• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی سی بی کے لاجواب کارنامے ! اسکور …سیدیحییٰ حسینی

پاکستان کی قومی ایئر لائن کے بارے میں اکثر اوقات تو آپ نے سنا ہی ہو گا ، "باکمال لوگوں ، لاجواب سروس" ۔ قومی ادارہ خسارے میں ہے، لیکن مجھے یقین ہے یہ اگر اسے میرٹ اور ایمانداری کے تحت چلایا جائے توکوئی شک نہیں کہ یہ منافع بخش ادارے نہیں بن سکتا۔ اب کچھ ایسا ہی معاملہ پاکستان کرکٹ بورڈ کیساتھ بھی ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ درست کہ ورلڈ الیون کے دورہ پاکستان کو دنیا بھر میں بڑی پذیرائی ملی، دنیا بھر میں پاکستان کا سیکورٹی کے حوالے سے لوگوں میں بالخصوص کرکٹ کھیلنے والے ملکوں میں اعتبار اور اعتماد بہت حد تک بحال ہوا، لیکن ابھی بہت سے مراحل ہیں ، جنھیں طے ہونا باقی ہے ، مستقبل میں بہتر حکمت عملی کے بغیر ان ایداف تک پہنچنا آسان ہر گز نہیں ہو گا۔ 35 کروڑ کے اخراجات کیساتھ اگر چہ ہم نے ورلڈ الیون کی میزبانی تو کر لی ،البتہ اگر ہم مستقبل میں پیسے کے بل بوتے پر غیر ملکی ٹیموں کو پاکستان مدعو کرتے رہے ، تو یہ عقلمندی نہیں ہو گی۔ یکم اگست کو پاکستان کر کٹ بورڈ کے اخراجات پر میں نے اپنے کالم میں پی سی بی کے بڑھتے خرچوں اور کم آمدنی کے معاملات پر گفتگو کی تھی، ساتھ ہی یہ بھی تحریر کیا تھا کہ آئی سی سی کے مالی فارمولے کے مطابق پی سی بی کو 2023ء تک تقریباً ساڑھے 13ارب روپے ملنا ہیں ، صورت حال یہ ہے کہ پی سی بی کے خزانے سے 2023ء
آتے آتے آٹھ ارب روپے تنخواہوں کی مد میں نکل چکے ہونگے، کیوں کہ پی سی بی میں اتنا کام نہیں جتنا ملازمین ہیں ، مارکیٹنگ کے شعبے سے لے کر بہت سے کام ’’آوٹ سورس‘‘ کے کھاتے میں ڈال دیے جا تے ہیں۔13ستمبر کو قذافی اسٹیڈیم میں آئی سی سی کے چیف ایگزیکٹو ڈیوڈ رچرڈسن صحافی کے سوال پر واضح جواب دے چکے ہیں کہ 2023ء تک آئی سی سی کے تمام ایونٹس کے میزبان ملکوں کا فیصلہ ہوچکا، لہٰذا پی سی بی اس بارے میں سوچے بھی نہیں ، تو آئی سی سی ایونٹ کی میزبانی کیساتھ مالی منافع کا اگلے چھ سال تو کوئی امکان بچا ہی نہیں۔ ایسے میں سنا ہے کہ چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی لندن میں بھارت کیساتھ قانونی محاذ پر لڑنے سے قبل وکلاء سے مشاورت کر رہے ہیں ۔ اس حوالے سے بورڈ نے ایک خطیر رقم رکھی ہے، کرکٹ کو سمجھنے والے اس بات سے اتفاق کریں گے، یہ عمل پیسے ضائع کرنے سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا۔ یاد رہے کہ آئی سی سی چیف ایگزیکٹو لاہور میں با آواز بلند یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کیساتھ کھیلنے کے لئے ہم بھارتی کر کٹ بورڈ کو مجبور نہیں کر سکتے۔ بگ تھری ختم ہوگیا، البتہ آئی سی سی کے خزانے سے اب بھی بھارتی کر کٹ بورڈ بھاری منافع وصول کر رہا ہے، سب مانتے ہیں ، پاکستان میں کرکٹ فروخت ہوتی ہے، یعنی یہ کھیل منافع بخش کاروبار بن چکا ہے، کسی بڑے ٹورنامنٹ میں ٹی وی چینلز بھلے ہی میچ نہ نشر کر رہے ہوں ، صرف ماہرین کو بٹھا کر تبصروں کی مد میں کروڑوں روپے کی آمدنی بنا لیتے ہیں ۔ اب تو پاکستان سوپر لیگ میں تیسری ٹیم ملتان سلطان 52کروڑ میں فروخت ہو چکی، سیدھا مطلب اب پی ایس ایل تھری کے آغاز سے قبل پی سی بی کے خزانے میں ایک ارب 30کروڑ روپے چھ فرنچائزز جمع کروایں گی۔ لیکن حیران کن طور پر پی سی بی کی اس لیگ کے پہلے دو ایڈیشن کے آڈٹ کا دور دور تک پتہ ہی نہیں ۔ پی سی بی آڈٹ کمیٹی کے سربراہ ٹیسٹ بیٹس مین شان مسعود کے والد منصور مسعود خان ہیں ۔ جو پیشے کے اعتبار سے بینکر ہیں ، پی سی بی گورننگ بورڈ کے متحرک رکن ہیں ، سوال بنتا ہے ؟ وہ خاموش کس مصلحت کے تحت ہیں ۔ ورلڈ الیون کے دورہ پاکستان کے دوران قذافی اسٹیڈیم میں عوام کا جوش و جذبہ قابل تعریف تھا، درحقیقت عوام کی محبت اور خلوص اس سیریز کی جیت تھی ، ایسا لکھنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔ البتہ قذافی اسٹیڈیم میں میچو ں کے مہنگے ٹکٹ پر خود چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی نے اپنی غلطی کا برملا اعترف کیا۔ مجھے کہنے دیجیے کہ آٹھ ہزار روپے آج بھی ایک پاکستانی کے لئے یہ ایک بڑی رقم ہے۔ امید ہے کہ مستقبل میں ٹکٹ کی قیمت اس انداز میں رکھی جا ئے کہ ایک عام آدمی کی باآسانی پہنچ میں آجائے۔ نجم سیٹھی نے 9اگست 2017ء کو بطور چیئرمین پی سی بی دوسری بار عہدہ سنبھالتے ہو ئے ببانگ دہل کہا تھا کہ جو کا م نہیں کرتا اسے گھر جا نا ہوگا۔ فی الحال تو ایسا کوئی کیس منظر عام پر نہیں آیا، البتہ سوشل میڈیا پر ورلڈ الیون کیساتھ 12ستمبر کو پہلے مقابلے میں ٹویٹر پر پی سی بی اکائونٹ سے فہیم اشرف کو ٹی 20میچ میں ون ڈے ڈیبیو کروادیا گیا، مذاق اڑانے کے بعد خاموش سے اس ٹویٹ کو غائب کر دیا گیا، اس حوالے سے مقامی صحافی نے اپنے کالم میں بھی نشاندہی کی تھی۔ ورلڈ الیون کے میچ میں لاہور پہنچ کر پتہ چلا کہ معروف کمنٹیٹر محمد ادریس کا ایکریڈیشن کارڈ نہ بن سکا ، جان کر بہت افسوس ہوا، تو دوسری طرف ایسی خواتین کے گلے میں ایکریڈیشن کارڈ دیکھ کر حیرانگی بھی ہوئی ،جو کسی میڈیا ادارے سے بناء وابستگی میڈیا بکس میں بیٹھ کر صحافیوں کا مذاق اڑا رہی تھیں۔ ویسے مذاق تو آج کل پی سی بی کے سوشل اور میڈیا ڈپارٹمنٹ کا بھی خوب اڑ رہا ہے، جہاں مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ کے سہارے پی سی بی میں نوکری حاصل کر نے والے صاحب نے جو پی سی بی اکیڈمی میں رہائش پذیر بھی ہیں ، جگہ بنانے کے لئے تگ ودو شروع کر دی ہے۔ ویسے ان حضرت کی فیس بیک اکاونٹ پر لگائی جا نے والی ایک تصویر کا بھی بڑا چرچا ہے، جو نیشنلکر کٹ اکیڈ می میں بنوائی گئی، جس پر تنقید ہوئی تو انہوں نے اسے اپنے فیس بک اکائونٹ سے غائب کر دیا۔
yahya.hussaini@geo.tv

تازہ ترین