• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں دہشت گردی اور ایٹمی پھیلائو سمیت جن امور کی نشاندہی کی، ان پر عالمی برادری نہ صرف اتفاق رکھتی ہے بلکہ پاکستان سمیت کئی ممالک دہشت گردی کے خاتمے اور ایٹمی پھیلائو روکنے کے لئے کام بھی کررہے ہیں۔ لیکن مذکورہ امور پر گفتگو کے دوران امریکی صدر نے جو لہجہ اختیار کیا، اس سے ایٹمی کشیدگی میں اضافے کے امکانات بڑھتے نظر آرہے ہیں۔ ان کی دیگر تقریروں کی طرح ’’ریڈیکل اسلامک ٹیرر ازم‘‘ کی اصطلاح کے استعمال سے ابھرنے والا یہ تاثر کسی بھی طور مناسب نہیں کہ ان کا ہدف صرف بنیاد پسند اسلامی شدت پسند ہیں۔ پاکستان اور دیگر مسلم ممالک ان شدت پسند تنظیموں کے ہاتھوں خاصا نقصان اٹھا چکے ہیں جو طالبان، القاعدہ اور داعش کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ یہ وہ تنظیمیں ہیں جو نام تو اسلام کا لیتی ہیں مگر جنہیں مسلم ممالک میں عدم استحکام پیدا کرنے کے استعماری ہتھیار کے طور پر جانا جاتا ہے اور جن کی کسی بھی مقام پر موجودگی یا کارروائی پر اسلامی دنیا نہ صرف لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے بلکہ ان کی بیخ کنی کی کارروائیوں میں بھی پیش پیش ہے۔ جبکہ اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں، بھارت کے ہاتھوں کشمیری عوام اور میانمار کے ہاتھوں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا گیا ظلم و ستم شاید واشنگٹن کی نظر میں دہشت گردی نہیں ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ شمالی کوریا کے ایٹمی تجربات پوری دنیا کے لئے خطرناک ہیں، امریکہ کو خطرہ ہوا تو شمالی کوریا کو مٹا دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ شمالی کوریا کے بعد ایران ہے جو تباہی کی بات کرتا ہے، تہران دہشت گردی کی حمایت ترک کردے۔ انہوں نے ایران کے ساتھ کئے گئے جوہری سمجھوتے کو امریکہ کے لئے ہزیمت کا باعث قرار دیتے ہوئے اس سمجھوتے کو مکمل طور پر ختم کرنے کے ارادے کا اظہار بھی کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سمجھوتے کی شرائط کے مطابق آئندہ ماہ اکتوبر کے وسط تک امریکی صدر کو ایران کی طرف سے سمجھوتے کی پاسداری کی جو تصدیق کرنا ہے، وہ شاید اب ممکن نہ ہو۔ ایک طرف صدر ٹرمپ کا یہ بیان ہے، دوسری جانب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو کا جنرل اسمبلی سے خطاب اور صحافیوں سے گفتگو میں کہنا تھا کہ شمالی کوریا کی وجہ سے دنیا ایٹمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے۔ ایٹمی جنگ، دہشت گردی اور حل طلب تنازعات دنیا کو درپیش خطرات میں سرفہرست ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں خون خرابہ بند کرے، نئی دہلی اور اسلام آباد کو فوری طور پر مذاکرات بحال کرنا چاہئیں، شمالی کوریا کا مسئلہ بھی بات چیت سے حل کیا جائے۔ ادھر اسلامی ملکوں کی تنظیم (او آئی سی) نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں اپنے حق خودارادیت کے لئے پرامن تحریک چلانے والے عوام کے بے دریغ قتل سمیت بدترین تشدد کی طرف توجہ دلائی ہے اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق اس مسئلے کا حل تلاش کرے۔ جہاں تک شمالی کوریا کا تعلق ہے، اس نے عالمی پابندیوں کے جواب میں اپنا جوہری پروگرام تیز کردیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس نے امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کی طرف سے ایک ٹی وی انٹرویو میں دی گئی اس دھمکی کو نظر انداز کردیا ہے کہ امریکہ کی سفارتی کوشش ناکام ہوئیں تو شمالی کوریا پر فوجی حملہ ہی واحد راستہ باقی رہ جائے گا۔ ادھر چینی اور روسی وزرائے خارجہ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ایک بیان میں جزیرہ نما کوریا کے تنازع کو پرامن طور پر حل کرنے پر زور دیا ہے۔ امریکی صدر کے اس بیان سے سب ہی اتفاق کریں گے کہ ’’ہم ایسے وقت میں جی رہے ہیں جب دنیا میں خطرات کے ساتھ بے پناہ مواقع اور امکانات بھی موجود ہیں‘‘۔ صدر ٹرمپ کو ایک سپرپاور کے حکمراں ہونے اور اقوام متحدہ کو دنیا بھر کے ملکوں کا نمائندہ ادارہ ہونے کی حیثیت سے پاکستان جیسے ممالک کی مدد کرنی چاہئے جو بے مثال قربانیاں دے کر ان خطرات کا مقابلہ کررہے ہیں۔ عالمی برادری کوکشمیر، فلسطین اور روہنگیا جیسے مسائل حل کرکے دنیا کو درپیش خطرات کم کرنے اور پرامن بقائے باہمی کی فضا پیدا کرنے میں مدد دینا چاہئے۔

تازہ ترین