• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی پی اور پی ٹی آئی کی آخری وقت پر الیکشن بل میں ترمیم کی کوشش

Todays Print

اسلام آباد (انصار عباسی) اگر ایوانِ بالا نے قومی اسمبلی سے منظور کیے جانے والے انتخابی اصلاحات کے بل، جس کی سینیٹ کمیٹی برائے قانون نے بھی توثیق کی ہے، کی منظوری دیدی تو اس سے نواز شریف کو مسلم لیگ ن کے صدر کی حیثیت سے واپس آنے میں مدد مل سکتی ہے۔ تاہم، اس طرح کی ممکنات کو روکنے کیلئے پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف نے انتخابی اصلاحات کے بل میں علیحدہ علیحدہ ترامیم پیش کی ہیں تاکہ ایسے افراد بشمول آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت نا اہل قرار دیئے جانے والے افراد کو سیاسی جماعت کا عہدہ رکھنے سے روکا جا سکے۔

انتخابی اصلاحات کے قومی اسمبلی سے منظور شدہ بل میں ایسی شق موجود نہیں کہ ایسے شخص کو سیاسی جماعت کا عہدہ رکھنے سے روکا جا سکے۔ اگر قومی اسمبلی کے منظور شدہ بل کو سینیٹ نے بھی من و عن منظور کر لیا تو نواز شریف کی مسلم لیگ (ن) کے صدر کی حیثیت سے واپسی کا منظر نامہ پیدا ہو سکتا ہے۔ الیکشن بل 2017 کی منظوری سے کم از کم 6 قوانین بشمول پولیٹیکل پارٹیز آرڈر (پی پی او)  2002 ختم ہوجائے گا۔ پی پی او  2002 میں لکھا ہے کہ ایسا کوئی شخص سیاسی جماعت کا کوئی عہدہ نہیں رکھ سکتا جو رکن قومی اسمبلی نہیں یا پھر اسے آئین کے آرٹیکل 62 - 63 کے تحت نا اہل قرار دیا گیا ہو۔

تاہم، الیکشن بل میں اس طرح کی کوئی شق نہیں رکھی گئی۔قومی اسمبلی سے بل کی منظوری یا پھر سینیٹ کمیٹی برائے قانون و انصاف کی جانب سے الیکشن بل پر غور کیے جانے کے وقت پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف بھی اس کوتاہی کی نشاندہی نہیں کر سکیں۔ حکومت جمعہ کو یہ بل سینیٹ میں ووٹنگ کیلئے پیش کرنے کی خواہشمند ہے لیکن پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی نے اپنی اپنی متعلقہ ترامیم پیش کر دیں تاکہ نواز شریف کی بطور مسلم لیگ ن کے صدر کی حیثیت سے واپسی کو یقینی بنایا جا سکے۔

الیکشن بل کی شق 203 میں ترمیم کے خواہشمند پیپلز پارٹی کے سینیٹر اعتزاز احسن، تاج حیدر، شیری رحمان اور مرتضیٰ وہاب بشمول اے این پی کے الیاس بلور اور ق لیگ کے کامل آغا نے سینیٹ سیکریٹریٹ کو بتایا کہ نواز شریف کی واپسی کو روکنے کیلئے اس قانون میں شق شامل کی جائے۔ اس شق کا متن یہ ہے: ’’اس قانون کی منظوری کے وقت سے کسی بھی ایسے شخص کو کسی سیاسی جماعت کا عہدیدار مقرر یا خدمات کی انجام دہی پر مامور نہیں کیا جائے گا جو مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کا رکن بننے یا منتخب ہونے کا اہل نہیں۔‘‘ پی ٹی آئی کے سینیٹرز اعظم سواتی، شبلی فراز اور محسن عزیز نے بھی اسی شق نمبر 203 میں ترمیم کی تجویز دی ہے جس کا متن یہ ہے: ’’اس قانون کی منظوری کے وقت سے کسی بھی ایسے شخص کو کسی سیاسی جماعت کا عہدیدار مقرر یا خدمات کی انجام دہی پر مامور نہیں کیا جائے گا جو مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کا رکن بننے یا منتخب ہونے کا اہل نہیں ہے یا پھر اسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی شق 63 یا پھر ملک میں رائج قانون کے تحت نا اہل قرار دیا گیا ہو۔‘‘

الیکشن بل 2017 کی منظوری کے بعد 6 قوانین ختم ہوجائیں گے جو یہ ہیں: الیکٹورل رولز ایکٹ 1974، ڈی لمیٹیشن آف کانسٹی ٹیوئنسی ایکٹ 1974، سینیٹ الیکشن ایکٹ 1975، ریپریزنٹیشن آف پیپلز ایکٹ 1976، الیکشن کمیشن آرڈر 2002 اور ایلوکیشن آف سمبلز آرڈر 2002۔ نا اہل قرار دیے جانے کے بعد، سابق وزیراعظم نواز شریف کو پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کی شق (1) 5 کے تحت پارٹی کی صدارت سے بھی مستعفی ہونا پڑا تھا۔

اس شق میں لکھا ہے کہ ہر شہری، جو حکومتِ پاکستان کا ملازم نہیں ہے، کو اختیار ہے کہ وہ سیاسی جماعت قائم کرے یا کسی سیاسی جماعت کا رکن بن جائے یا کسی سیاسی جماعت کے ساتھ وابستگی اختیار کرے یا سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے یا کسی سیاسی جماعت کا عہدیدار منتخب یا مقرر ہو لیکن ایسا کوئی شخص سیاسی جماعت کا عہدیدار مقرر ہو سکتا ہے نہ ہی وہ اس عہدے پر خدمات انجام دے سکتا ہے جسے آرٹیکل 63 کے تحت یا ملک میں رائج کسی قانون کے تحت پارلیمنٹ کا رکن بننے یا منتخب ہونے کیلئے نا اہل قرار دیا گیا ہو۔

تازہ ترین