• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حلقہ NA 120کا الیکشن نوازشریف کے نااہل قرار دیئے جانے کے بعد بہت اہمیت کا حامل ہوگیا تھا اس الیکشن کے نتیجے میں ’’ن لیگ‘‘ اور کچھ ادارے آمنے سامنے کھڑے ہوگئے ہیں۔ مریم نواز نے الیکشن جیتنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ پر سنگین الزامات لگائے ہیں جس میں اس حلقہ کے تین اہم ورکروں کو ایک رات پہلے غائب کردینا غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ الیکشن اس لئے بھی بہت اہم تھا کہ اگر یہ الیکشن ن لیگ ہار جاتی تو مبصرین اس بات کا خدشہ ظاہر کررہے تھے کہ بہت سارے لوگ ن لیگ چھوڑ جاتے۔ اسی وجہ سے ن لیگ نے اپنا تن من دھن اس ضمنی انتخاب پر لگا دیا۔ پاکستان میں جمہوریت کی بقا کے لئے موجودہ حالات سنگین نوعیت اختیار کر گئے ہیں۔ اور چاہئے تو یہ کہ تمام ادارے آئین کے مطابق اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہیں لیکن اب لگتا یوں ہے کہ سرد جنگ کا آغاز ہوچکا ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے صدر اسفندیار ولی نے اپنے حالیہ انٹرویو میں مائنس تھری کے فارمولے کو رد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان آج اس چیز کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے کہ جمہوری اداروں کو کوئی نقصان پہنچے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھٹو کو مائنس کرنے کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ وہ مزید کہنے لگے کہ بھٹو کا داعی نہ ہونے کے باوجود میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ آج تک بھٹو کو لوگوں کے دلوں سے نہیں نکالا جا سکا۔ یہاں یہ بھی قابل غور ہے کہ NA 120کے الیکشن میں پیپلز پارٹی چوتھے نمبر پر آئی ہے اور اس کے امیدوار نے صرف دو ہزار پانچ سو ووٹ لئے ہیں۔ اور جماعت اسلامی کے امیدوار نے اس سے بھی کم ووٹ حاصل کیے ہیں۔ یہ دونوں پارٹیاں لاہور سے بھاری ووٹ حاصل کرتی رہی ہیں۔ لیکن آج ایک سیاسی عمل کے نتیجے میں یہ دونوں پارٹیاں اپنی وقعت کھو بیٹھی ہیں۔ کسی بھی پارٹی کو ختم کرنے کا اختیار صرف اور صرف عوام کو حاصل ہے اور کسی بھی مصنوعی طریقے سے کسی پارٹی یا اس کے سربراہ کو مائنس کرنے سے عوام میں اس کے لئے ہمدردیاں پیدا ہوتی ہیں۔
آج کل یہ خبریں سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہیں کہ ٹیکنو کریٹ کی حکومت لائی جارہی ہے اور مزید یہ بھی کہ صدارتی نظام اس ملک کی بقا اور کرپشن کے خاتمے کی ضمانت ہو سکتا ہے اس سلسلے میں بظاہر کچھ صاف ستھرے لوگوں کے نام بھی لئے جارہے ہیں۔ چوہدری نثارعلی خان کہتے ہیں پانی سر سے گزرا تو نہیں لیکن سر کے بہت قریب ہے اور یہ بھی کہ نون لیگ کو عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ سے مڈ بھیڑ نہیں کرنی چاہیے۔ مظہر برلاس نے بھی جنگ میں اپنے 14 ستمبر کے کالم میں بڑی وضاحت کے ساتھ ڈیپ اسٹیٹ کی تھیوری کو اپنانے میں پاکستان کی عافیت جانی۔
