• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینیٹ نے الیکشن بل 2017 منظورکر لیا اور اپوزیشن کی ترامیم مسترد کر دی گئیں

Todays Print

اسلام آباد (انصار عباسی) مشکلات کے شکار سابق وزیراعظم نواز شریف کو جمعہ کے دن اس وقت سیاسی طاقت ملی جب اپوزیشن کے زیر غلبہ ایوانِ بالا (سینیٹ) نے الیکشن بل 2017 منظور کرتے ہوئے نواز شریف کی بطور مسلم لیگ (ن) کے صدر کی حیثیت سے واپسی کی راہ ہموار کر دی۔ پاناما کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے نا اہل قرار دیئے جانے کے بعد نواز شریف کو وزیراعظم پاکستان اور مسلم لیگ (ن) کے صدر کا عہدہ چھوڑنا پڑا تھا۔

جمعہ کو سینیٹ نے الیکشن بل 2017 منظور کیا اور اپوزیشن کی ترامیم مسترد کر دی گئیں جن میں موجودہ قانون کی ایک شق برقرار رکھنے کا مطالبہ کیا گیا تھا جس کے تحت پارلیمنٹ کا ایسا رکن جسے نا اہل قرار دیدیا گیا ہو وہ سیاسی جماعت کا کوئی عہدہ نہیں رکھ سکتا۔

نواز شریف کو نا اہل رکھنے کیلئے پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کی شق (1)5 کا حوالہ پیش کیا گیا تھا لیکن اب الیکشن بل 2017 کی منظوری کے بعد پولیٹیکل پارٹیز آرڈر ختم ہوگیا ہے۔ سینیٹ کی جانب سے جمعہ کو منظور کیے جانے والے قانون میں عہدہ رکھنے سے روکنے کی کوئی شق موجود نہیں کہ اگر کوئی شخص رکن پارلیمنٹ بننے کا اہل نہیں تو وہ کسی سیاسی جماعت کا عہدہ بھی نہیں رکھ سکتا۔ نا اہل قرار دیئے جانے کے بعد، نواز شریف کو پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کی شق (1)5 کے تحت مسلم لیگ (ن) کی صدارت سے بھی مستعفی ہونا پڑا تھا۔ مذکورہ شق میں لکھا ہے کہ ہر شہری، جو حکومتِ پاکستان کا ملازم نہیں ہے، کو اختیار ہے کہ وہ سیاسی جماعت قائم کرے یا کسی سیاسی جماعت کا رکن بن جائے یا کسی سیاسی جماعت کے ساتھ وابستگی اختیار کرے یا سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے یا کسی سیاسی جماعت کا عہدیدار منتخب یا مقرر ہو لیکن ایسا کوئی شخص سیاسی جماعت کا عہدیدار مقرر ہو سکتا ہے نہ ہی وہ اس عہدے پر خدمات انجام دے سکتا ہے جسے آرٹیکل 63 کے تحت یا ملک میں رائج کسی قانون کے تحت پارلیمنٹ کا رکن بننے یا منتخب ہونے کیلئے نا اہل قرار دیا گیا ہو۔

الیکشن بل 2017 کو ابتدائی طور پر قومی اسمبلی سے منظور کیا گیا تھا لیکن سینیٹ کی جانب سے کچھ تبدیلیاں کیے جانے کے بعد اب یہ بل دوبارہ قومی اسمبلی میں منظوری کیلئے پیش کیا جائے گا۔ صرف یہی نہیں کہ قومی اسمبلی سے منظور شدہ الیکشن بل 2017 میں نواز شریف پر سیاسی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے پابندی عائد کیے جانے کا کوئی ذکر نہیں تھا بلکہ مسلم لیگ (ن) کیلئے باعثِ اطمینان بات یہ بھی ہے کہ سینیٹ نے بھی اسطرح کی تجاویز مسترد کر دیں۔ جمعہ کو پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی نے انتخابی اصلاحات کے بل میں علیحدہ علیحدہ ترامیم پیش کیں تاکہ ایسے افراد بشمول آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت نا اہل قرار دیئے جانے والے افراد کو سیاسی جماعت کا عہدہ رکھنے سے روکا جا سکے۔

تاہم، ایوانِ بالا میں مسلم لیگ (ن) اقلیتی جماعت ہونے کے باوجود اپنے پارٹی رہنما کیلئے بڑی سیاسی جگہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ جمعہ کو اس اخبار نے خبر شائع کی تھی کہ پیپلز پارٹی نے سینیٹ سیکریٹریٹ میں الیکشن بل 2017 کی شق 203 میں ترمیم جمع کرائی تھی تاکہ نواز شریف کی واپسی کو روکا جا سکے۔ اس ترمیم کا متن یہ تھا: ’’اس قانون کی منظوری کے وقت سے کسی بھی ایسے شخص کو کسی سیاسی جماعت کا عہدیدار مقرر یا خدمات کی انجام دہی پر مامور نہیں کیا جائے گا جو مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کا رکن بننے یا منتخب ہونے کا اہل نہیں۔‘‘

پی ٹی آئی کی جانب سے مجوزہ ترمیم کا متن یہ تھا: ’’اس قانون کی منظوری کے وقت سے کسی بھی ایسے شخص کو کسی سیاسی جماعت کا عہدیدار مقرر یا خدمات کی انجام دہی پر مامور نہیں کیا جائے گا جو مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کا رکن بننے یا منتخب ہونے کا اہل نہیں ہے یا پھر اسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی شق 63 یا پھر ملک میں رائج قانون کے تحت نا اہل قرار دیا گیا ہو۔‘‘

تاہم اپوزیشن یہ ترمیم منظور نہ کرا سکی۔ اب مسلم لیگ (ن) کیلئے قومی اسمبلی سے یہی بل دوبارہ منظور کرانا بہت آسان ہوگا تاکہ نواز شریف کی بطور مسلم لیگ (ن) کے صدر کی حیثیت سے واپسی یقینی بنائی جا سکے۔

تازہ ترین