• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلے ایک قدیم حکایت جو آپ کے حافظے میں کہیں موجود ہو گی۔ چند نابینا افراد نے مل کر ایک ہاتھی کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کی۔ یہ کام وہ اسے چھو کر اورٹٹو ل کر ہی کر سکتے تھے۔ سو ایک نے ہاتھی کے درمیانی جسم پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ ارے، یہ تو ایک دیوار کی مانند ہے۔ دوسرے نے ہاتھی کے دکھائی دینے والے دانت کی نوک کو چھوا تو کہا یہ تو ایک نیزہ ہے۔ تیسرے کے ہاتھوں میں ہاتھی کی سونڈ آئی تو بولا یہ تو ایک سانپ جیسا ہے۔ چوتھے نے پائوں کو درخت جانا ۔پانچویں کی پہنچ میں کان آیا تو کہا کہ یہ تو پنکھے جیسا ہے اور چھٹے نے دم پکڑی اور ہاتھی اسے ایک رسی جیسا لگا۔ اب آپ پوچھیں گے کہ اس حکایت کو دہرانے کا مقصد آخر کیا ہے۔تو میں آپ کو بتائوں کو میں تو محض گزشتہ اتوار لاہور کا جو ضمنی انتخاب ہوا اس کی مختلف تشریحات کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ ہم نےدیکھا کہ کوئی کچھ کہہ رہا ہے اور کوئی کچھ اور ۔ہم یہ مان لیتے ہیں کہ سب اپنی اپنی معلومات، سوچ، تجربے اور تعصبات کے مطابق اپنی رائے کا اظہار یہ جان کر کر رہے ہیں کہ یہی تو سچ ہے۔ اتوار کی رات کہ جب غیر سرکاری نتائج کا اعلان ہوا۔ ان تبصروں اور تجزیوں کا آغاز ہوا اور ہفتے بھر سے یہ سلسلہ نئے اور مختلف زاویوں اور اعداد و شمار کی چھان پھٹک کے ساتھ جاری ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جمعرات کو سابق صدر جنرل مشرف نے آصف زرداری کا نام لے کر جو کچھ کہا ہے اس سے میڈیا کی توجہ ہٹ جائے لیکن لاہور کے ضمنی انتخاب کی موجودہ صورتحال کے پس منظر میں جو اہمیت ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں غور سے دیکھنا ہے کہ اس آئینے میں کیا کچھ نظر آ رہا ہے۔ کیونکہ یہ معاملہ خاصا پیچیدہ ہے اس لئے مجھے اس حکایت کا خیال آیا ،ویسے حکایت کے ہاتھی کاخیال میرے ذہن میں ایک دوسرے ہاتھی کے توسط سے بھی آیا کہ جو انگریزی کے ایک محاورے میں ہمیں پورا دکھائی دیتا ہے یا دکھائی نہیں دیتا ۔اس کا کیا مطلب ہے میں آپ کو ابھی بتاتا ہوں۔ پہلے میں چھ بینائی سے محروم افراد کی ہاتھی سے ملاقات کا کچھ اور ذکر کر لوں۔ اس کا ایک خالص فلسفیانہ پہلو بھی ہے اور فلسفے کی درسی کتابوں میں اسے مذہبی رواداری اور کسی بھی حقیقت کے پہلو دار ہونے کی مثال کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ ہم ان چیزوں کے بارے میں جھگڑتے ہیں جنہیں ہم نے پوری طرح دیکھا اور سمجھا نہیں ہے۔ ان چھ نابینا افراد میں سے ہر ایک اپنی جگہ خود کو سچا سمجھنے میں حق بجانب ہے۔ لیکن ہاتھی تو کسی نے نہیں دیکھا۔ گوتم بدھ کی تعلیمات میں اس حکایت کا ذکر ہے اور مولانا روم کی مثنوی میں بھی اس کا حوالہ ہے۔
اچھا، تو اب وہ دوسرا ہاتھی جس کا تعلق ایک انگریزی محاورے سے ہے اور جسے میں لاہور کے ضمنی انتخاب کے ضمن میں اپنے تجزیئے کے لئے زیادہ مناسب سمجھتا ہوں۔ انگریز ی میں ’’ایلیفنٹ ان دی روم‘‘ کسی ایسے واضح مسئلے یا نکتے کو کہتے ہیں کہ جس کو سب کسی نہ کسی وجہ سے نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یا اس کا ذکر کرنے سے ڈرتے ہیں۔ اور تب یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھائی اس ہاتھی کو تو دیکھو جو اس کمرے میں، ہمارے سامنے کھڑا ہے۔ اس کی بات کیوں نہیں کرتے۔ اب آپ پوچھیں گے کہ میری نظر میں یہ ہاتھی کس مسئلے یا خطرے کی علامت ہے۔ لاہور کے ضمنی انتخاب کے نتائج کے بارے میں کئی باتیں کہی جاچکی ہیں۔ کئی فیصلے صادر کئے جا چکے ہیں۔ یہ پہیلی بھی ہے کہ کوئی جیت کر ہار گیا ہے اور کوئی ہار کر جیت گیا ہے۔ نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف پاناما کے مقدمے میں سپریم کورٹ کی حکمت کی بازگشت گلی کوچوں میں سنائی دے رہی ہے۔ لیکن چند باتیں ایسی ہیں جن پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جا رہی۔ میں جب نتائج پر غور کرتا ہوں تو سب سے پہلے پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں میرے ذہن میں کئی سوال پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے سوال جو ڈراتے ہیں۔ دوسرے میں اس انتخاب میں پاکستانی معاشرے کے فکری اور اخلاقی زوال کی نشانیاں دیکھ رہا ہوں۔ اور میرے اپنے لئے سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ پاکستانی سیاست اور عوامی سوچ میں اب روشن خیال، ترقی پسند اور لبرل نظریات کے لئے شاید کوئی جگہ نہیں بچی ہے۔ اس پسپائی کی ایک علامت پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کی شرمناک شکست کو سمجھا جا سکتا ہے لیکن بات زیادہ گہری ہے۔ پیپلز پارٹی کی پنجاب میں جو حالت ہے اس کا سب کو کافی اندازہ ہے۔ کمرے میں جو ہاتھی ہے وہ دراصل نئی مذہبی نوعیت کی تنظیموں کے مقابلےمیں جماعت اسلامی کی درگت ہے۔یہ معاشرے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی ذہنی افراتفری کا ایک ثبوت ہے۔ یعنی اگر مذہبی سیاست زور پکڑتی ہے تو اس کا علم جماعت اسلامی جیسی منظم اور مستحکم جماعت کے ہاتھ میں ہونا چاہئے۔ آخر اس کی ایک تاریخ ہے۔ اس کی ایک فکری اساس ہے جس سے اختلاف جمہوری عمل کا حصہ ہے۔ یہ کون لوگ ہیں جو یا تو ممتاز قادری کی محبت میں یا کسی بنیادی طور پر کالعدم تنظیم کے خیمے سے نکل کرمیدان میں آئے اور چھا گئے اور جماعت اسلامی ان کی اڑائی ہوئی گرد میں چھپ گئی۔ حیرت کی بات ہے کہ ان لوگوں نے دو چار نہیں بلکہ 11فیصد ووٹ حاصل کئے۔
افسوس کہ نتائج کی خاطر خواہ تشریح اور تحقیقی جائزے کی یہاں گنجائش نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ضمنی انتخابات میں ووٹنگ کا تناسب کافی کم رہتا ہے۔ لیکن یہ تو جیسے کفر اور باطل کی جنگ تھی۔جیسے نواز شریف کی ذات کے بارے میں ایک ریفرنڈم ہو۔ سو 40فیصد کے قریب کی شرح ووٹ دے سکنے والوں کی اکثریت کی غیر حاضری کا ثبوت ہے۔ عمران خان مسلسل نوجوانوں کی بات کرتے ہیں۔لاہور کے حلقے 120 میں تو نوجوانوں کی نمایاں تعداد کو سیاسی عمل میں شامل ہوتے ہوئے نہیں دیکھا گیا ۔ یہی بات خواتین کے بارے میں کہی جا سکتی ہے جبکہ جنگ خواتین ہی کے درمیان تھی۔ایک ڈاکٹر ،ایک مریض اور انتخابی مہم کے افق پر روشنی بکھیرنے والی ایک خاتون رہنما۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ ایک ایسے انتخاب کے لئے جس میں دو بڑی جماعتیں آمنے سامنے تھیں امیدواروں کی تعداد چالیس سے زیادہ تھی۔ یہ لکھا گیا ہے کہ یہ بھی نواز لیگ کے خلاف کی جانے والی ایک سازش تھی۔ لیکن یہ تو پاکستان کی سیاست کی ماحولیاتی آلودگی کی ایک مثال ہے اور جمہوریت کی صحت پر اس کا اثر تو پڑے گا ۔
الیکشن کمیشن نے جتنی جماعتوں کو رجسٹر کیا ہوا ہے اتنا اسکور ون ڈے کرکٹ میں جیت جانے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ یعنی سوا تین سو۔ غرض حالات کچھ ایسے ہیں کہ دل بیٹھنے لگتا ہے۔ دہشت گردی ،انتہا پسندی اور عدم برداشت کے خلاف جنگ کو ہم پاکستان کی بقا کی جنگ کہہ سکتے ہیں مگر یہاں تو ایک جمہوری عمل میں انتہا پسندی اور عدم برداشت کی قوتیں قدم بڑھاتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں ۔جمہوری اقدار کا اصل مطلب فکر اور اظہار کی آزادی اور انسانی حقوق کی پاسداری ہے۔ اسی کو ہم روشن خیال اور لبرل سوچ کہہ سکتے ہیں اور اس کی پسپائی صاف دکھائی دے رہی ہے خواہ ہم جمہوریت کے ہاتھی کو کہیں سے بھی چھو کر ٹٹول کر دیکھ لیں۔

تازہ ترین