• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک سو بیس وہ حلقہ ہےجہاں سے ذوالفقار علی بھٹو ایم این اے منتخب ہوئے تھے۔ کہتے ہیں جنرل جیلانی نے نواز شریف کومشورہ دیا تھا کہ اس حلقے میں پیپلز پارٹی کے بہت اثرات ہیں اس لئے انہیں حلقہ میں بھرپور کام کرنا چاہئے۔ اور پھر 1985ء کے غیر جماعتی انتخاب میں نواز شریف نے اس حلقہ کو اپنی مٹھی میں سمیٹ لیا ۔پچاسی سے لے کر آج تک یہ حلقہ نون لیگ کے ایک گڑھ کی حیثیت سے سیاسی افق پر جگمگا تا چلا آ رہا ہے ۔حتیٰ کہ مشرف دور میں جب نون لیگ زوال کی آخری حد کو چھورہی تھی یہ حلقہ نواز شریف کے ساتھ کھڑا تھا۔2002ءکے انتخابات میں پرویز ملک یہاں سے ایک بڑی لیڈ کے ساتھ کامیاب ہوئے تھے۔یاد رہے کہ پرویز ملک اُنہی جسٹس قیوم ملک کے بھائی ہیں جن کی آڈیو ٹیپس میڈیا کی زینت بن چکی ہیں یہ عجیب بات ہے کہ 2002ءمیں پرویز ملک نون لیگ کے ایم این تھے اور ان کی بہن یاسمین رحمان پیپلز پارٹی کی ایم این اے تھیں۔ جب کہ ان کی قریبی رشتہ دار ناول نگار بشری رحمن قاف لیگ کی رکن قومی اسمبلی تھیں اورخودقیوم ملک پرویز مشرف کے ہم نوا تھے ۔اس حلقے سے کئی اور نامور شخصیات نے بھی الیکشن لڑا یہاں سے کبھی ایئر مارشل اصغر خان امیدوار ہوئے تو کبھی جہانگیر بدرنے الیکشن لڑا۔ اسی حلقے سے ڈاکٹر یاسمین راشد کے سسرغلام نبی ملک نے بھی الیکشن لڑا تھا۔ 2008ءمیں شریف فیملی کےلئے موسم تھوڑا ساز گار ہوا تو انہوں نےاس حلقے کلثوم نواز کے بھانجے بلال یٰسین کو قومی اسمبلی کا رکن بنوا دیا ۔یٰسین پہلوان کے فرزند آج کل صوبائی وزیر ہیں۔ وہ اسی حلقے کی ایک صوبائی نشست سے 2013 میں بھی کامیاب ہوئے تھے۔ کلثوم نواز اپنے بھانجوں اور بھتیجوں سے بہت محبت کرتی ہیں ان کا بھتیجا احسن لطیف بھی مشکل ترین دور میں کلثوم نواز کے ساتھ تھا ۔آج کل وہ مریم نواز کے ساتھ ساتھ ہوتا ہے ۔یہ ساتھ مریم نواز کے مشہور ترین میڈیا سیل میں بھی جاری و ساری ہے۔ احسن لطیف کا دوسرا بھائی محسن لطیف ایم پی اے بنا تھا پھر ضمنی الیکشن ہوا تو وہ پی ٹی آئی کے شعیب صدیقی سے ہار گیا۔ مریم نواز کےمشہور میڈیا سیل کے ذکر پرمجھے مریم اورنگ زیب یاد آگئی ہیں۔ اس سیل کی مریم نواز اس کی سربراہ تھیں اور مریم اورنگ زیب ان کے زیر سایہ کام کرتی تھیں۔ اس سائے کی ایک تصویر آپ نے دو روز پہلے بھی دیکھی جب ماڈل ٹائون آفس میں مریم اورنگ مریم نواز کے چرنوں میں تشریف فرما تھیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے چرنوں میں بھی بڑے بڑے لوگ بیٹھا کرتے تھے۔ چوہدری نثار علی خان نے مریم نواز اور بے نظیر بھٹو کے موازنے کو زمین و آسمان کا موازنہ قرار دیا۔ یہ الگ بات کہ ہمارے کئی کالم نگاروں کے نزدیک اس موازنے میں آسمان مریم نواز ہیں۔ یہاں مجھے دو دانیال بھی یاد آرہے ہیں۔ ایک دانیال جسے زمانہ دانیال عزیز کے نام سے جانتا ہے یہ کبھی سپریم کورٹ کے باہر کبھی جے آئی ٹی کے باہر اور کبھی پی آئی ڈی کے اندر شریف فیملی کی وکالت کرتے نظر آتےتھے واقفان ِ حال کا کہنا ہے کہ جب وہ پرائم منسٹر ہائوس میں اپنی رہنما سے داد وصول کرنے جاتے تو وہ ساری منصوبہ بندیاں انگریزی میں بیان کرتے تھے ان کی اس انگریزی نے پورے ماحول پر دھاک بٹھا رکھی ہوتی تھی۔ آج کل دانیال عزیز وفاقی وزیر ہیں اس خصوصی سیل میں ایک اور دانیال بھی نظر آتے تھے۔ ان کا نام دانیال تنویر ہے۔ یہ راولپنڈی سے منتخب ہونے والے سینیٹر چوہدری تنویر کے صاحبزادے ہیں۔ وہی چوہدری تنویر جن کی چوہدری جعفر اقبال سے رشتہ داری ہے۔ اس تعلق میں کہیں چوہدری نثار علی خان کا نام بھی آتا ہے اور اس نام کی وہی صورت احوال ہے کہ وہ نام پورے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا وہ نام ان کو بہت ناگوار گزرا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں مریم نواز اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان کھینچا تانی کے اس کھیل میں کہیں نہ کہیں دانیال تنویر کردار بھی موجود ہے۔
مجھے آج این اے ایک سو بیس کی بات کرنا تھی مگر خصوصی میڈیا سیل کا تذکرہ چھڑ گیا جتنا اس میڈیا سیل کا دائرہ کار وسیع ہے میرے جملے بھی اتنے ہی پھیلتے چلے گئے ہیں۔ حالیہ سالوں میں یہ دوسرا ایسا الیکشن تھا جو کسی وزیراعظم کی نااہلی کے بعد ہوا۔ یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے بعد جب ضمنی الیکشن ہوا تھا تو انکے صاحبزادے موسیٰ گیلانی چالیس ہزار کی لیڈ سے جیتے تھے ۔یہ الگ بات کہ جنرل الیکشن میں موسیٰ گیلانی کی ضمانت ضبط ہو گئی تھی۔ سوچتا ہوں کہیں شریف فیملی کے ساتھ بھی این اے ایک سو بیس میں ایسا ہی تو نہیں ہونے والا۔ یہ ضمنی الیکشن ہوا ہے اس میں تین حکومتوں کی طاقت استعمال ہوئی۔ بے دریغ پیسہ استعمال ہوا اسکے باوجود لیڈ صرف چودہ ہزار کی نکلی ۔میاں نواز شریف نے اکانوے ہزار ووٹ لئے تھے۔ جبکہ سارے جتن کرنے کے باوجود بیگم کلثوم نواز اکسٹھ ہزار ووٹ لے سکیں اورتیس ہزار ووٹوں کا جھگڑا عدالت میں پہنچ چکا ہے۔ یاسمین راشد کا خیال ہے کہ ایک سو بیس میں تین سو اور جمع کر لئے گئے ہیں ۔حیرت ہے کہ تمام تر ہمدردی کا ووٹ حاصل کرنے کے باوجود کلثوم نواز موسیٰ گیلانی جتنی لیڈ نہیں لے جا سکیں۔ شاید حمزہ شریف انتخابی مہم کے انچارج ہوتے تو معاملہ کچھ اور ہوتا۔ کہا جارہاہے اس الیکشن میں 39 پولنگ اسٹیشنوں پربائیو میٹرک مشینوں کے ذریعے ووٹ ڈالے گئے ان میں سے 38پر ڈاکٹر یاسمین راشد کامیاب ہوئی۔ کلثوم نوازکی جیت وہاں ہوئی جہاں مینوئل طریقہ کار تھا اور ہاتھ کے کام کو ہی ہاتھ کی صفائی بڑی ضروری ہوتی ہے۔ خیر جو بھی ہوا کلثوم نواز جیت گئیں۔ اس جیت پر مریم نواز کی ہاری ہوئی تقریر سننے کا موقع بھی ملا۔ مریم نواز کی قومی اداروں پر بے جا تنقید نے کئی نئے سوالات کھڑے کر دئیے ہیں۔ ان سوالوں کا جواب آنے والا موسم دے گا۔ سنا ہے آنے والا موسم شدید بلکہ شدید تر ہے کچھ لوگ اسے شدید ترین بھی کہہ رہے ہیں ۔بہر حال موسم کی تباہ کاریاں روکنے کیلئے لمبے چوڑے انتظامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ ابھی ابھی امریکہ دو بڑے موسمی طوفانوں سے گزرا ہے سو بہتر انتظامات کیلئے امریکہ سے بہتر اور کون کوئی مشورہ دے سکتا ہے۔

تازہ ترین