جہاں تک ٹیکنو کریٹ کی حکومت کا تعلق ہے تو اس کی آئین اجازت نہیں دیتا اور اس طرح کے کئی منصوبے پہلے بھی آزمائے جا چکے ہیں۔ جن سے سوائے سماجی تنزلی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اور جمہوریت کا ارتقائی عمل بھی اس سے رک گیا۔ یاد رہے کہ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں ایسے غیر جمہوری اقدامات کئی بار آزمائے جا چکے ہیں لیکن اس کے بعد پھر جمہوریت ہی کو اپنانا پڑا۔ لیکن اس دوران ان عوامل کا سب سے بڑا نقصان پاکستان کے عوام کو پہنچا جو کہ پچھلے ادوار کے حاصل کردہ جمہوری ثمرات سے بھی محروم ہوگئے۔ کیونکہ جب بھی آپ جمہوریت کا دوبارہ آغاز کریں گے تو یہ عمل اپنی ابتدائی شکل میں ہی ظہور پذیر ہوگا۔ صاف ظاہر ہے کہ اس کے سب سے زیادہ منفی اثرات غریب عوام پر ہی پڑیں گے ہمیں تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ کہ جن معاشروں میں جمہوریت ایک مسلسل عمل کا نام ہے وہ معاشرے اپنی ترقی کی آخری منزلوں کو چھو رہے ہیں۔ ان معاشروں میں کرپشن بھی ایک حد کے اندر مقید کر دی گئی ہے جس کی وجہ جمہوری ادارہ سازی ہے۔ آج یورپ میں کرپشن کو کم کرنے میں دو اداروں کا بہت اہم کردار ہے جس میں عدلیہ اور میڈیا شامل ہیں۔ پاکستان میں بھی جب تک یہ ادارے سماج میں اپنی جڑیں مضبوط نہیں کرلیتے اس وقت تک کرپشن کا خاتمہ ایک آئیڈیا تو ہو سکتا ہے لیکن اس کی کوئی حقیقی شکل ابھر کر سامنے نہیں آسکتی۔ اور جہاں تک کرپشن کا مسئلہ ہے تو اس کی شدت پاکستان میں80ء کی دہائی میں ضیاءالحق کے غیر جماعتی الیکشن کے ساتھ شروع ہوتی ہے اور مشرف حکومت میں چن چن کر ایسے سیاستدانوں کو گود لیا گیا جن پر کرپشن کے سنگین الزامات تھے۔
جہاں تک صدارتی نظام کا تعلق ہے تو یہ پاکستان کی بقا کے لئے نہایت خطرناک ہتھیار ہے۔ کیونکہ آئین پاکستان کے مطابق پاکستان ایک وفاقی ریاست ہے جس خطے میں مختلف قومیں اپنی زبان۔ ثقافت، تاریخ اور سرزمین کے ساتھ صدیوں سے آباد چلی آرہی ہیں۔ اسلئے آئین کی اس بنیادی اساس کو چھیڑنا پاکستان کے وفاق کیلئے بہت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے جہاں پہلے ہی پاکستان میں بسنے والے مظلوم طبقات اور محکوم قومیں اپنے جائز حق کیلئے ایک طویل لڑائی لڑ رہی ہیں۔ یہ لڑائی جو کہ اب تک ایک سیاسی نوعیت کی ہے اور آئین کی پاسداری کرتے ہوئے لڑی جا رہی ہے تو ایسے حالات میں پاکستان کے عوام پر صدارتی نظام ٹھونسنا جلتی پر تیل کاکام کرے گا جو کہ پاکستان کی بنیادوں کو ہلانے کے مترادف ہوگا۔
یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ جمہوری نظام میں ہی پاکستانی سماج کی بقا ہے۔ تو صاف ظاہر ہے یہ نظام اپنی خامیوں کے ساتھ ہی نافذ کیا جاتا ہے اور تاریخ بتاتی ہے کہ ہر سماج میں جمہوریت ارتقائی مراحل سے گزر کر ہی کسی سماج کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتی ہے۔ اگر پاکستان میں آج کچھ ا دارے زیادہ ڈسپلن اورآرگنائزڈ ہیں تو حب الوطنی کا جذبہ تو یہ کہتا ہے کہ ان کی یہ صلاحیتیں اس سماج اور جمہوریت کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہونی چاہئیں۔
آج پاکستان دوراہے پر کھڑا ہے جہاں اس کے عوام کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کس نظام کے تحت ہمیں اکیسویں صدی میں بین الاقوامی طور پر ترقی کی راہ پر گامزن ہونا ہے۔صاف ظاہر ہے اس سلسلے میں شعور پیدا کرنا پاکستان کے سب سے آگاہ طبقے یعنی دانشوروںکے ذمے آتاہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک کی دانشورانہ روایتیں یورپی سماج کی طرح مثالی نہیں بن سکیں۔ اور آج بھی ننانوے فیصد سے زیادہ دانشور ریاستی اداروں کے ساتھ کھڑے ہوکر روایتِ سقراط کے انکاری ہیں۔ ایسے میں سب سے زیادہ ذمہ داری سیاسی جماعتوں پر ہی عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے فروعی اختلافات کو بھلا کر سماجی تبدیلی کے علمبردار بن جائیں تاکہ عوام کا اعتماد ان پر بحال ہو ورنہ تاریخ انہیں کبھی نہیں بخشے گی۔

تازہ ترین