• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مکتوب اقوام متحدہ:وزیراعظم نے خود کو غیرمعمولی طور پر مصروف رکھا

 نیویارک (محمد صالح ظافر/ خصوصی تجزیہ نگار) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے دورہ اقوام متحدہ کی اہم ترین اور آخری مصروفیات میں سے ایک کی تکمیل کے بعد وطن واپسی کے لیے عزم لندن کا ارادہ کرلیا ہے، اس دورے میں اُنہوں نے خود کو غیرمعمولی طور پر مصروف رکھا، ان میں مصروف عمل رہنے اور کام کرنے کی توانائی نسبتاً بہت زیادہ ہے، نیویارک میں قیام کی آخری شب سے پہلے اُنہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سربراہی اجلاس سے خطاب کیا، اس طرح عالمی ادارے کے ہیڈکوارٹر میں ان کی مصروفیات اپنے انجام کو پہنچ گئیں، شاہد خاقان عباسی نے اپنے خطاب میں جن خیالات کا اظہار کیا اقوام متحدہ کی راہداریوں میں ان کے بارے میں رائے زنی ہو رہی ہے، پاکستان کے طرفداروں کو اس میں مدبرانہ جھلک دکھائی دیتی ہے جبکہ ناقدین کا بے چین ہونا قابل فہم ہے، پاکستان کے نمائندے سے جن اُمور کے احاطے کی توقع کی جاتی تھی زیرتذکرہ تقریر اس پر پورا اتری ہے، سبکدوش وزیراعظم نواز شریف نے تنازع کشمیر پر آواز بلند کرنے اور اس بارے میں بلند آہنگ ہو کر اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کی جس قابل قدر روایت کا احیا کیا تھا وزیراعظم عباسی نے اسے خاطر خواہ طور پر آگے بڑھایا مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین پامالی سے دنیا کو روشناس کرانا پاکستان کی ہر طرح سے ذمہ داری بنتی ہے اس پر بھارتیوں کی تلماہٹ دیدنی تھی۔

