• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کرکٹ بورڈ نے دبئی میں ہونے والے پی ایس ایل اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل پر ایک ٹریبونل بنایا ۔ جن کھلاڑیوں پر اسپاٹ فکسنگ کے الزامات تھے ، ان میں خالد لطیف، شرجیل خان، ناصر جمشیداور شاہزیب حسن شامل تھے ۔ ان پر الزام یہ ہے کہ انہوں نے بکی سے ملاقات کی اور متعلقہ بورڈ کو مطلع نہیں کیا۔ اس ہفتے ٹریبونل نے پہلے شرجیل خان اور پھر خالد لطیف پر 5سال کرکٹ کھیلنے پر پابندی عائد کر دی اور خالد لطیف پر اضافی 10 لاکھ روپیہ جرمانہ بھی عائد کیا۔ اس کہانی کے مرکزی کردار ناصر جمشید ابھی تک لندن میں رو پوش ہیںاور شاہزیب حسن کا مقدمہ ابھی تک پیش نہیں ہوا۔ اس اسپاٹ فکسنگ میں 2اور کرکٹر محمد عرفان اور محمد نواز کا بھی نام شامل تھا۔ ان پر بھی بکیوں سے ملنے کا الزام تھا ، مگر ان دونوں کو باہر ہی باہر فیصلہ سنایا گیا کہ جس میں محمد عرفان کو کسی الزام یعنی بکی سے ملنا اور بورڈ کو نہ بتانا ہی تھا۔ صرف 1سال کی سزا سنائی گئی۔ جس میں 6ماہ معطلی تھی اور 10لاکھ جرمانہ کیا گیا۔ جس دن ٹریبونل نے شرجیل خان اور خالد لطیف کا فیصلہ سنایا اس کے ایک ہفتے کے بعد محمد عرفان کو صرف 6ماہ بعد بحال کر دیا گیا اور جرمانہ بھی وصول نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ محمد نواز پر بھی یہی الزام تھا ، صرف 2ماہ کی پابندی لگائی ۔ جبکہ بورڈ کے قانون میں کم سے کم سزا 6ماہ ہے اور پھر پاکستان کی ٹیم میں بھی شامل کر دیاگیا۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ ان دونوں کھلاڑیوں کو پورے پی ایس ایل ٹورنامنٹ میں بھی کھلایا گیا،تمام مراعات بھی دیں۔ آج واپس دونوں ٹیم کا حصہ ہیں، جبکہ شرجیل خان اور خالد لطیف کو شروع سے ہی نہیں کھلایا گیااور ٹریبونل کے سامنے خالد لطیف نے بتایا کہ ان کے ساتھی کھلاڑی ناصر جمشید نے لندن سے فون کر کے کہا کہ میرا ایک دوست یوسف انور تمہار ا فین ہے ، وہ دبئی 2تین دن کے لئے آیا ہوا ہے ، اس سے ملو۔ خالد لطیف اس سے نہیں ملا تو ناصر جمشید نے طعنہ دیا کہ یار میری بے عزتی ہو رہی ہے ، آپ ہوٹل میں ہی مل لیں۔ اس کے اصرار پر وہ ہوٹل کی لابی میں یوسف انور سے ملا جس نے کھانے کی دعوت دی اور میں نے ناصرجمشید کی خاطر قبول کر لی۔ کیونکہ اکثر ہمارے فین ہم سے مل کر فوٹو بناتے ہیں ، کھانے کی دعوت دیتے ہیں۔ راستے میں یوسف انور نے کہا کہ آپ میرے ساتھ مل کر کام کریں تاکہ دونوں کو فائدہ ہو گا۔ یہ سن کر میں گھبرا گیا اور واپس ہوٹل چھوڑنے کو کہا ۔ پہلے تو وہ ٹالتا رہا پھر واپس ہوٹل چھوڑ گیا۔ دوسرے دن خالد لطیف نے اپنے منیجر ریٹائرڈ کرنل خالد کو اس واقعہ سے مطلع کر دیا۔ منیجر نے سنی ان سنی کر دی اور پریکٹس جاری رکھنے کی تلقین کی ۔ یہی خبر منیجر نے ایسے انداز میں بورڈ کے اینٹی کرپشن انچارج ریٹائرڈ کرنل اعظم کو بتائی ۔ اس کے بعد طوفان برپا ہو گیا ، فوراً 3کھلاڑیوں خالد لطیف ، شرجیل خان اور محمد نواز کی رات کی فلائٹ سے کراچی کی سیٹیں واپسی کی بک کروا دی گئیں۔ مگر آخری لمحات میں محمد نواز کو کسی کی سفارش پر روک لیا گیا اور دونوں کو کراچی واپس بغیر میچ کھلائے بھیج دیا گیا۔ سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب الزام سب پر ایک ہی تھا تو پھر الگ الگ سزائیں کیوں دی گئیں۔ 