• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے اپنے دور میں سرعام قتل کردی جانے والی عوامی لیڈر محترمہ بے نظیر بھٹوکی ’’ایف آئی آر‘‘ ان کے شوہر آصف علی زرداری کے نام کاٹ دی ہے۔جنرل صاحب یہ انکشاف اس وقت کررہے ہیں جب محترمہ شہید کے لواحقین میں شامل ان کی جماعت پیپلز پارٹی بمعہ ان کے شوہر آصف زرداری قتل کی اس واردات میں ملوث مبینہ ملزم پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ کے حقیقی مدعی بننا چاہ رہے ہیں۔مدعی کے ساتھ حقیقی کا سابقہ اس لئے نتھی کرنا پڑا کیونکہ پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور میں تو بی بی شہید کے بہیمانہ قتل کی شہادت ملی اور نہ ہی مدعیوں نے اس کا پیچھا کیا ۔فیض نے خاک نشینوں کے خون ناحق کے لئے کہاتھاکہ
نہ مدعی، نہ شہادت ،حساب پاک ہوا
یہ خون ِ خاک نشیناں تھا ،رزق خاک ہوا
جنرل (ر) مشرف الزام لگاتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا براہ راست فائدہ چونکہ آصف علی زرداری کو ہوااسلئے وہی ان کے قاتل ہیں۔موصوف کا کہنا ہے کہ مرتضیٰ بھٹو کے قتل کی سازش کے پیچھے بھی آصف زرداری ہی ملوث تھے۔چونکہ دونوں کے قتل کے بعد مسٹر زرداری بھٹوز کے سیاسی وارث اور پارٹی کے شریک چیئرمین بنے اسلئے شک یقین میں بدل جاتاہے کہ وہی سازش میں ملوث ہیں۔بقول مشرف ،آصف زرداری کوبے نظیر بھٹو اورمرتضیٰ بھٹو کے مبینہ قتل سے فائدہ ہوا ۔سوال پیدا ہوتاہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل اور شاہ نوازبھٹو کے قتل سے کس کوفائدہ پہنچا تھا؟یوں دکھائی دیتاہے کہ جنرل (ر) مشرف اپنا یہ بیانیہ عدالت میں تو درکنار اپنے فیورٹ ٹاک شوزمیں بھی ثابت نہیں کرسکیں گے ۔اس تاریخی وقوعہ کی صحافتی روئیداد یہ بھی ہے کہ جنرل ضیاالحق کے تاریک دور میں بھٹو کو قاتل کہنے والے ’’مورخین‘‘ نے بعدا زاں بھٹو کو قاتل کی بجائے مظلوم اور آمر کو ظالم کے نام سے یاد رکھا۔ضیا الحق کے گیارہ سالہ دور میں رائٹ ہینڈ ڈرائیوران دانشوروں اور وثیقہ نویسوں نے کبھی کلمہ حق بلند نہیں کیاتھا ۔سچ لکھنے کے لئے شعوری اور لاشعوری طور پر انہیں17اگست 1988کا انتظار کرنا پڑا جب بہاولپور کی بستی لال کمال میں سی 130 طیارہ فنا کے گھاٹ اتر نہیں گیا تھا۔جنرل مشرف کے نزدیک اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کا صدر اور وزیر اعظم بننا فائدہ مند ہوتا ہے تو تفتیش کا دائرہ وسیع ہوسکتا ہے ۔ ایسا ہوجائے توپھر سید یوسف رضاگیلانی اور راجہ پرویز اشرف کا نام بھی مدعیوں کی بجائے مدعاعلیہان میں آسکتاہے ۔یہی نہیں یہ فہرست توپھر اور بھی طویل ہوسکتی ہے جس میں ’’بڑے وزیراعظم‘‘ چوہدری شجاعت حسین ’’چھوٹے وزیر اعظم ‘‘ یعنی ڈپٹی وزیراعظم چوہدری پرویز الہٰی ’’ٹریکل ڈائون فیم وزیراعظم ‘‘ شوکت عزیز’’ہاکی فیم ‘‘وزیر اعظم محمد خان جمالی اورایسے وزراء اعظم کا نام بھی تفتیش میں شامل کیاجاسکتا جنہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اپنی ہیڑک مکمل کی۔
سابق وزیر اعظم نوازشریف کی نااہلی کے بعد مورخ نے بیان کیاکہ پاکستان کی 70سالہ تاریخ میں 17وزیراعظم اپنی مدت عہدہ پوری کرنے سے پہلے گھر بھیج دئیے گئے۔نوازشریف کو اس ملک کے عوام نے تین بار وزیر اعظم منتخب کیامگر ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں انہیں حکومت سے نکال دیاگیا۔الیکٹرانک میڈیا پر سچائی کے رابن ہڈوں کا بیانیہ ہے کہ نوازشریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدہ سے ہٹایا جانا تاریخی فیصلہ ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماراعدالتی نظام کرپشن اور مافیاز کے خلاف انقلابی مگر قانونی فیصلے کررہاہے۔اس طرح پہلی بار ملک کی طاقتور اور کرپٹ ایلیٹ کے خلاف عدل وانصاف ہورہاہے۔اس ضمن میں طلال چوہدری کا بیان اہم ہے ’’ہم عدالت کو اتنا طاقتور دیکھنا چاہتے کہ وہ مشرف کوبھی کٹہرے میں کھڑا کرے‘‘۔ طلال چوہدری کی اس ’’دھمالی سیاست‘‘ سے اختلاف کیاجاسکتا ہے جو وہ کبھی چوہدری پرویز الہی کے ’’ڈغے ‘‘ پر کرتے رہے ہیں مگر بات تو درست ہے۔
