• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نون لیگ کی طرف سے غلطیوں پر غلطیاں جاری ہیں بلکہ غلطیوں کے پھاٹک کھلتے جارہے ہیں۔یقین کیجئے کہ نواز شریف اِ س وقت جس مقام ِ عبرت پر متمکن ہیں۔ اُس تک پہنچنے کےلئے انہوں نے خود بڑی تگ و دو کی ہے ۔وہ اپنےمشیروں اور وزیروں کے جلوس کےساتھ اِ س مقام تک آئے ہیں یعنی مشیروں اور وزیروں نے بھی کوئی کمی نہیں چھوڑی ۔جب پانامہ لیکس کاسرخ سرخ پینڈورا باکس کھلا تھاتواُسی وقت انہیں معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے مستعفی ہوجانا چاہئے تھا ۔وہ اگر ایسا کرتےتواس وقت جاتی امرا کے دروازے پر نیب کا نوٹس چسپاں نہ ہوتا ۔آج حلقہ ایک سو بیس میں جیت کے باوجود ان کا چہرہ ہارے ہوئے شخص جیسا نہ ہوتا ۔جب پہلا فیصلہ آیا تھا اور دو سینئر ترین جج صاحبان نےانہیں نااہل قرار دے دیا تھا تو اس وقت مٹھائیاں بانٹنے کی بجائے مستعفی ہوکر یا نئے انتخابات کا اعلان کر کے اپنی عزت بچا سکتے تھے۔پھر جب عدالت کی طرف سے نااہل قرار دے دئیے گئے تھے تو یہ نعرہ لگانے کی بجائے کہ ’’مجھے کیوں نکالا گیا‘‘ وہ چوہدری نثار علی خان کو وزیر اعظم بنا کر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کوئی نیا این آر او حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے تھے مگر وقت کی سرگوشیاں ان کی سماعت میں سماہی نہیں سکی تھیں ۔شہباز شریف کو وزیر اعظم اورپارٹی کاصدر بنانے کےفیصلے پر بھی اگر عمل در آمد ہوجاتا تو بہت حد تک ممکن تھا کہ انہیں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی نہ گزارنی پڑتی ۔پاکستان کی حکومت کے اجلاس لندن میں نہ کرنے پڑتے ۔کہتے ہیں جب کسی کا ڈھلوان پر پائوںپڑ جاتا ہے تو پھر اسے نیچے کی طرف جانا ہوتا ہے۔ڈھلوان پرپانی اور پائوں نہیں رکا کرتے ۔
گزشتہ روز پھر ایک نئی غلطی کی گئی ۔ سینیٹ سے ایک بل منظور کرایا گیا جس کے تحت سزا یافتہ شخص سیاسی پارٹی کا صدر ہو سکتا ہے ۔یہ بل ایک دو روز میں قومی اسمبلی سے بھی پاس ہوجائے گا۔چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کمال ہوشیاری اور ہوشمندی کے ساتھ اس بل کے پاس ہونے میں اپنا کردار کیا ۔یقیناً رضا ربانی کے اس کارنامے میں مفاہمت کے شہنشاہ آصف علی زرداری کی آنکھ کا اشارہ بھی شامل ہوگا۔بے شک اس بل کو پاس کرانے کےلئے حکومت کو بڑی محنت کرنا پڑی۔سینیٹ میں ویسے بھی نون لیگ اپوزیشن میں ہے ۔پھر بیچارےسینیٹراسحاق ڈار کےلئے پاکستان آنا ممکن نہیں تھا۔وہ ووٹ بھی کم ہو چکا تھا۔ایسے میں بل پاس کرا لینا جان جوکھوں کا کام تھا۔امکان ہے کہ جماعت اسلامی کے امیر سینیٹرسراج الحق کو راضی کیا گیا کہ اگر وہ بل کے حق میں ووٹ نہیں دے سکتے تو اتنا کریں کہ خلاف بھی ووٹ نہ دیں ۔ق لیگ کی سینیٹر روبینہ عرفان اور مشاہد حسین بھی شاید منیج کر لئے گئے ۔جمعیت علمائے اسلام کے عطاالرحمن اور اے این پی کے الیاس بلور سے بھی ممکنہ طور پرشاید یہی طے پایا کہ اگر وہ حق میں ووٹ نہیں دینا چاہتے تو پھر اجلاس میں آئیں ہی نہیں تاکہ خلاف ووٹ نہ دینا پڑے ۔تحریک انصاف کے کینتھ ویلیمز بھی کسی کے ہاتھوں مجبور ہوکرغیر حاضر ہو گئے۔ فاٹا کے سجاد طوری ، مومن آفریدی ، اورنگزیب خان ، ہلال الرحمان کوبھی ممکن ہے کہ سمجھا بجھا لیا گیا۔ایم کیو ایم کے سینیٹر فروغ نسیم نے بھی اِس مشکل وقت مخالفت میں ووٹ نہ ڈال کر نون لیگ کا ساتھ دیا۔