2کھلاڑیوں کے لئے ٹریبونل بھی نہیں بنا ، صرف 2کو قربانی کا بکرا کیوں بنایا گیا؟ خالد لطیف کے وکیل نے سب سے پہلے ٹریبونل پر اعتراض اٹھایا ، اس کے تینوں ممبرز پاکستان کرکٹ بورڈ سے مفادات رکھتے ہیں۔ ٹریبونل ، غیر جانبدار افراد پر مشتمل ہو نا چاہئے ، جو بورڈ کا قانون کہتا ہے۔ بورڈ کے قانون کو بھی پامال کر کے سربراہ ریٹائرڈ جسٹس اصغر حیدر جو خود بورڈ کے کیس لڑتے ہیں ، ممبران وسیم باری بورڈ کے تنخواہ دار ملازم ہیں اور توقیر ضیاء بورڈ کے سابق چیئر مین ہیں ۔ جن کے صاحبزادے جنید ضیاء نے انٹر ٹورنامنٹ کر وایا اور بورڈ سے 7کروڑ وصول کئے۔ بورڈ کے وکیل تفضل رضوی کو ٹریبونل کے سربراہ نے مقرر کیا جو ان کے انکل ہیں۔ تو پھر جب تمام افراد بورڈ سے مفادات حاصل کر رہے ہیں تو انصاف کیسے ملے گا؟ ماضی میں جن پر اسپاٹ فکسنگ ثابت ہوئی تھی ان میں اکمل برادران ، وسیم اکرم ، ثقلین مشتاق ، انضمام الحق ، مشتاق احمد، سعید انور وغیرہ شامل تھے ، صرف جرمانہ کر کے معاملہ دبا دیا گیااور آج سب ہی بورڈ کے تنخواہ دار ملازم بنے ہوئے ہیں۔ آج سب کے اثاثے بھی سب کے سامنے ہیں۔ جبکہ خالد لطیف اور شرجیل خان کا سارا بینک ریکارڈ چیک کیا گیا تو یہ بیچارے آج بھی موروثی گھروں میں رہتے ہیں۔ خالد لطیف کا ماضی تو صاف شفاف رہا بلکہ اس نے ہمیشہ اسپاٹ فکسنگ کی نشاندہی ماضی میں بھی کی۔ اسی وجہ سے اس کو ٹیم میں اکثر شامل ہی نہیں کیا ۔ یہاں یہ بات بھی آن ریکارڈ ہے ۔ اسی پی ایس ایل کے واقعہ میں 18لڑکے اور بھی شامل تھے جن پر اسپاٹ فکسنگ کے الزامات تھے۔ مگر ان کو آج تک نہیں چھیڑ ا گیا۔ اس کی وجہ پر اسرار ہاتھ ہیں جو بکیوں کے مرہونِ منت ہیں ۔ خالد لطیف کے وکیل نے یہ اعتراض بھی اٹھایا کہ مجھے کرنل (ر)خالد اور کرنل (ر)اعظم پر جرح کرنی ہے ۔ ٹریبونل نے دونوں گواہوں پر جرح نہیں ہونے دی، جو مقدمے کی تصدیق کے لئے ضروری ہوتی ہے ۔ خالد لطیف نے اردو میں بتایا تھا مگر کرنل (ر)خالد اورکرنل (ر)اعظم نے ٹریبونل کو جو ہمارا بیان پڑھ کر سنایا وہ ہمارے بیان سے مطابقت نہیں رکھتا ، ہم نے خود نشاندہی کی تھی کہ بکی نے ہم سے اسپاٹ فکسنگ کے لئے کہا ۔تو اس کو ہمارا اقرار بنا کر پیش کیا گیا ۔ خالد لطیف کے وکیل کے بقول سارا مقدمہ ٹوپی ڈرامہ تھا ۔ انصاف کے تقاضوں کا کھلا مذاق تھا۔ بھلا ایک ہی قسم کا الزام ہو اور 4الگ الگ فیصلے ۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ تفصیلی فیصلہ کب آئے گا ۔ کیونکہ خود بورڈ کے قانون کے مطابق مختصر فیصلہ نہیں سنایا جا سکتا اور ثبوت خود بورڈ کو دینا ہوتا ہے ۔ جبکہ گواہ ہی پیش نہیں ہوئے تو ثبوت کہاں سے آیا۔ بکی جس کا ذکر ہے وہ سرے سے بکی ہی نہیں تھا۔ اس کو بھی جرح کے لئے نہیں بلوایا گیا۔ بقایا 2لڑکے ناصر جمشید مرکزی کردار اور شاہزیب حسن پر کب مقدمہ چلتا ہے ، ٹریبونل کیوں خاموش ہے ؟یہ بورڈ کا دہرا معیار کیوں ہے ۔ سیاستدانوں کی طرح ہمارے بورڈ میں بھی سب چوہدراہٹ چھائی ہوئی ہے ۔ ہاکی کا تو بیٹر ا غرق ہو چکا ہے ۔ کرکٹ کا بھی اللہ ہی حافظ ہے اگر ایسے ہی فیصلے سامنے آتے رہے ۔ ہم بے گناہ کو قربانی کا بکرا بناتے ہیں جبکہ عادی اسپاٹ فکسنگ کرنے والے آج بھی دھڑلے سے اس کاروبار کو سب سے مل کر چلا رہے ہیں۔

تازہ ترین