• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جوکچھ ہمارے ہاں ہورہا ہے، یہ سب دیکھ کر مجھے پرانے زمانے کی ایک ریاست کی کہانی یاد آگئی ہے، اس ریاست میں ایک گائوں ایسا تھا جہاں پر کچھ ہوتا تھا جو کہیںاور نہیں ہوتا تھا اگرچہ گائوں کے چند سیانے لوگ اس سب کچھ پر کڑھتے تھے، تنقید کرتے تھے کہ یہ کیا تماشا ہے۔ وہ گائوں کے چوہدری کا ’’چہرہ‘‘ دیکھتے رہتے، اسے سمجھانے کی کوشش کرتے کہ چوہدری صاحب! آپ کسی کوسانپ مارنے کی اجازت نہیں دیتے۔ گائوں کا چوہدری شریف آدمی تھا، ہنس مکھ تھا، بس ہنس دیتا اور کہتا سب ٹھیک ہو جائے گا۔
جس طرح اسلام آباد کے پہاڑ کا نام مارگلہ ہے، اس کا مطلب ہے سانپوں کا گھر۔ اسی طرح اس گائوں میں بھی بہت زیادہ سانپ تھے۔ سانپوں کے زیادہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ کبھی کوئی ان سانپوں کا راستہ ہی نہیں روکتا تھا، لوگ سانپ دیکھ کر یا تو رستہ چھوڑ جاتے تھے یا پھر سلام کر کے آگے نکل جاتے تھے، گائوں میں جگہ جگہ سانپوں کا تماشا ہوتا تھا، سیانے بندے چوہدری سے کہتے کہ یہ تو ایسا لگتا ہے جیسے کوئی ہزاروں سال پرانا گائوں ہو، اس میں تو ایسے تماشے ہورہے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ چوہدری جو جاٹ تھا، طبعاً ایسا کہ بس سن لیتا تھا۔
اس دوران گائوں میں کئی لوگ سانپوں کے کاٹنے سے زخمی ہوئے، کئی ایسے بھی تھے جن کا رستہ سانپوں نے روک لیا، لوگ رستے بدل بدل کر منزل کی طرف چلتے رہے، اس دوران انہیں جنگلوں سے بھی گزرنا پڑتا، وہ جنگلوں سے گزرتے مگرسوچتے کہ؎
جنگل میں سانپ شہر میں بستے ہیں آدمی
سانپوں سے بچ کے آئیں تو ڈستے ہیں آدمی
سانپوں نے انسانوں کا جینا مشکل کردیا تھا مگر گائوں کا جاٹ چوہدری کہتا’’....اچھا چلو، سب ٹھیک ہو جائے گا، گائوں میں آپ کو سانپ نظر نہیں آئیں گے، فی الحال میں خطرناک سانپوں کو مروا رہا ہوں، میرے گھر کے بندے سانپوں کے پیچھے چڑھے ہوئے ہیں، بے فکر ہو جائو....‘‘ چوہدری کی اس تسلی پر گائوں کے چند لوگ مطمئن ہو جاتے مگر گائوں کی اکثریت کہتی نہیں چوہدری یہ ساری باتیں وقت گزاری کیلئے کرتا ہے، گائوں میں باقی لوگوں کے پاس ڈنڈے سوٹے نہیں ہیں، وہ تو سب چوہدری کے اپنے بندوں کے پاس ہیں مگر یہ ہمارا چوہدری پتہ نہیں ہر وقت مصلحت میں گھسا رہتا ہے، سانپوں کے حوصلے اس سے بڑھتے ہیں، وہ گائوں کے لوگوں کو مزید تیزی سے کاٹتے ہیں۔ ایک دن گائوں کا اللہ رکھا بتا رہا تھا کہ اب گائوں کی حالت بہت بری ہوگئی ہے، گائوں کے ہر درخت پرکوئی نہ کوئی سانپ ہے، بہت ڈر لگتا ہے، پرسوں ایک سانپ نے بوٹے کو ڈسا تھا، پتہ نہیں بوٹا بچتا ہے یا نہیں، اسی طرح چاچے بشیرے کو ’’ککھ‘‘ لگ گیا تھا، اب تو بعض اوقات ایک دم سانپوں کی آوازیں اس قد ر آنا شروع ہو جاتی ہیں کہ ہم جیسے غریبوں کی آوازیں تو بالکل ہی دب کے رہ جاتی ہیں، طفیل درزی کوبھی سانپ لڑ گیا تھا، چاچے منے کا سانپوں نے بہت برا حال کیا تھا، پتہ نہیں چوہدری صاحب ابھی کیا سوچ رہے ہیں، چار دن پہلے میں بابے غلام رسول کے پاس گیا تھا، بابا غلام رسول بڑا باہمت آدمی ہے، اپنی شان سے جیتا ہے، دنیا کا اسے کوئی لالچ نہیں، اپنی بات کر جاتا ہے، سچ بولتا ہے، اسی لئے بابے کے ڈیرے پر رش لگا رہتا ہے ورنہ آج کل کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ کسی کے پاس جائے۔ میں تو جب بھی بابے غلام رسول کے ڈیرے پر گیا ہوں، مجھے تو وہاں لوگوں کا ہجوم ہی ملا ہے، مجھے کوئی خاص بات کرنا ہو تو الگ کمرے میں کرنا پڑتی ہے چونکہ بابے کے اردگرد لوگ ہوتے ہیں۔ اس مرتبہ جب میں گیا تو اسی طرح لوگ تھے مگر علیحدہ ملنے کی ضرورت پیش نہیں آئی کیونکہ بابے کی گفتگو کا موضوع عصر حاضر کا بڑا مسئلہ تھا، ہمارے گائوں میں تو سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ سانپوں سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ بابا غلام رسول لوگوں کو بتا رہا تھا کہ ’’....سپنی جب بچے دیتی ہے تو خود ہی اپنے بچوں کو نگل جاتی ہے جو کوئی بچہ دائرے سے نکل جائے وہ بچ جاتا ہے، سپنی کی یہ فطرت مامتا کی بھی توہین کرتی ہے مگر سانپ تو سانپ ہوتے ہیں، انہیں مامتا سے کیا، اپنے بچے نگل کر بھی جب ناگن ناچتی ہے تو لوگ واہ واہ کرتے ہیں، ناگن ناچے تو کون نہیں دیکھتا، مجھے پتہ ہے کہ آپ کے گائوں میں سانپ بہت بڑھ چکے ہیں، اب تو آپ کو سانپ کبھی پھن پھیلائے تو کبھی بپھرے ہوئے موڈ میں نظر آتے ہیں، گائوں کے چوہدری کو چند سیانے ملے ہیں انہوں نے چوہدری کو بتایا ہے کہ چوہدری صاحب! لوگ آپ پر بہت یقین کرتے ہیں، آپ نے اگر سانپوں کے بارے میں اب بھی نہ سوچا تو پھر آپ کی چوہدراہٹ بھی خطرے میں پڑ جائے گی، اس لئے آپ سادگی چھوڑ دیں اور سادہ جاٹ کی بجائے ’’یملا جٹ‘‘ بنیں تاکہ لوگ آپ کو دعائیں دیں، آپ کو یاد رکھیں۔ اس پر چوہدری روایتی انداز میں مسکرایا اور کہنے لگا کہ میں نے ڈنڈا پکڑ لیا ہے، ابھی میں دیکھ رہا ہوں کہ میرے بندے کتنے سانپ مارتے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ سانپ دوائی سے مر جائیں کیونکہ دوائی کا لائسنس ہوتا ہے اگر دوائیوں سے کام نہ چلا تو پھر ڈنڈا تو ہے ہی، لیکن کوشش یہ ہے کہ دوائیوں ہی سے کام ہو جائے، ہاں البتہ دوائیوں کا معیار بہتر بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ مارکیٹ میں جعلی دوائیاں بہت آگئی ہیں، جعلی دوائیوں ہی کی وجہ سے تو ابھی تک سانپوں کا قلع قمع نہیں ہوا، میں نے عہد کر رکھا ہے کہ پوری بستی کو سانپوں سے پاک کردوں گا۔
خواتین و حضرات! آج میں نے پورا کالم ہی غیر سیاسی لکھ دیا ہے، اگلی مرتبہ جب میں لکھوں گا تو مجھے بودی شاہ ضرور یاد آئے گا کیونکہ وہ آپ کو بہت یاد آتا ہے، فی الحال اتنا ہی ہے کہ؎
خوف آیا نہیں سانپوں کے گھنے جنگل میں
مجھ کو محفوظ میری ماں کی دعا نے رکھا

تازہ ترین