• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی یوم ِامن او رہماری ذمہ داریاں محمد مرتضیٰ نور

(عالمی یوم امن کی مناسبت سے خصوصی تحریر)
21ستمبر ہر سال عالمی یوم امن کے طورپر منایا جاتا ہے۔اس دن کے منانے کا بنیادی مقصد اقوام اور عوام کے مابین امن کی فضا اور خیالات کو فروغ دینا ہے۔اس سال عالمی یوم امن کا عنوان ’’ امن کیلئے اکٹھے ہوں ‘تحفظ، عزت اور عظمت سب کیلئے ‘‘ یعنی معاشرے میں امن قائم کرنے کیلئے اجتماعی کو ششیں کی جائیں اور امن قائم ہونے کی صورت میں سب کو عزت،تحفظ اور عظمت میسر آئے۔امن کا عالمی دن معاشرے میں امن کے فروغ کیلئے نوجوانوں کے کلیدی کردار پر بھی زور دیتا ہے جس کے تحت نوجوان نسل رضاکارانہ طور پر انفرادی اور اجتماعی سطح پراپنے اردگرد اور بالخصوص تعلیمی اداروں میں امن کا قیام یقینی بنائیں۔نوجوان نسل جوکہ نہ صرف پاکستان کے مستقبل کے معمار ہے بلکہ قوم کا حقیقی اثاثہ بھی ہے۔ بدقسمتی سے آج کے نوجوان کو نادیدہ قوتوں نے مختلف دائروں میں تقسیم کردیا ہے وہ رواداری، درگزر، برداشت، تحمل، بردباری اور دوسروں کی رائے کا احترام جیسی صفات سے دور ہوچکا ہے۔اختلاف رائے کو طاقت کے زور پر بدلنےکے رجحان نے ہمارے دماغوں کو کھولتے الائو میں تقسیم کردیا ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جب معاشرے میں مکالمے کی روایت ختم ہوجائے تو معاشرہ جمود کا شکار ہوجاتا ہے۔ واضح رہے کہ ملک میں اعلی تعلیم کی درسگاہوں میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور انتہاپسندی کی لہر پر ملک کے تمام اہم ادارے اپنی شدید تشویش کا اظہار کرچکے ہیں اس سلسلے میں اداروں کے مابین مربوط روابط اور موثر حکمت عملی پر زور دیا جارہا ہے۔ ان واقعات نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے کہ اس عدم برداشت، تشد د اور شدت پسندی کے ماحو ل سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا جائے تاکہ جامعات امن کا مسکن بن سکیں، ایک طرف جامعات جو خود سراپا امن و آشتی اور علم و امن کی مراکز تھیں جہاں سے روشنی اور اجالے کی کونپلیں جنم لیتی تھی آج خود اس مسیحا کی تلاش میں ہیں جو جامعات کا امن لوٹا سکے۔ یہ وقت کی ضرورت اور تقاضا ہے کہ نوجوانوں کی مایوسی پر قابو پانے کیلئے انکو روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں اور اس سلسلے میں حکومتی سطح پر رہنمائی فراہم کی جائے۔ اب تعلیمی اداروں میں ماضی کی روایات کے برعکس مشاعروں، مباحثوں، معلومات عامہ، بیت بازی، ممتاز شخصیات کے خیالات سے استفادہ، قرأت اور نعت خوانی کے مقابلوں کی روایات ختم ہوگئی ہے۔ صحت مند مثبت روایات اور جمہوری اقدار کی سوج بوجھ کا فقدان،تنگ نظری اور انتہا پسندی کو جنم دیتا ہے۔تعلیمی اداروں میں متبادل پلیٹ فارم فراہم کئے بغیر اور نوجوان طلبہ کی مختلف نصابی سرگرمیوں میں موثر شمولیت کے بغیر امن اور رواداری کو فروغ نہیں دیا جا سکتایقیناً ان مثبت سرگرمیوں کے فقدان کا فائدہ وہ عناصر اٹھارہے ہیں جو نہیں چاہتے کہ ہمارے ہونہار اور باصلا حیت نوجوان جو کہ آبادی کا بڑا اور موثر حصہ ہیں مثبت سر گر میوں کی طرف راغب ہوکر ملک و قوم کی ترقی میں فعال کردار ادا کرسکے۔ پاکستان میں اس وقت منظور شدہ جامعات کی تعداد186جبکہ ذیلی کیمپسسز کی تعداد 110ہے جہاں 13لاکھ سے زائد نوجوان اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مصروف عمل ہیں وقت کا تقاضاہے کہ معاشرے اور تعلیمی اداروں میں بڑھتے ہوئے پرتشدد رجحانات پر قابوپانے کیلئے عملی طور پر ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔ چیئر مین سینیٹ میاں رضاربانی نے کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے نام اپنے حالیہ خط میں واضح طور پر نصاب میں تبدیلی، نوجوانوں کی ہم نصابی سرگرمیوں میں موثر شمولیت اور سینیٹ آف پاکستان کی متفقہ قرارداد کی روشنی میں طلبہ یونینز کی بحالی پر زور دیا ہے مز ید براں سینیٹ آف پاکستان نے اپنی ایک اور اہم متفقہ قرار داد کے ذریعے وفاقی اور صو بائی حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ تعلیمی اداروں میں جمہوری سوچ کو پروان چڑھانے کیلئے شہریت کی تعلیم کو متعارف کروائیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ طلبہ میں ہم نصابی سرگرمیوں کو فروغ دینے کیلئے طلبہ یونینز اور سوسائٹیز کو بحال اور فعال کیا جائے اور طلبہ یونینز کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ایسا ضابطہ اخلاق تشکیل دیا جائے جس کے تحت مثبت رجحانات رکھنے والے طلبہ کی موثر شمولیت یقینی بنائی جاسکے۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں تیس سے زائد طلبہ کی سوسائٹیز ڈیپارٹمنٹ اور یونیو رسٹی کی سطح پر فعال ہیں۔ ا سکول کی طر ز پر والدین اوراساتذہ کے مابین موثر روابط کیلئے باقاعدگی سے میٹینگز کا انعقا د کیا جائے۔ ڈائریکٹر امور طلبہ کے آفس کے کردار کو مضبوط بنا یا جائے اور طلبہ میں صحت مند اور مثبت سرگرمیوں کے فروغ کیلئے فنڈز کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔طلبہ کو ادب، کتاب بینی اور مقامی ثقافت سے جوڑنے کیلئے ادبی میلوں کا انعقاد کیاجائے۔ لاہور اور کراچی کے بعد جامعات کی سطح پر ملتان، فیصل آباد، گجرات اور گوجرانوالہ میں ادبی میلوں کا انعقاد نہایت خوش آئند اقدام ہے۔ ان ادبی میلوں کے انعقاد کا سلسلہ دوسرے شہروں تک پھیلانے سے نوجوان نسل کو پر تشدد رجحانا ت سے دوررکھنے میں کافی مدد ملے گی۔ طلبہ کی رہنمائی کیلئے یونیورسٹی اور کیمپس کی سطح پر کونسلنگ سینٹرز قائم کئے جائیں تاکہ نوجوانوں کو بروقت رہنمائی فراہم کی جاسکے اور انکے خاندانوں کو کسی بھی ناخوشگوار صورت حال سے بچایا جا سکے۔معاشرے میں امن کے فروغ کیلئے نوجوان نسل کو بہتر اور سازگار ماحول فراہم کرنا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔

تازہ ترین