پاکستانی حق سچ کے علمبرداروں کو مینج کرنا کوئی آسان کام تو نہیں تھا نا۔ اخلاقیات کا جنازہ نکالے والے بل کامسئلہ بڑا گمبھیر تھا۔یہ تو ممکن ہی نہیں تھا کہ یہ لوگ اس بل کے حق میں ووٹ دیتے ۔یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا آئین میں کوئی غیر اخلاقی ترمیم ممکن ہے ۔میرے خیال میں ایسی ترمیم آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے سو یہ ترمیم نہیں ہوسکتی ۔جھوٹ سچ ،جزا و سزا کی قدریں ہمارے آئین میں اساسی حیثیت رکھتی ہیں اور سپریم کورٹ صرف آئین پاکستان کی شارح ہی نہیں اُس کی محافظ بھی ہے ۔ مجھے لگ رہا ہے کہ نون لیگ کی حکومت قومی اسمبلی کو ہتھیار بنا کر سپریم کورٹ سے ٹکرانے کی کوشش کرنے جا رہی ہے ۔ یہ خدشہ خطرے کے نشان سے بڑھ چکا ہے کہ یہی صورت حال رہی تو کسی وقت بھی جمہوریت کی بساط لپیٹ بھی سکتی ہے ۔شطرنج کے مہرے پارلیمنٹ کی کھڑکی سے سڑک پر پھینکے جا سکتے ہیں۔
شہباز شریف آج پھر لندن چلے گئے ہیں انہوں نے جانے سے پہلےآرمی چیف سے بھی ٹیلی فون پر بات کی ہے ۔انہیں پھر لندن جاتے دیکھ کرنون لیگ کے کارکنوں میں امید کی ایک ہلکی سے کرن نمودار ہوئی ہے کہ شاید بھائی اب کےبھائی کو قائل کرلے۔چوہدری نثار علی خان ایک نئے این آر او کا ڈرافٹ تحریر کرنا شروع کردیں ۔مفاہمت کی کوئی نئی تصویر کینوس پر ابھر آئےمگر آسمانوں پر بیٹھے ہوئے فرشتوں کے خیال میں اب وقت گزر چکا ہے۔
اب کوئی نئی ترمیم ،کوئی نئی پرانی مفاہمت ، کوئی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم لندن کے ساتھ مبینہ خفیہ بات چیت ،کوئی دولت سے خریدی ہوئی شے ۔کوئی امریکہ سے آئی ہوئی کال ،کوئی قطری خط ، کوئی ترکی ٹوپی ،کنٹرول لائن پر فائر کرتی ہوئی کوئی بھارتی رائفل ۔کوئی بھی چیز ڈھلوان پرپھسلتے ہوئے پائوں کو روک نہیں سکتی۔ہاں اگر شہباز شریف آگے بڑ ھ کر نون لیگ کو زبردستی اپنے ہاتھ میں لے لیں فوری طور پراداروں سے ٹکرائو کی پالیسی ختم کردیں ۔ڈان لیکس پر قوم سے معافی مانگیں اور کسی امکانی نگراں حکومت کی حمایت کا اعلان کردیں تو ممکن ہے کہ باقر نجفی رپورٹ کی اشاعت کا فیصلہ کچھ عرصہ کےلئے پھرموخر ہوجائے ۔ابھی تک شہباز شریف کےلئے اسٹیبلشمنٹ کے دل میں ہمدردی کا جذبہ موجود ہے مگر لگ رہا ہے کہ وہ ایک بار پھر بھائی کا ساتھ دیں گےاور اسی کشتی میں سوار ہوجائیں گے جس میں ملاح خود مسلسل سوراخ کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ چلیں تسلیم کر لیتے ہیں کہ اِ س آئینی ترمیم کے بعد نواز شریف نون لیگ کے باقاعدہ صدر رہ سکیں گے لیکن کیا یہ صدارت ان کے اوپر لگے ہوئے کرپشن کے الزامات میں کوئی مدد گار ثابت ہو سکتی ہے ۔ صدر ہونے کی وجہ سے نیب کے فیصلے ان کے حق میں آ جانے شروع ہوجائیں گے ۔کیایہ صدارت ان کی مبینہ گرفتاری کی راہ میںرکاوٹ بن جائے گی ۔کیا اس صدارت کی وجہ سے جاتی امرا کے دروازے پرلگایا نیب کا نوٹس ہٹ جائے گا ۔جب ایسا کچھ نہیں ہوگا تو پھر ایسی غیر اخلاقی ترمیم کی ضرورت ہی کیا تھی ۔وہی بات کہ نون لیگ مسلسل غلطیوں کے پھاٹک کھولتی جارہی ہے ۔لگتا ہے کہ نواز شریف کو یہ بات سمجھانے والا کوئی نہیں کہ قانون کی جنگ آپ غیرقانونی طریقہ کارسے نہیں جیت سکتے ۔سپریم کورٹ نےنیب کے تمام ریفرنس کی مدت چھ ماہ مقررکر رکھی ہے ۔الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے ۔

تازہ ترین