• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے متحدہ اپروچ کی ضرورت ہے، جنیوا کانفرنس میں اظہار خیال

جنیوا (مرتضیٰ علی شاہ) دی یورپین فائونڈیشن فار سائوتھ ایشن سٹڈیز، یورپی یونین کے ایک ایکریڈیٹڈ معروف انڈیپنڈنٹ نان پرافٹ تھنک ٹینک اور ایمسٹرڈم کے پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوشن نے جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے36ویں اجلاس کے موقع پر جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کے سائیڈ ایونٹ منعقد کیا۔

ایونٹ کی نظامت کشمیری کمپینر جنید قریشی نے کی اور افتتاحی خطاب بھی کیا۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کے مسائل اس وقت حل کیے جاسکتے ہیں جب دہشت گردی کی بنیادی وجوہات ختم کی جائیں۔ دہشت گردی سے ہر ملک متاثر ہے۔

اس لیے اس مسئلے کے حل کے لیے اجتماع اپروچ کی ضرورت ہے۔ ایونٹ کی خاص بات یہ تھی کہ جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کے مسئلے پر بات کرنے والوں میں کوئی بھی مقرر جنوبی ایشیا کا نہیں تھا اور معروف یورپی یونیورسٹیوں کے سکالرز نے اپنی اپنی مہارت کے ساتھ مسئلے پر خطاب کیا۔ یونیورسٹی آف لیسٹر دی سینٹر فار انٹر نیشنل سٹیڈیز اینڈ ڈپلومیسی ایس او اے ایس لندن ایشیا کے جہاد ازم کے ماہر ڈاکٹر پال سٹوٹ نے کہا کہ برطانوی اسلام کا تارکین کے ساتھ تاریخی تعلق ہے جو اسلامی ملکوں سے برطانیہ آتے ہیں۔ برطانیہ میں حالیہ دہشت گردی کے زیادہ تر حملوں میں عرب ممالک کے تارکین کے بچے ملوث پائے گئے۔ انہوں نے اس حوالے سے حالیہ گرفتاریوں اور افریقی اور عرب تارکین کی دہشت گردی کی کارروائیوں کی مثال پیش کی۔ لیسٹر کی ڈی مونٹ فورٹ یونیورسٹی میں ہیڈ آف ڈویژن فار کمیونٹی اینڈ کرمنل جسٹس پروفیسر روب مک کوسکر نے دہشت گردی اور منظم جرائم کے درمیان تعلق پر اظہار خیال کیا۔ انہوں نے ایف پاک ریجن کے بارے میں بات کرتے ہوئے زور دیا کہ یہ تعلق ان علاقوں میں نمو پاتا ہے جہاں وار لارڈز حکومت کرتے ہوں جو نان سٹیٹ ایکٹرز ہیں۔ ایسی رپورٹس ہیں کہ طالبان روسی آرگنائزڈ کرائم کے ارکان کے ساتھ اسلحہ کی تجارت کے لیے ہیروئن کی تجارت میں ملوث ہوتے ہیں۔ جرمنی میں بیلفیلڈ یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ فار انٹر ڈسپلنری ریسرچ کے سینئر ریسرچر اور پولیٹیکل سائنٹسٹ پروفیسر بورس وک نے دہشت گردی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی حکمت عملی ہے نسل نہیں۔ جنوبی ایشیا میں فرقہ واریت اور آئوٹ سورسنگ ملٹری پاور حکمت عملی کے طور پر مذہبی انتہا پسندی کی طرف لے گئی جو پراکسی وار کی صورت میں سامنے ہے اور اس سے عالمی امن کو خطرہ ہے۔

تازہ ترین