جنرل محمد ضیا الحق کی طرح جنرل مشرف بھی آئین کو کاغذ کا ایک ٹکڑا ہی سمجھتے ہیں۔وہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ اگر آئین کو بچائیں تو ملک برباد ہوتاہے اور اگر ملک کو بچائیں تو آئین توڑنا پڑتاہے۔فیلڈ مارشل ایوب خان سے لے کر جنرل مشرف تک ہمارے مذکورہ محبان نے ملک کو ’’بربادی ‘‘ سے بچاتے ہوئے آئین کو پامال کیااسلئے نظریہ ضرورت کے تحت ان کی آمرانہ طاقت کو قانونی قوت بخشی جاتی رہی ۔اگر مان لیاجائے کہ مخصوص حالات میں آئین توڑنا جرم نہیں ہے لیکن یہاں تومعاملہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا ہے ۔ پیپلز پارٹی حقیقی مدعی بن کر سامنے آگئی اورمطالبہ کررہی ہے کہ ریڈ وارنٹ کے ذریعے مشرف کو واپس لایااور کٹہرے میں کھڑا کیاجائے۔ محترمہ بے نظیربھٹو کے قتل کی بابت اصل قاتل کو سزادینا اور انصاف کیاجانا ریاست پر فرض ہے ۔اگر ایسانہیں ہوپاتاتوپھر شریف برادران بمعہ اہل وعیال کے احتساب کو حقیقی احتساب قرارنہیں دیا جاسکے گا۔آئین،قانون اور احتساب سب کے لئے برابر ہوناچاہیے اگرایسانہیں کیاجاتا توپھر زندہ قوم ہونے سمیت جملہ ہرقسم کا بلند وبانگ دعویٰ بے معنی ہے۔ سوال اٹھائے جارہے ہیںکہ جیسی پھرتی پاناما کیس میں دکھائی گئی ایسی تندہی بے نظیر قتل کیس میں کیوں نہ دکھائی جاسکی؟؟؟
اسحاق ڈار کے گھر نیب اہلکاروں کا جانا اور ان کی طرف سے وطن واپسی کاکنفرم ٹکٹ کینسل کرانااور نیویارک میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی امریکی ودیگر صحافیوں کے ساتھ پریس کانفرنس کے حوالے سے لکھنا چاہ رہاتھا۔جس میں وزیر اعظم عباسی نے بغیر ٹائی کے پینٹ کوٹ زیب تن کررکھاتھااور پوٹھوہاری اسٹائل کی انگریزی میں محتاط اندازمیں گفتگوکررہے تھے۔ پریانکاچوپڑہ اور ملالہ یوسف کی ملاقات اور ملکہ ترنم نورجہاں کی سالگرہ پر لکھناچاہ رہاتھا۔ دل تو یہ بھی چاہ رہاہے کہ اس ملک کے غریب اور مسکین عوام کے کھاتوں میں لگ بھگ دوکھرب(196ارب) کے بجلی اور گیس کے بل ڈالنے کی’’عالمی واردات‘‘ پر ایسا نوحہ لکھوں کہ دکھیارے عوام کے ساتھ ہونے والے ظلم کا نقشہ کھینچ سکوں مگر اس مشکل کام کے لے میر دبیر کا اسلوب اور میرانیس جیسا جگر کہاں سے لاوں؟؟؟آفرین ہے کہ اس ملک کی جمہوری و غیر جمہوری ایلیٹ پر جسے یہ ادراک نہیں کہ اس ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی وسائل کو ہڑپ کررہی ہے ۔ایک طرف آبادی کا میٹرکس ہے جو ہر لمحہ آبادی اگل رہاہے دوسری طرف انرجی کا بحران ہے ۔شہنشاہ ِجذبات کی مانند فلمی ڈائیلاگ بولتے ہوئے حکمران جواپنے اسکرپٹ میں وطن عزیز کو ایک یوٹوپین (تصوراتی ریاست) بناکر پیش کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ملک ہر قسم کے بحران کاناسا( امریکی سائنسی تجربہ گاہ) دکھائی دیتاہے۔ حکمرانوں کی آدھی سے زیادہ اسٹارکاسٹ اس وقت لندن لنگر انداز ہے ۔ان کی غیر موجودگی میں حدیبیہ اور ماڈل ٹائون کیس میں بھی پیش رفت ہورہی ہے۔ پاناما سے لے کر اقامہ کاسلسلہ پہلے سے جاری ہے، اس وقت شریف خاندان کے ہر فرد کے خلاف قانونی کارروائی کی جارہی ہے،میاں نوازشریف وزارت عظمیٰ سے محروم ہوچکے اب انہیں مزیدسنگین الزامات کا سامنا ہے۔نوازشریف اور انکے حواری احتساب کو انتقامی کارروائی اور سازش قرار دے رہے ہیں۔اگر مشرف ، آصف زرداری ،عمران خان سمیت دیگر کے ساتھ امتیازنہ برتاجائے اور انہیں بلاتقریق قانون کے کٹہر ے میں کھڑا کیاجائے تویہ اصل احتساب ہوگا۔احتساب کے ڈر سے وطن سے دور رہنماوں کے نام قوم کا پیغام ملاحظہ ہو
نظر میں رہتے ہو جب تم نظر نہیں آتے
یہ سُر بلاتے ہیں جب تم اِدھر نہیں آتے

تازہ ترین