• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شریف فیملی کیلئے حالات خراب، درمیانی راہ نکالنے پر بات ہو رہی

Todays Print

کراچی (ٹی وی رپورٹ) معروف تجزیہ کار طلعت حسین نے کہا ہے کہ فوج اور شریف فیملی میں پھڈے پر اپوزیشن خوش ہوگی، یہ کہنا حماقت ہوگی کہ موجودہ حکومت اور فوج کے تعلقات بہترین ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیو کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں میزبان سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ جبکہ شاہزیب خانزادہ کا اپنے تجزیئے میں کہنا تھا کہ لیگی رہنمائوں کے بیانات سے اداروں کے درمیان تصادم کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔

شاہزیب خانزادہ نے اپنے تجزیئے میں مزید کہا کہ مسلم لیگ ن کے ساتھ کو کچھ ہورہا ہے یا ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے اگر ایسا ہی ہوتا رہا تو اس کا اینڈ گیم کیا ہوگا، ن لیگ عجیب کشمکش کا شکار ہے ، پارٹی کے اندر اور پارٹی پر الزام تراشیاں بڑھ رہی ہیں اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ن لیگی رہنما ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں ہیں، دوسری طرف پارٹی رہنماؤں کے بیانات سے اداروں میں تصادم کا خطرہ بھی بڑھ رہا ہے، ادارے کا موقف یہ ہے کہ پاناما کیس ہو یا کوئی اور معاملہ ادارہ اس کے پیچھے نہیں ہے لیکن دوسری طرف ن لیگ کے رہنما طلال چوہدری ، مریم نوا ز اور جی ٹی روڈ پر نوا ز شریف کی تقاریر میں نام نہیں لیتے لیکن واضح اشارہ کرتے دکھائی دیتے ہیں اور عدالتی فیصلوں پر تنقید کرتے نظر آئے، ماضی میں اداروں کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے والے اب خود نون لیگ کی حکومت پر الزام لگا رہے ہیں، ماضی میں شہباز شریف اور چوہدری نثار عسکری اور سول قیادت کے تناؤ میں اپنا کردار ادا کرتے نظر آتے تھے، حالیہ دونوں کے درمیان ملاقات کے بعد بھی یہ تاثر اٹھا تھا کہ اب چوہدری نثار بیان نہیں دیں گے لیکن وہ پارلیمنٹ میں خوب برسے اپنی پارٹی پر، شاہزیب کا کہنا تھا کہ اس سارے معاملہ پر شہباز شریف کی طرف سے بھی خاموشی ہے، سخت زبان استعمال کی جارہی اور غیر واضح انداز میں اداروں اور اسٹیبلشمنٹ پر تنقید بھی جاری ہے.

