• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حج اور مشکلات مجھے ہے حکم اذاں…شفیق الررحمٰن شاہین

سفر حج یقیناً ایک مسلمان کیلئے جہاں باعث سعادت ہے وہاں اس رکن کی ادائیگی سے جو تجربات حاصل ہوتے ہیں وہ جسمانی، روحانی طور پر انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، امسال بھی بفضل الٰہی حج کی سعادت کا موقع ملا، اس حج میں جہاں سعودی حکومت کی طرف سے حجاج کرام کیلئے فراہم کی جانے والی خدمات کو دیکھنے کا موقع ملا جو قابل تحسین وستائش ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ واضح خامیاں بھی ہیں جن کو سمجھنا اور دور کرنا ضروری ہے، حجاج کرام کی مناسب تربیت نہ ہونے کی وجہ سے بھی اکثریت اس رکن کی ادائیگی میں جہاں غلطیاں کرتی ہے وہاں انتظامات کی خرابی کا باعث بھی بنتی ہے۔

حجاج کیلئے سب سے بڑا مسئلہ وہاں کے سیکورٹی اہلکار ہیں ائرپورٹ سے لے کر ہر عمل اور ہر عبادت میں جن اہلکاروں سے واسطہ پڑتا ہے وہ انگلش زبان سے بالکل لابلد ہوتے ہیں جبکہ انگلش زبان عالمی سطح پر سمجھنے والی واحدزبان ہے اسلئے ضروری ہے کہ اہلکاروں کو بنیادی انگلش الفاظ سے آگاہی ہو تاکہ وہ کسی بھی ملک کے حاجی کو ضروری آگاہی دے سکیں، دوسرا بڑا مسئلہ سیکورٹی اہلکاروں کا سخت اور تکبر و رعونت والا رویہ ہے پوری دنیا میں پبلک مقامات پر تعینات اہلکاروں کو گفتگو کے آداب اور پبلک ڈیلنگ سکھائی جاتی ہے جس سے سعودی اہلکار کوسوں دور ہیں جس سے تمام حجاج میں نفرت پھیلتی ہے، حجاج کرام تھکاوٹ، مسلسل سفر اور مناسک حج کی ادائیگی کی وجہ سے مجموعی طور پر بیمار ہوچکے ہوتے ہیں ان سے برتاؤ خندہ پیشانی، حسن سلوک اور خوش دلی سے ہونا چاہئے جس سے ان اہلکاروں کی عزت میں بھی اضافہ ہوگا ۔
امسال جس خرابی کو سب سے زیادہ دیکھا گیا وہ مناسک حج کی ادائیگی کے دوران راستوں کا بلاوجہ بندہونا ہے، یقیناً سیکورٹی، حاجیوں کے تحفظ اور ایمرجنسی کیلئے بعض دفعہ خالی جگہ اور متبادل راستے ضروری ہوتے ہیں لیکن دیکھا گیا کہ اکثر مواقع پر راستوں کو بلاوجہ اچانک بند کردیا گیا جس کی وجہ سے کوچز کو تین چار گھنٹے تک متبادل راستوں کی تلاش میں جانا پڑا جبکہ مطلوبہ جگہ چند منٹوں کی مسافت پر ہوتی ہے اہلکار کوئی بھی قریبی متبادل راستہ بتانے سے بھی کتراتے ہیں ، حرم شریف نماز کی ادائیگی کے موقع پر بھی یہی رویہ اپنایا جاتا ہے منیٰ کے خیموں میں گنجائش سے زیادہ حجاج کو ڈالنے کے عمل سے بہت پیچیدگیاں سامنے آرہی ہیں اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے ۔ حجاج نے پانچ دن تک ان خیموں میں رہنا ہے جہاں سامان رکھنے کی جگہ بالکل نہیں ہوتی صرف چند بیگ لٹکانے کیلئے ایک ریل لگی ہوتی ہے جو ناکافی ہوتی ہے۔
