• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہوم آفس کے بےسروپا فیصلے! امیگریشن قوانین … ڈاکٹر ملک کے ساتھ

برطانیہ امیگریشن قوانین میں آئے روز تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں جب سے برطانیہ میں برسراقتدار کنزرویٹو پارٹی کی حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے، انہوں نے امیگریشن قوانین اور نظام کو یکسر تبدیل کردیا ہے۔ گزشتہ سال کے آغاز تک انہوں نے امیگریشن قوانین میں پینتالیس ہزار سے زائد تبدیلیاں کردیں اور ان تمام قوانین کو تبدیل کردیا جن سے کہ تارکین وطن کو کسی بھی طرح سے فائدہ پہنچ سکتا تھا۔ اسی طرح امیگریشن کے معاملات میں اپیل کرنے کے حق کو بھی ساقط کردیا گیا۔ برطانیہ کی پارلیمنٹ سے امیگریشن کے بارے میں جو بھی قوانین بنتے ہیں انہیں بذریعہ ہوم آفس نافذ العمل کیا جاتا ہے۔ ہوم آفس کا سٹاف لوگوں یا تارکین وطن کی درخواستوں پر قانون کے تحت فیصلے کرنے کا پابند ہے چونکہ ہوم آفس سے فیصلے قانون کے تحت ہوتے ہیں اس لئے قرین انصاف ہے کہ ہوم آفس نہ صرف قانون دان لوگوں کو تعینات کرے بلکہ ایسے سٹاف کو ملازم رکھے جوکہ قانون پر عبور رکھتے ہوں اور قانون کے تحت فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں لیکن بدقسمتی سے ہوم آفس کے سٹاف میں قانون سے شناساہی رکھنے والوں کی خاصی کمی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہوم آفس کے سٹاف میں سے 96فی صد (96%) کے پاس قانون کی ڈگری ہی نہیں ہے۔ اس طرح قانون سے بے بہرہ سٹاف قانون کے نام پر آئے دنوں غلط فیصلے کرکے تارکین وطن کی مشکلات میں اضافہ کا باعث بن رہے ہیں۔ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کہ ہوم آفس کے پاس قانون دانوں اور پڑھے لکھے سٹاف کی کمی ہے اس لئے ہوم آفس کا تقریباً سارا سٹاف (Cut & Paste)کرکے درخواستوں پر فیصلے کرتے ہیں۔ یہ روزمرہ کا معمول ہے کہ یہ ناخواندہ سٹاف لوگوں کے نام، تاریخ پیدائش اور شہرت بھی کٹ اور پیسٹ کرکے درخواست دہندگان کو جانے والے خطوط پر چپکا دیتا ہے۔ اور یوں یہ غلط فیصلے کرکے تارکین کے ساتھ مذاق کیا جارہا ہے۔ شادی کی بنیاد پر برطانیہ آنے والوں کے لئے جب اٹھارہ ہزار 600 پونڈز سالانہ کی آمدنی کا قانون بنایا گیا تو اس کو عدالتوں میں چیلنج کیا گیا جہاں سے کچھ عرصہ قبل برطانیہ کی سپریم کورٹ نے MM Lebnanنامی کیس میں قرار دیا کہ حکومت کو شادی کی بنیاد پر برطانیہ آنے والوں کے لئے اگر وہ 18ہزار 600پونڈز کی مطلوبہ آمدنی ثابت کرنے سے قاصر ہوں تو ان کی متبادل آمدنی کے ذریعے زیرغور لاکر ان کی درخواستوں پر فیصلے کرنے چاہیں۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی روشنی میں قانون میں ایک بالکل ہی معمولی سی ترمیم کرکے اس کو 10اگست 2017ء سے نافذ کر دیا۔ اس ضمن میں ہوم آفس کے کسی ایک سٹاف نے ایک خط ڈرافٹ کرتے ہوئے کسی شخص کی درخواست مسترد کردی۔ یہ ڈرافٹ شدہ خط ہوم آفس کے ناخواندہ سٹاف کے ہتھے چڑھ گیا اور انہوں نے غلطی سے یہ سمجھنا شروع کردیا کہ سپریم کورٹ کے MM Lebnan نامی مقدمہ اور 10اگست 2017ء کی قانونی ترمیم کے تحت کسی بھی شخص کی درخواست مسترد کردی جاسکتی ہے۔ اس لئے اب ہوم آفس کا سٹاف تقریباً ہر درخواست کے مسترد ہونے کی وجہ سے یہ کیس اور قانونی حالیہ ترمیم بتا کر آئے دنوں درخواستیں مسترد کررہے ہیں۔ حالانکہ کسی ورکر کے ڈرافٹ شدہ ایک خط کو کٹ اور پیسٹ کرکے لوگوں کو غیر متعلقہ معاملات میں بھیجا ان کی نااہلی کا بہت بڑا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی اب یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ ہوم آفس کا سٹاف چونکہ فیصلے ڈرافٹ نہیں کرسکتا ہے اس لئے اب صرف ایک یا دو سطروں پر مبنی فیصلہ ارسال کررہے ہیں حالانکہ قانون کسی درخواست کے مسترد ہونے کی صورت میں متعلقہ اہلکار یا سٹاف کی ذمہ داری ہے کہ وہ درخواست مسترد ہونے کی ساری کی ساری وجوہات تفصیل سے بیان کرے اور اس کے لئے اس کے پاس قانونی جواز بھی ہو۔ اب چونکہ امیگریشن کے معاملات میں اپیل کا حق ختم ہوچکا ہے اس لئے ہوم آفس کا سٹاف بے غم ہے کہ ان کی نااہلی کو اپیل کے ذریعے اجاگر کیا جاسکتا ہے اور یوں اپیل کے حق کے خاتمہ کے بعد نہ صرف ہوم آفس کی جانب سے غیرقانونی اور من مانے فیصلوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے بلکہ ہوم آفس کی نااہلی بھی اب کھل کر سامنے آرہی ہے۔

تازہ ترین