رانا ثنا ء اللہ کا یہ کہنا کہ جس طرح ہمارے لوگ ضمنی الیکشن کے دوران اٹھائے گئے اس کا انداز وہی تھی جیسا مجھے پرویز مشرف نے اٹھایا اور یہ کہا جانا کہ جو لوگ اٹھائے جاتے ہیں وہ واپس آکر کچھ بتاتے بھی نہیں یہ واضح طور پر اسٹیبلشمنٹ کی طرف اشارہ ہے، سوال اٹھتا ہے کہ کیا ن لیگ عدالت اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکراؤ کی پالیسی لے کر آگے بڑھ سکے گی اور کیا2018میں اسی پالیسی کے ساتھ کامیاب ہوسکے گی، کیا اس پالیسی سے ن لیگ کو نقصان ہوگا یا کوئی انجام ہے جس سے ان کی جماعت کو فائدہ حاصل ہو، شاہز یب خانزادہ کا کہنا تھا کہ ایک وعدہ کیا گیا کہ احتساب ہوگا جس کیلئے حکومتیں گرائی گئیں ، وزرائے اعظم بدلے گئے اور مارشل لاء لگائے گئے لیکن احتساب کا وعدہ پورا نہیں ہوا، نوا ز شریف معاملہ میں بھی یہ ہی نظر آیا کیا سیاسی جماعتیں احتساب میں سنجید ہ ہیں یا احتساب صرف ایک سیاسی نعرہ بن گیا ہے ، اس وقت کوئی سیاسی جماعت سنجیدہ نہیں دکھائی دے رہی، تحریک انصاف ہو پیپلزپارٹی ہو یا ن لیگ ہو جب وعدہ کرتے ہیں کہ احتساب چاہتے ہیں تو وہ وعدہ ان کا صحیح ہوتا نہیں دکھائی دیتا، پاناما کیس کے بعد شریف فیملی کا یہ کہنا ہے کہ ہمارے خلاف انتقام کی کارروائی کی جارہی ہے احتساب کے نام پر اور ماضی میں بھی یہ ہی ہوتا رہا ہے، یہ سوال بھی اہم ہے کہ پاناما میں شریف فیملی کے علاوہ جو بقیہ نام سامنے آئے کیا ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی، کیا آف شور کمپنیوں کے حوالے سے کوئی قانون ساز ی یابہتر تحقیقات ہوئیں، ا س میں ذمہ داری ن لیگ حکومت کی تھی لیکن ساتھ ہی جو ان کے خلاف پٹیشن لیکر کے گئے تھے انہوں نے اس کیس کو کتنا آگے بڑھایا، یہ بات بھی حقیقت ہے کہ پاناما کے نام پر اتنا شور مچا لیکن کیا ایک روپیہ بھی ملک میں واپس آیا، اسی طرح آصف زرداری کے خلاف بھی مقدمات ختم ہوئے اور وہ بری ہوئے لیکن کچھ اب بھی سوالات برقرار ہیں کہ نہ ساٹھ ملین ڈالر واپس آئے اور نہ ہی سرے محل کا کچھ پتا چلا، وہ سرے محل جس میں نوے کی دہائی میں نوا ز لیگ نے پوری حکومت کی، اسی طرح عمرا ن خان نے اپنے کیرئیر کا آغاز بھی سرے محل سے کیا تھا.

شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ بینظیر کی دو حکومتیں کرپشن کا الزام لگا کر ختم کی گئیں اس کا پیسہ کہاں ہیں، ملک میں احتساب کا نعرہ عوام کی دولت واپس لانے کیلئے نہیں بلکہ حکومت گرانے کیلئے استعمال ہوا، شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ اس وقت سیاست پھر ایک مرتبہ نوے کی دہائی کی طرف جارہی ہے جو انتہائی خطرناک ہے، احتساب ہو اور ضرور ہو آغاز بھی طاقتور سے ہونا چاہئے اور اچھا ہے کہ نوا ز شریف کا سب سے پہلے ہو لیکن ملک میں احتساب ہونا چاہئے، احتساب انتقام کی خواہش اور حکومت گرانے کیلئے نہیں بلکہ عوام کیلئے ہو، یہاں احتساب کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے شخصی مقصد ن لیگ تحریک انصاف کے خلاف پٹیش جمع کراتی ہے اور تحریک انصاف نواز لیگ کے خلاف جمع کراتی دکھائی دیتی ہے، شاہزیب کا کہنا تھا کہ نو از شریف جو اس وقت صورتحال سے گزر رہے ہیں اسکے ذمہ دار وہ خود ہیں، ادارے اگر مضبوط ہوتے تو ملک میں سیاسی ہنگامہ برپا نہیں ہوتا، اسی طرح ملک میں اپوزیشن جماعتوں کا نعرہ احتساب ہے لیکن مقصد احتساب نہیں ہے، عمران خان کے اپنے صوبے میں بہت برا حال ہے جو پارٹی میں ہے وہ بھی اور جو پارٹی چھوڑ چکا ہے وہ بھی وزیر اعلیٰ کے پی کے پر کرپشن کے سنگین الزامات لگا رہے ہیں لیکن ان کا احتساب نہیں ہور ہا اور نہ ہی جواب طلبی نظر آرہی ہے، عمران خان بھی کچھ ایسا تاثر دیتے نظر نہیں آرہے.

