• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے 28 جولائی 2017 ء کو جب پاناما کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اس فیصلے کو تحفظات کے ساتھ قبول کیا تھا اور فوری طور پر میاں محمد نواز شریف نے وزیر اعظم ہاؤس خالی کر دیا تھا ۔ اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کی گئی ، جسے 15 ستمبر 2017 ء کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے مسترد کر دیا ۔ اس کے ساتھ ہی میاں محمد نواز شریف اور ان کے بچوں کے لئے قانونی راستہ بند ہو گیا ۔ 15 ستمبر کے فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پنجاب کے وزیر قانون راناثناء اللہ اور مسلم لیگ (ن) کے دیگر قائدین نے ایک بار پھر سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی کی اس تجویز کی حمایت کی کہ اداروں کے درمیان ’’ گرینڈ ڈائیلاگ ‘‘ یعنی ’’ عظیم مکالمہ ‘‘ ہونا چاہئے ۔ ان رہنماؤں نے یہ بھی عندیہ دیا کہ مسلم لیگ (ن) کے لئے تمام راستے بند نہیں ہوئے ۔ اس کے پاس اور بھی راستے ہیں ۔ میاں محمد نواز شریف نے وزیر اعظم ہاؤس سے نکل کر جی ٹی روڈ پر اپنی عوامی رابطہ مہم کے دوران بھی کئی مقامات پر اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے گرینڈ ڈائیلاگ کی بات کی ۔
چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کی اپنی پارٹی کی قیادت نے گرینڈ ڈائیلاگ سے متعلق ان کی تجویز کو مسترد کر دیا تھا اور اسے میاں رضاربانی کی ذاتی رائے سے تعبیر کیا تھا ۔ سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے تو یہ تک کہہ دیا تھا کہ ان کی آواز میاں رضا ربانی نہیں بلکہ اعتزاز احسن ہیں ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے بین السطور یہ تاثر دیا کہ اس مرحلے پر گرینڈ ڈائیلاگ کا فائدہ میاں محمد نواز شریف کو ہو سکتا ہے ۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے کیونکہ گرینڈ ڈائیلاگ ( عظیم مکالمہ ) کی تجویز کی سب سے زیادہ حمایت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے کی ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف نے بھی اس تجویز کی حمایت اس لئے نہیں کی کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کی دانست میں اس کا فائدہ میاں محمد نواز شریف کو ہو سکتا ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ فوج کی طرف سے اس عظیم مکالمہ کی حمایت کی گئی ہے ۔ 22 اگست 2017 کو ایک بریفنگ کے دوران پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے ایک سوال کے جواب میں واضح الفاظ میں کہا کہ اگر ملک کے اندر اس عظیم مکالمہ کا اہتمام ہوتا ہے تو پاک فوج اس کا حصہ ہو گی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عظیم مکالمہ صرف اس لئے نہ کیا جائے کہ اس سے فوری طور پر میاں محمد نواز شریف کو فائدہ ہو گا ؟ جمعرات 10 اگست 2017 ء کو چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے سینیٹ کے اجلاس میں بین الادارہ جاتی مکالمہ کی تجویز پیش کی تاکہ اداروں کو تصادم سے بچایا جا سکے ۔ اس مکالمہ کے فریقین میں پارلیمنٹ ، عدلیہ اور فوج شامل ہوں گے ۔ سینیٹ میں پاناما پیپرز کیس کے فیصلے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر بحث کی جا رہی تھی ۔ بحث میں تمام پارلیمانی جماعتوں کے ارکان نے حصہ لیا اور آپس کے سیاسی اختلافات کے باوجود میاں رضا ربانی کے اس نقطہ نظر سے اتفاق کیا ہے کہ اداروں میں سب سے زیادہ کمزور پارلیمنٹ ہے ۔ تمام ارکان کے تحفظات کے ساتھ اس تجویز کی حمایت کی لیکن پارلیمنٹ سے باہر اس تجویز کو پذیرائی حاصل نہ ہوئی کیونکہ سیاسی جماعتیں اس تجویز کو پاناما کیس کے بعد کی صورت حال کے تناظر میں دیکھ رہی ہیں اور شاید اسی وجہ سے حالات کا درست اندازہ نہیں لگا رہی ہیں ۔ رضا ربانی بہت پہلے سے یہ تجویز دے رہے تھے اور بار بار متنبہ کر رہے تھے کہ 18 ویں آئینی ترمیم کو رول بیک کرنے اور پارلیمنٹ کو پہلے کی طرح مزید کمزور کرنے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے ۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ 18 ویں آئینی ترمیم کچھ حلقوں کو برداشت نہیں ہو رہی ہے ۔ وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام ان کے نزدیک پاکستان میں قابل عمل نہیں ہے ۔ ملک میں صدارتی نظام حکومت رائج کرنے کے لئے ایک منصوبہ بندی کے تحت مہم چلائی جا رہی ہے اور اس حوالے سے بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے 10 جولائی 1947 ء کے خط کا حوالہ دیا جا رہا ہے ، جو انہوںنے اپنے حالات سے لکھا تھا اور جس میں انہوں نے پارلیمانی نظام حکومت کے خطرات کی نشاندہی کی تھی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے 10 اگست 2017 ء کو سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے پاناما کیس کا فیصلہ تسلیم کر لیا ہے ، اس لئے اداروں کے درمیان ٹکراؤ کا امکان ختم ہو گیا ہے ۔ فرحت اللہ بابر بہت بڑے سیاسی دانشور ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹکراؤ کا امکان ختم نہیں ہوا ۔ میاں محمد نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کا جس طرح گھیراؤ ہو رہا ہے ، ان کے پاس ٹکراؤ کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچ رہا ہے اور ٹکراؤ کے لئے ان کے پاس ایک ہی ہتھیار ہے اور وہ ہے پارلیمنٹ ، جس میں ان کی اکثریت ہے ۔ بعض حلقوں کو 18 ویں ترمیم ہضم نہیں ہو رہی اور میاں محمد نواز شریف 18 ویں ترمیم سے بھی بہت آگے جا سکتے ہیں ۔ اس سے ٹکراؤ کے حالات پیدا ہو سکتے ہیں ، جن میں جمہوری عمل کے لئے خطرات جنم لیں گے ۔ اس وجہ سے اگر جمہوری عمل تعطل کا شکار ہوا تو اس کی بحالی آسان نہیں ہو گی ۔ پھر اس صورت میں بحال ہو گا ، جب تمام آئینی ترامیم رول بیک کرنے والی سیاسی جماعت الیکشن جیتنے کے لئے حالات سازگار ہوں ۔ اگر جمہوری عمل کے تعطل کے بغیر ایسی سیاسی جماعت کی کامیابی کے واضح امکانات ہوئے تو انتخابات وقت پہ ہوجائیں گے لیکن پھر وہی ہو گا ، جس کا خدشہ میاں رضا ربانی ظاہر کر رہے ہیں ۔ پھر تمام سیاسی جماعتیں 1970 اور 1990 ء والے عشرے میں چلی جائیں گی ۔ ٹکراؤ کے جلد یا بدیر امکانات بہرصورت موجود ہیں ۔ اس مرحلے پر اگر عظیم مکالمہ ہو سکتا ہے تو اس سے گریز نہ کیا جائے کیونکہ ٹکراؤ کے بعد سیاسی قوتوں کی سودا کاری ( بارگیننگ ) کی پوزیشن بہت کمزور ہو گی ۔

تازہ ترین