنڈا کے بارےمیں رہنمائی یا رسائی حاصل ہے کہ اندازہ ہو سکے کہ نکات اشتراک اور امور اختلاف کیا اور کیوں ہیں؟ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں جو چاہیں آپ کہہ سکتے ہیں وہ آپکا موقف ہے مگر عالمی قوتیں اگر آپ کے خطاب اور موقف کو سن کر نظر انداز کر دیں تو آپ کہاں کھڑے ہوں گے ؟ ادھر بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج 17ستمبر سے نیویارک پہنچ کر مختلف ممالک کے ساتھ دو طرفہ ملاقاتوں، اقوام متحدہ کی اصلاحات اور سلامتی کونسل کی توسیع کر کے بھارت کیلئے مستقل نشست کے مقصد کیلئے 24ستمبر تک مصروف ہیں۔ امریکی تعاون سے وہ اپنی راہ ہموار کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ چین اور روس اس سال سربراہ مملکت کی بجائے وزرائے خارجہ کی سطح پر شرکت کر رہے ہیں۔بہرحال داخلی سطح پر بحران کے شکار پاکستان کا وزیر اعظم عباسی برادری کو یہ یقین دلانے کی کوشش میں اقوام متحدہ آیا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف مثالی قربانیاں دی ہیں امریکہ اور مغربی دنیا کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف اتحادی بن کر لڑے ہیں۔ اپنا سب کچھ دائو پر لگایا ہے مگر پھر بھی ’’ڈو مور‘‘‘ کا مطالبہ سن رہے ہیں بلکہ ہماری قربانیوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اپنے مقدمہ اور موقف کی ترجمانی درست انداز میں کی؟ اقوام متحدہ کا عالمی ادارہ’’پاور گیم‘‘ کا تابع ہے اور مجھے تو کسی بھی طرح لیگ آف نیشنز سے مختلف نظر نہیں آتا۔ ہمیں پوری فعالیت کے ساتھ چین اور روس سمیت نئے ہم خیال ممالک کے ساتھ ملکر اقوام متحدہ کے محاذ پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم عباسی جنرل اسمبلی سے خطاب اور دو طرفہ ملاقاتیں کر کے جب پاکستان لوٹیں گے تو انہیں پھر اپنی پارٹی قیادت اور سیاسی مخالفین کے پیدا کردہ مسائل کا سامنا کرنا ہے۔

تازہ ترین