• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کلہاڑوں کا وار سہنےوالے چل بسے ، بھوکے، اور زخمی روہنگیا موجود

ینگون (خصوصی رپورٹ: علی عمران سید) طویل رات ، کٹھن سفر ، سیکڑوں خطوط ، ای میلز اور انتہائی پیچیدہ عمل کے بعد”جیونیوز“ کی ٹیم بالآخر میانمار پہنچ گئی ہے جو روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار اور وہاں موجود مسلمانوں کی پل پل کی خبروں سے ناظرین کو آگاہ رکھے گی۔ یہ پاکستانی میڈیا کی واحد ٹیم ہے جو رنگون تک رسائی حاصل کرسکی ہے۔ اس سے قبل خانہ جنگی کا شکار شام کی کوریج کی کیلئے بھی جیونیوز کی خصوصی ٹیم علی عمران سید کی قیادت میں دمشق سے حلب روانہ ہوئی تھی جہاں شدید بمباری کے باوجود اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر عوام الناس کو ہر خبر سے آگاہ رکھا گیا تھا۔

رنگون سے علی عمران سید نے خصوصی پیغام کے ذریعے بتایا کہ موجودہ حالات میں جے کیٹیگری کا صحافی ویزا حاصل کرنے کی ہمارے پاس صرف 0.5 فیصد اُمید تھی لیکن نیت سچی ہو تو منزل آسان ہو ہی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ خدا کے فضل سے ہم ویزا حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے، جب ویزا ملا تو ہمیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا بہرحال ہم جانتے ہیں کہ ناظرین کو ہر خبر سے آگاہ رکھنے کے اس کٹھن سفر میں بہت سی مشکلات ہمارے راستے کی رکاوٹ بنیں گی لیکن میں اپنے کیمرہ مین عدنان یحییٰ کے ساتھ ایک نیا عزم لئے میدان میں اُترا ہوں۔ رنگون سے رپورٹنگ کرتے ہوئے علی عمران سید نے بتایا پاکستانی حکومت نے نہ تو روہنگیا مسلمانوں کے معاملے پر برما سے تجارت محدود کرنے یا اقوام متحدہ میں لابنگ جیسے سخت اقدامات کئے اور قیاس کیا جا سکتا ہے کہ نہ ہی چین سے میانمار پر دباؤ ڈالنے کی بات کی ہو گی۔ شدید مظاہروں اور میڈیا دباؤ کے بعد صرف میانمار کے سفیر کو طلب کر کے روہنگیا مسلمانوں کے مسئلہ کو حل کرنے کی ضمن میں توجہ مبذول کرانے اور کارروائیاں روکنے کی بات کی گئی تھی۔

میانمار نے رد عمل دیتے ہوئے پاکستانی سفیر ڈاکٹر خالد میمن کو طلب کر کے پاکستان کے بیان پر تشویش کا اظہار کیا ۔ اگر میانمار میں کسی سے روہنگیا کی بات کی جائے تو اکثریت کا جواب ہوتا ہے کہ یہ بنگالی غیرقانونی تارکین وطن ہیں۔ میانمار میں اکثریتی بیانیے کی بات وہاں کے دفتر خارجہ نے دہرائی ہے اور پاکستان سے کہا ہے کہ کوفی عنان کمیشن نے اپنی رپورٹ میں روہنگیا کا لفظ تک استعمال نہیں کیا ہے، میانمار کے سیکریٹری خارجہ سفیر پاکستان سے طلبی کے وقت موجود رہے اور میانمار کا یہ موقف سامنے آیا ہے کہ وہاں 12 ہزار عسکریت پسند کارروائیاں کر رہے ہیں۔کلہاڑوں ، تلواروں ، گولیوں سے چھلنی اور جلا کر راکھ کر دیئے جانے والے روہنگیا تو اس دنیا میں تکلیف سہنے کیلئے نہیں رہے لیکن بھوکے پیاسے سہمے ہوئے، شدید زخمی روہنگیا مسلمان ضرور موجود ہیں، ایک اطلاع کے مطابق تیس ہزار افراد بنگلادیش اور میانمار سرحد کے درمیان پہاڑوں پر موجود ہیں۔ یہ افراد بنگلادیش کے کیمپوں میں بھی موجود ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں رخائن صوبے کے کچھ کیمپوں میں بھی موجود ہیں۔ میانمار میں انہیں کتنی مدد مل رہی ہے کوئی نہیں جانتا۔

حکومت کا کہنا ہے کہ بے گھر ہونے والوں میں صرف ایک کمیونٹی کے افراد نہیں ہیں۔اس صورتحال میں جب کہ لوگ گھروں میں بیٹھے پریشانی اور کرب میں مبتلا ہیں یا بنگلادیش میں امداد پر دھیان دے رہے ہیں حیدرآباد کے تاجر ذاکر علی براہ راست رنگون آن پہنچے ہیں تاکہ کسی طرح یہاں کے پھنسے ہوئے روہنگیا مسلمانوں تک مدد پہنچا سکیں۔ پا کستا نی حکومت سے 10 روہنگیا خاندان پاکستان میں بسانے اور خرچ اٹھانے کا کوئی جواب نہ ملنے پر یہ میانمار پہنچے ہیں۔ بنگلا دیش اور پاکستانی سفارت خانوں سے جواب ملنے کے بعد اب یہ مایوس ہیں کہ خود مدد نہیں پہنچا سکتے جو کہ انہوں نے رنگون سے خرید کر متاثرین میں بانٹنا تھی۔ انکا مایوس چہرہ اور مدد کی تڑپ دیکھ کر دل متغیر کیفیات کا شکار بھی رہا اور ذہن میں ایک شخص کی تصویر بھی ابھری اس ہستی کا نام ہے عبدا لستا ر ایدھی۔ ایدھی صاحب 2009 میں غزہ پر اسرائیلی حملے کے وقت قاہرہ میں امدادی قافلے اور سامان کیساتھ موجود تھے اور غزہ میں داخلے کے منتظر تھے۔ ہم نے غزہ کوریج کے دوران ان سے امدادی صورتحال پر قاہرہ میں انٹرویو بھی لیا تھا۔

پیرانہ سالی کے باجود ناممکن جگہوں پر پہنچنا ایدھی صاحب کی عادت تھی اور انسانی خدمت اور خلوص انکے گوشت پوست میں بسا ہوا تھا۔ پا کستا ن سے بس ایک پرا پر ٹی ٹائیکون اور ایک اسٹاک بروکر نے میانمار میں پاکستانی سفارت سے خانے سے مدد کی تفصیل مانگی تھی اور یا صرف حیدر آباد کا تاجر تڑپ کر یہاں پہنچا ہے۔ ایدھی صاحب نہیں رہے تو میانمار کے اس امداد کے منتظر علاقے میں پاکستانیوں کی مدد بھی نہ پہنچ سکی۔

تازہ ترین