اسی طرح عائشہ گلا لئی کے الزامات کے بعد فوزیہ قصور ی نے پرویز خٹک پر انگلیاں اٹھائیں اور کہا کہ انہوں نے کرپشن کی ، شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ عمران خان کو چار سال بعد بھی مغربی ممالک کی مثال دینی پڑتی ہے ان کے پاس اپنے صوبہ کی مثال تک موجود نہیں اور عمران خان کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ ان کا اپنا احتساب کمیشن کامیاب نہیں ہوسکا، اے این پی اور قومی وطن پارٹی پر الزامات لگے لیکن ایک روپیہ بھی واپس نہیں آیا، عمران خان ا ب بھی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ پرویز خٹک نے کرپشن کی بلکہ یہ کہتے نظر آئے کہ احتساب کمیشن کے سربراہ نے بھی پرویز خٹک کے خلاف کوئی کرپشن کا الزام نہیں لگایا، لیکن انہی احتساب کمیشن کے سربراہ نے سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ مائنز کیس جو احتساب کمیشن میں پیش ہوگا اس میں پرویز خٹک کی طرف ضرور ریفرنس ہے اور اس میں ان کو شریک ملزم کہہ لیں یا انکی طرف سے اپنے دفتر کا استعمال بھی کیا گیا تھا، کے پی کے میں نہ کوئی میرٹ پر ڈی جی احتساب آسکا نہ پرانے احتساب کمشنر کو روکا جاسکا ، اسی طرح کے پی کے میں بینک آف خیبر کے معاملے پر جماعت اسلامی کے وزیر خزانہ پر الزام لگا لیکن صورتحال واضح نہیں ہوئی، صوبے میں احتساب کمیشن کے خلاف کارروائیوں میں بھی جماعت اسلامی خاموش رہی، ان کا سربراہ چلا گیا وہ خاموش رہے، پرویز خٹک پر الزامات لگے پھر بھی وہ خاموش رہی.

شاہزیب خانزادہ کا مزید کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کا احتساب کا نعرہ بھی سیاسی مقاصد کیلئے ہی دکھائی دیتا ہے، سندھ میں بھی نیب ختم کرنے کی کوشش کی گئی معاملہ عدالت میں گیا تو پتا چلہ کہ نیب سندھ اراکین کے وزراء اور بیوروکریٹس کے خلاف کارروائی کر رہی تھی اس لئے نیب کے ہاتھ پاؤں باندھنے کی کوشش کی گئی ، آج نوا ز شریف انتقام کی بات کرتے ہیں لیکن جب یوسف گیلانی کا معاملہ عدالت پہنچا تو انہوں نے موقت اختیار کیا کہ انہوں نے احتساب کیلئے کچھ نہیں کیا اور سارے طعنے یوسف گیلانی کودئیے، پاناما کا معاملہ آیا تو احتساب کا کوئی قانونی نہیں بنایا، نوا ز شریف نے ماضی کی روایت کو قائم رکھا انہوں جو احساب کی بات کی وہ پوری نہیں کی، اپوزیشن میں ہو تو احتساب اقتدار ملتے تو احتساب بھول جاؤ، پاکستان میں چار مارشل لاء آئے اور یہ جمہوریت پر کرپشن کا الزام لگا کر آئے لیکن اس کا بھی احتساب نہیں ہوا، نہ جرنیلوں نے احتساب کیا نہ ان کا احتساب ہوا، پرویز مشرف نے جو مارشل لاء کا نعرہ لگا یا تھا اس میں بھی احتساب کا ہی نعرہ تھا، 1999میں انہوں نے نیب قائم کیا لیکن احتساب پھر بھی کسی کا نہیں ہوا،2002میں جن پر الزامات لگے وہ اقتدار میں آئے، جو جیل میں تھے ان سے وفاداریاں تبدیل کرائی گئیں اورQلیگ کا حص بنایا گیا۔

تازہ ترین