حجاج کرام کی ٹرانسپورٹ سے متعلقہ ڈرائیورز کی اکثریت راستوں سے بالکل لاعلم ہوتی ہے اور بعض دفعہ کئی گھنٹے تاخیر کا باعث بنتے ہیں، کوچز کے تمام ڈرائیورز کو اپنے مقررہ روٹ کا صحیح طور پر علم ہونے کے ساتھ ساتھ متبادل راستوں کا بھی علم ہونا چاہئے، کئی لاکھ حجاج کی آمدروفت کیلئے ڈرائیورز حضرات کیلئے ریڈیو کنٹرول سسٹم بنادیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا ۔مناسک حج کی ادائیگی کے دوران بڑا مسئلہ صفائی کا ہے مکہ، منیٰ ،مزدلفہ ، عرفات ، عزیزیہ کی گلیاں حجاج کرام کی طرف سے پھینکی گئی پانی کی بوتلوں کی وجہ بھری ہوتی ہیں حتیٰ کہ چلنے کیلئے جگہ نہیں ملتی ، حج سے قبل عزیزیہ اور دوسرے علاقوں میں گندگی کا طوفان تھا، اگرچہ سعودی حکومت کی طرف سے حرمین شریفین میں صفائی کے انتظامات کا کوئی جواب نہیں لیکن اس معیار کو دوسرے علاقوں تک پہنچانا بھی ضروری ہے ۔ حجاج کرام کو بھی صفائی کے مسئلہ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور مقرر کردہ جگہوں پر ہی اشیاء کو پھینکنا چاہئے ، دس ذی الحجہ کو کنکریاں مارنے کے عمل کے بعد بال کٹوانے کا عمل جس طرح برلب سڑک اور راستوں میں شروع ہوجاتا ہے اور جگہ جگہ بالوں اور ریزربلیڈ پڑے ہوتے ہیں جو انتہائی خطرناک ہونے کے ساتھ ساتھ بیماریاں اور گندگی پھیلانے کا باعث بنتے ہیں ۔ سرکاری منظوری کے بغیر آنے والے حجاج ان مشکلات کو مزید بڑھانے کا باعث بنتے ہیں جو راستوں میں چادریں بچھا کر لیٹ جاتے ہیں اور وہیں کھانا پینا سونا اور گندگی کے ڈھیر لگادیتے ہیں ۔
حجاج کرام کو مناسب تیاری اور تربیت کے ساتھ آنا چاہئے جسمانی اور ذہنی طور پر ہر مشکل کیلئے تیار ہوں کیونکہ کوئی بھی حالات کسی بھی وقت پیش آسکتے ہیں ۔حجاج کرام کو انتظامیہ کے ساتھ بہرحال تعاون کرنا چاہئے ایسے حاجیوں کو بھی دیکھا گیا جو شروع سے لیکر واپسی میں جہاز میں بیٹھنے تک سوائے سعودی حکومت کو گالیاں دینے اور برا بھلا کہنے سے نہیں رکتے۔ لائن میں رہنا، راستوں میں نماز شروع کرلینا ، مسائل کا صحیح ادراک نہ ہونا اس سے خود حاجی اپنی مشکلات میں اضافہ کرلیتے ہیں ،مناسک کی ادائیگی اور دوران طواف وڈیوفون نے عبادات کا بیڑہ غرق کردیا ہے جس پر پابندی لگنا اشد ضروری ہوگیاہے۔حج جیسے مقدس فریضہ کیلئے حاجیوں کی تربیت کا ہونا ضروری ہے انڈونیشیا اور کچھ دوسرے ممالک نے اپنے حجاج کیلئے اس سسٹم کو شروع کیا ہے جو انتہائی کامیاب ہے اس کو اپنانے میں حجاج کا اپنا فائدہ ہے وہاں انتظامات میں بھی خاطرخواہ آسانی ہوجاتی ہے۔

تازہ ترین