 روہنگیا کے برمی نژاد مسلمانوں کی نسل کشی اور ان پر قافیہ حیات تنگ ہونے کے بعد ان کا اپنی سرزمین کو ترک کر کے دربدر ہونا یقیناً ایک مہیب مسئلہ ہے اس میں پاکستان نے ترکی کے ہم روش ہو کر سرگرم کردار ادا کرنا شروع کر رکھا ہے، افغانستان کے مسئلے پر وزیراعظم عباسی نے پاکستان کے موقف کر درست سیاق و سباق میں اجاگر کیا ہے یہ خوش آئند بات ہے کہ ان کی گفتگو سے افغانستان کے ساتھ مکالے کی راہ ہموار ہو گی، قبل ازیں افغان صدر اشرف غنی جو پاکستان کے وزیراعظم سے ملاقات کے لیے استدعا کر چکے تھے اور ان کی باہمی ملاقات کا نظام الاوقات مشکلات کا شکار تھا تاہم اُنہوں نے اپنی تقریر میں وہ ’’فرمائش زہر افشانی ‘‘ بھرپور شدت سے نہیں کی جس کا تقاضا ان سے نئی دہلی کا اسلام دشمن حکمراں نریندر مودی کرتا آیا ہے اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی اور خارجہ سیکرٹری تہمینہ جنجوعہ نے جس ژرف نگاہی کے ساتھ اپنے ملک کے وزیراعظم کے خطاب کا متن مرتب کیا ہے اور اس میں جس طور پاکستان کی علاقائی اور بین الاقوامی حکمت عملی کو سمویا گیا ہے وہ لائق ستائش ہے، دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے بھرپور کردار اور اس کی بے مثال قربانیوں کا چند ایک سر پھرے حکمرانوں کے سوا دنیا بھر میں اعتراف کیا جا رہا ہے، وزیراعظم عباسی نے اس پہلو کو اجاگر کر کے اپنے میزبان ملک سمیت پاکستان پر نکتہ چینی کے مرتکبین کو قرار واقعی طور پر اس حوالے سے جواب دے دیا ہے دنیا کو اس وقت امن اور استحکام کی اشد تمنا ہے، بے چینی اور بے یقینی کا خاتمہ عالمی امن و سکون کی ناگزیر ضرورت ہے، عالمی ماحول میں انسانیت کش تبدیلیوں کو روکنا اور مستقبل بینی پر دنیا بھر کے لیے لائحہ عمل کی ترتیب کا احساس دلاکر پاکستان نے عالمی برداری کے ذمہ دار رکن ہونےکا ثبوت دیا ہے، شاہد خاقان عباسی نے پاکستان کے روایتی حریفوں کو شاخ زیتون پیش کر کے اپنے ملک کے اس رویے کو اجاگر کیا ہے جسے اس نے ملک کے اندر اور باہر چہار طرف اختیاکر رکھا ہے،اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں ہفتے بھر کی سرگرمیاں نقطہ عروج پر پہنچ جانے کے بعد اب گہما گہمی کم ہو رہی ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جنہیں اس مرتبہ اقوام متحدہ کے لیے بڑے مسئلے کے طور پر متعارف کرایا جا رہا تھا اب اس شہر سے فاصلہ اختیار کر چکے ہیں اُنہوں نے اپنی محتاط تقریر میں شمالی کوریا کے علاوہ ایران کے ساتھ جس شرارت آمیز چھیڑ خانی کا مظاہرہ کیا تھا اس کا ترکی بہ ترکی پہلا جواب ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے ’’شایان شان‘‘ انداز میں دے دیا ہے، اُنہوں نے اقوام عالم سے اپنے طوفانی خطاب کے ذریعے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پرخچے اڑا دیئے ہر چند اُنہوں نے ٹرمپ کا نام نہیں لیا اور کہا کہ گزشتہ روز جو لفظ ادا کیے گئے ان میں نفرت آمیزی تھی اور وہ ایسے تھے کہ اقوام متحدہ میں سنے نہیں جا سکتے تھے جسے امن کے فروغ کی خاطر قائم کیا گیا تھا، اپنے اشاراتی خطاب کو مصنوی قالب میں ڈھالنے کے لیے ڈاکٹر روحانی نے ٹوئٹ کا سہارا لیا جس میں کہا گیا تھا کہ امریکی صدر نے ایرانی قوم کے خلاف بدنما اور جاہلانہ لفظوں کا سہارا لیا جو نفرت آمیز اور بے بنیاد الزامات سے عبارت تھے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے لیے موزوں نہیں تھے، قبل ازیں صدر ٹرمپ نے اپنی تقریر میں ایرانی حکومت کو بدعنوان آمریت قرار دیا تھا جو جمہوریت کے جعلی نقاب کے پیچھے چھپی ہے جس نے ایک دولت مند ملک کو جو شاندار تاریخ اور ثقافت کا حامل ہے اسے اقتصادی طور پر ازکار رفتہ بدمعاش ریاست بناکر رکھ دیا ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ تشدد، خون خرابہ اور افراتفری برآمد کرتا ہے، امریکی صدر نے اپنے پیش رو صدر اوباما کے 2015ء کے ایران کے ساتھ کثیر الاقوامی جوہری معاہدے پر نظرثانی کرنے اور اسے ساقط کرنے کا اشارہ بھی دیا تاہم ایرانی صدر نے اس کا اثر لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر عالمی سیاست میں نووارد بدمعاشوں نے اس معاہدے کو تباہ کیا تو یہ عظیم خرابی ہو گی، امریکی صدر کو یقیناً صدمہ ہو گا کہ اس معاہدے کی اہم فریق یورپی ریاستوں نے اس بین الاقوامی معاہدے سے دستکش ہونے کی مزاحمت کا اعلان کر دیا ہے۔

تازہ ترین