• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’نیرنگیٔ سیاست دوراں ‘‘ دیکھتے دیکھتے چھ دہائیاں گزر گئیں۔ بڑے بڑے گھاگ، دانش مند، ذہین اور حاضر جواب سیاست دان دیکھے۔ ان میں نہایت سنجیدہ اور متین سیاست دان بھی تھے اور نہایت ذہین اور تیز طرار مخالف کو چاروں شانے چت گرانے والےبھی شامل تھے۔ انہیں دیکھنے کے بعد یوں لگتا ہے جیسے اب سیاست ’’بچوں‘‘ کا کھیل بن گئی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہم خود جوان اور نوجوان نہیں رہے۔ بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی نوجوان کم عمر اور بچے لگنے لگتے ہیں اور ان بچوں میں وہ بچے بھی شامل ہیں جن کے بال تو سفید ہو چکے ہیں لیکن وزارت اور اقتدار کے کھیل نے انہیں اس فکری بلوغت اور ذہنی پختگی سے محروم رکھا ہوا ہے جو سفید بالوں کی شان اور بزرگی کی آن سمجھی جاتی ہے۔میرے نزدیک موجودہ کابینہ میں احسن اقبال کی موجودگی غنیمت ہے کیونکہ اول تو وہ پڑھے لکھے اور ا علیٰ تعلیم یافتہ ہیں دوم ان کی ذات ہر قسم کے اسکینڈل سے پاک ہے سوئم ان کا تعلق ایک اسلامی، نظریاتی اور دینی گھرانے سے ہے اس لئے میں فرض کرنے میں حق بجانب ہوں کہ ان کی تربیت دینی خطوط پر ہوئی ہو گی۔ انہیں ’’امین و صادق ‘‘کی ضرب لگنے کا کوئی خطرہ نہیں بلکہ اندیشہ تو یہ ہے کہ اگر امین و صادق کی تلوار کچھ مزید چلی تو احسن اقبال کا وہ حال ہوگا جو ہیر وارث شاہ کے بقول ’’سنجیاںہو جان گلیاں وچ مرزا یار پھرے‘‘وہ میری نگاہوں کے سامنے کوچہ سیاست میں وارد ہوئے، پروان چڑھے اور بلندیوں کا سفر طے کرتے چلے گئے البتہ میں ان کی جس خوبی سے زیادہ متاثر ہوا وہ یہ تھی کہ ہمارے عزیز محترم جب بھی وزارت کا حلف اٹھاتے ہیں، ان کی گردن میں لچک ختم ہو جاتی ہے اور وہ حق بولتے ، حق تولتے اور حق کہتے ہوئے شرمانے لگتے ہیں۔ شاید اقتدار کے رنگ میں رنگ کر مصلحتوں کے اسیر ہو جاتے ہیں جوکہ بہرحال ان کی خاندانی روایات کے مطابق نہیںلیکن وزارت کا اپنا نشہ ہوتا ہے، حکمرانی کا اپنا غرور ہوتا ہے۔
بات قدرے دور نکل گئی اور بات کی یہی ادا مجھے پسند ہے ’’نیرنگیٔ سیاست دوراں‘‘ دیکھنے والوں کو موجودہ سیاست دیدہ بینا نہیں بلکہ بچوں کاکھیل لگتا ہے۔گزشتہ کچھ دنوں سے حکمران ٹولے کے چند اہم ترین اراکین کے درمیان ایک عجیب سی بحث چل رہی ہے جسے آپ ’’پانی میں مدانی ‘‘ سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔نیت اور مفہوم میں اختلاف نہیں لیکن الفاظ کی کھینچا تانی میں ایک دوسرے کے گریبان تک ہاتھ پہنچ رہے ہیں جو پارٹی قیادت کے باہم اختلافات اور ذاتی پسند و ناپسند کی چغلی کھاتے ہیں۔ نئے نویلے وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے بیان دیا کہ ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔یہ بیان امریکی صدر ٹرمپ کے دھمکی آمیز پالیسی اعلان کے سائے میں دیا گیا جس میں ٹرمپ نے پاکستان پر دہشت گردوں کی سرپرستی کا الزام لگایا، حقانی نیٹ ورک کے ساتھ ساتھ کچھ ایسی تنظیموں کے بھی نام لئے جو نہ افغانستان میں ملوث ہیں اور نہ ہی امریکہ کے لئے خطرہ ہیں لیکن ہندوستان ان پر ممبئی حملے اور اندرون ہندوستان دہشت گردی کے الزامات لگایا ہے۔ گویا ٹرمپ کی چارج شیٹ میں ہندوستانی چارجز بھی شامل تھے جو امریکہ ہندوستان اشتراک کا ثبوت ہیں۔ اگرچہ حکومت لشکر طیبہ جماعت جیش محمد جیسی تنظیموں پر پابندی لگا چکی ہے لیکن اندرون و بیرون ملک ایک مضبوط تاثر قائم ہے کہ ان ’’لشکروں‘‘ کو اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی حاصل ہے جو انہیں نان اسٹیٹ ایکٹر کے طور پر ہندوستان خصوصاً کشمیر میں استعمال کرتی ہے حالانکہ کشمیر کی موجودہ تحریک آزادی سوفیصد کشمیریوں کے جذبہ حریت سےپھوٹی ہے۔ اسی سے اس خدشے نے جنم لیا جسے ہمارے بعض جذباتی کالم نگاروں نے مبالغے کا رنگ دیتے ہوئے مریدکے سے لیکر بہاولپور تک امریکی بم گرا دیئے ، ڈرون حملے کروا دیئے، ہزاروں معصوم شہری شہید کروا دیئے حالانکہ ہر ذی فہم انسان سمجھتا ہے کہ امریکہ ڈرون حملے یا سرجیکل اسٹرائیک کر سکتا ہے مگر اپنے حریفوں پر جن میں حقانی نیٹ ورک یا ٹی ٹی پی شامل ہیں امریکہ پاکستان سے ہندوستانی جنگ نہیں لڑے گا اور نہ ہی خود ہندوستان ایٹمی جنگ کا خطرہ مول لے گا۔ امریکہ کو افغان مسئلے کے حل کے لئے پاکستان کی ضرورت ہے اور اس کی کوشش ہو گی کہ پاکستان خود اپنا گھر ٹھیک کرے اور ان دہشت گرد تنظیموںکے خلاف کارروائی کرے جو افغانستان میں دہشت گردی کرتے یا امریکی فوجیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ اگر آپ جناب احسن اقبال، خواجہ آصف اور چوہدری نثار کے مسلسل بیانات پڑھیں اور پھر گزشتہ روز آرمی چیف کا بیان پڑھیں تو ان تمام کا مرکزی مضمون یہی ہے کہ ہمیں اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہے۔ چوہدری نثار کو صرف اتنا سا اختلاف ہے کہ ہمیں یہ کام تو کرنا ہے لیکن ہمارے وزراء ایسے بیانات دے کر ہندوستانی موقف اور ٹرمپ کے الزامات کو جواز فراہم کر رہے ہیں۔ امریکہ جانے سے قبل وزیر خارجہ نے یہ بیان دے کر ایک طرح سے امریکہ کو خود کارروائی کرنے کا عندیہ دیا اور امریکی انتظامیہ کے غصے پر پانی کے چھینٹے ڈالنے کی کوشش کی جس کا سابق وزیر داخلہ نے برا منایا۔ یوں حکومتی قیادت میں اختلافات، باہمی نفاق کا تاثر مضبوط ہوا اور یوں لگا جیسے قومی سیاست نہ ہوئی بچوں کا کھیل ہوا۔ بچوں کے اس کھیل میں کچھ مزید رنگ بھرا ذمہ دار قومی سیاست دانوں کے غیر ذمہ دارانہ بیانات نے غلط اور جھوٹے بیانات نہ ہی صرف انسان کے وقار پر داغ لگاتے ہیں بلکہ لوگ سیاست کو بھی جھوٹ سمجھنے لگتے ہیں۔ جناب احسن اقبال نے انکشاف کیا کہ کس بااثر شخص نے دفتر میں بلا کر چیئرمین نیب پر دبائو ڈالا کہ حدیبیہ پیپر ملز کا کیس اوپن کریں۔ اس بیان کا مقصد ہمدردی اور مظلومیت کا کارڈ کھیلنا اور مسلم لیگ (ن) کی واضح حکمت عملی کا شاخسانہ تھا جس کے تحت وہ عدلیہ اور فوج کو ٹارگٹ کر رہی ہے۔اگلے ہی دن نیب نے اپنے وزیر کی تردید کر دی اور کہا کہ ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ آرمی چیف کی اراکین پارلیمنٹ کو یقین دہانی کہ فوج کا نہ پاناما سے تعلق ہے اور نہ ہی عدلیہ کے فیصلے سے اور یہ کہ فوج جمہوری عمل کو مضبوط دیکھنا چاہتی ہے ایک واضح پالیسی بیان ہے جس پر قوم یقین کرتی ہے لیکن مسلم لیگ (ن) ہے کہ وہی راگ الاپے جا رہی ہے کیونکہ اس کے قائدین کا خیال ہے کہ ان کا باغیانہ انداز اور تصادم کی پالیسی ہی انہیں سیاست میں زندہ رکھے گی ورنہ ماضی اور مستقبل کے عدالتی فیصلے ان کی سیاست پر ضرب کاری لگائیں گے۔ایک سیانے کے بقول حدیبیہ پیپر ملز اور سمدھی اسحاق ڈار کا اعترافی بیان حکمرانوں کے خلاف مقدمات کا پیچھا کرتے رہیں گے اور ایک دن سانحہ ماڈل ٹائون کے مظلومین کی روحیں بھی پکاریں گی کہ ہمیں انصاف دو۔

تازہ ترین