• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے گزشتہ کالم میں بتایا تھا کہ بھارت اور امریکہ کو خطے میں پاکستان، چین اور روس گٹھ جوڑ قبول نہیں اور اسی وجہ سے دونوں ممالک پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ خطے میں بے یقینی کی صورتحال کی وجہ سے ان منصوبوں میں سرمایہ کاری متاثر ہو اور یہ منصوبے تعطل کا شکار ہوجائیں۔ برطانوی اخبار ’’فنانشل ٹائمز‘‘ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والا ملک قرار دیئے جانے، غیر نیٹو اتحادی درجہ ختم کرنے، یکطرفہ ڈرون حملوں، امریکی امداد میں مزید کمی اور کچھ پاکستانی حکام پر پابندی کے مشورے زیر غور ہیں۔ ان پابندیوں سے پاکستان کو ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضے ملنے میں مشکلات ہوسکتی ہیں۔ میں پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر کئی کالم لکھ چکا ہوں تاکہ قومی اہمیت کے اس منصوبے کے بارے میں قارئین کو آگاہی ہوسکے۔ میں نے اپنے ان کالموں میں بتایا تھا کہ یہ منصوبہ تکمیل کے بعد پاکستان کی معاشی تقدیر بدل سکتا ہے جبکہ معاشی پنڈتوں نے اسے ’’گیم چینجر‘‘ قرار دیا ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا کی نظریں اس پر مرکوز ہوگئی ہیں۔ چین راہداری کی تعمیر کے بعد سامان گوادر پورٹ کے ذریعے بحیرہ عرب میں اتارا جائے گا جس سے چین کو یورپ، مشرق وسطیٰ بالخصوص خلیجی ممالک، متحدہ عرب امارات، قطر، سعودی عرب، کویت، عراق اور ایران تک رسائی مل جائے گی۔ اس منصوبے میں چین کے اپنے مفادات بھی ہیں۔ چین اپنا 80 فیصد تیل خلیج سے بحری جہازوںکے ذریعے بحیرہ ہند سے بحرالکاہل اور بیجنگ تک 13ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے حاصل کرتا ہے لیکن گوادر پورٹ کے ذریعے یہ تیل اور تجارتی اشیاء صرف 6 ہزار کلومیٹر طے کرکے ایک تہائی وقت اور لاگت میں بیجنگ پہنچ سکیں گی جس سے چین اور سی پیک ممالک کو گوادر پورٹ سے تجارت میں اربوں ڈالر کی بچت ہوگی۔ چین نے اپنی معاشی پالیسی کے 4اہداف مقرر کئے ہیں جس میں ایشیا اور یورپ میں علاقائی تجارت میں اضافہ، ون بیلٹ ون روٹ کا قیام، آزادانہ تجارت کا فروغ اور عوامی باہمی رابطے شامل ہیں۔ خوش قسمتی سے پاکستان ان چاروں اہداف پر پورا اترتا ہے جس کی وجہ سے چین نے پاکستان میں سی پیک میں سرمایہ کاری کو ترجیح دی۔
میں نے اپنے گزشتہ کالم میں ملک کو درپیش معاشی چیلنجز کا تفصیل سے ذکر کیا تھا۔ ملکی معاشی بحران کے پیش نظر کچھ معیشت دان سی پیک منصوبوں پر بھی شک و شبہات کا اظہار کررہے ہیں۔ معیشت دان اور وزیراعلیٰ بلوچستان کے سابق مشیر قیصر بنگالی نے سی پیک کو ’’گیم چینجر‘‘ کے بجائے ’’گیم اوور‘‘ اور ملکی معیشت کو ’’کیسینو اکانومی‘‘ کہا ہے جس میں لوگ صنعتکاری کے بجائے رئیل اسٹیٹ اور اسٹاک مارکیٹ میں کم وقت میں زیادہ منافع حاصل کرنے کیلئے سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر سکڑ رہا ہے جبکہ سروس سیکٹر تیزی سے فروغ پارہا ہے اور پاکستان امپورٹ کے فروغ سے ’’ٹریڈنگ اسٹیٹ‘‘ بنتا جارہا ہے۔ قیصر بنگالی کے مطابق پاکستان نے سی پیک کیلئے جامع فزیبلٹی رپورٹ بنائے بغیر چین کو خود مختار (Sovereign) حکومتی گارنٹی دی۔ گلگت بلتستان جو سی پیک کا گیٹ وے ہے، کے پہاڑی علاقوں میں ہیوی ٹریفک کیلئے کوئی ماحولیاتی تجزیہ نہیں کیا گیا۔ قیصر بنگالی نے گوادر خنجراب ہائی وے پر ٹول ٹیکس شیئر کرنے پر بھی سوالیہ نشان اٹھایا ہے۔ انہوں نے سی پیک کے منصوبوں کیلئے بلاامتیاز ٹیکس اور ڈیوٹی کی چھوٹ جو مقامی صنعت کو غیر مقابلاتی بنادے گی، پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے سی پیک کے سیکورٹی اخراجات کی ادائیگی کی وضاحت مانگی ہے۔ ان کے بقول پاک چین فری تجارتی معاہدے سے پاکستان کے بجائے چین کو فائدہ ہوا ہے جس سے چین کی پاکستان کو ایکسپورٹ کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔ سی پیک کے موضوع پر سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین نے بھی 12ستمبر کو مقامی انگریزی اخبار میں سی پیک کے حق میں ایک آرٹیکل لکھا ہے۔ ڈاکٹر عشرت حسین عالمی بینک کے خطے بشمول چین کے چیف اکانومسٹ رہے ہیں جس کی وجہ سے انہیں چین میں کئی انٹرنیشنل کانفرنسوں میں شرکت کا موقع ملا جس میں چینی معیشت دانوں اور سرمایہ کاروں نے کچھ پاکستانیوں کے سی پیک منصوبے پر شکوک و شبہات پر اپنے تحفظات اور افسوس کا اظہار کیا ہے جو اس عظیم طویل المیعاد منصوبے کے حق میں نہیں۔ ایک معاشی کالم نگار کی حیثیت سے یہ میری بھی ذمہ داری ہے کہ میں قومی اہمیت کے اس اہم منصوبے پر حقائق پیش کروں۔
سی پیک کی 46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں 34ارب ڈالر کی سرمایہ کاری توانائی منصوبوں اور 12ارب ڈالر انفرااسٹرکچر اور گوادر کی تعمیر و ترقی کیلئے ہیں لیکن بعد میں چاروںصوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے اضافی منصوبوں کو شامل کرکے سی پیک کی مجموعی سرمایہ کاری 56 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ یہ بات واضح کرتا چلوں کہ انرجی کے34 ارب ڈالر کے منصوبوں میں پاکستان کے نجی شعبے اور چینی کمپنیوں کا اشتراک ہےجن کی فنانسنگ چینی اور بین الاقوامی بینک کررہے ہیں جن سے مجموعی 16000میگاواٹ اضافی بجلی پیدا ہوگی جس میں مارچ 2018تک Early Harvest منصوبوں سے 10,000میگاواٹ اور بقایا 2030ء تک طویل المیعاد منصوبوں کی تکمیل سے حاصل ہوگی۔ حکومت پاکستان نے ان منصوبوں سے پیدا کی گئی بجلی کو خریدنے کی گارنٹی دی ہے جس میں سرمایہ کاروں کو ان کے سرمائے پر تقریباً 17فیصد پرکشش منافع حاصل ہوگاجبکہ چین نے حکومت پاکستان کو انفرااسٹرکچر منصوبوں کیلئے 12ارب ڈالر ECA کریڈٹ 2فیصد سود پر قرضہ فراہم کیا ہے۔ ملک میں انرجی کا بحران ختم ہونے اور اسپیشل اکنامک زونز (SEZs) کے نئے منصوبوں سے پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ میں تقریباً 1.5فیصد سالانہ اضافہ متوقع ہے،جس سے پاکستان 6سے7فیصد اونچی گروتھ حاصل کرنے والے ممالک میں شامل ہوجائے گا۔ پاک چین اقتصادی راہداری خطے کے ممالک کیلئے ایک معاشی پل کا کردار ادا کرے گی اور چین کو خطے میں سیکورٹی استحکام بھی حاصل ہوجائے گا جس پر امریکہ اور بھارت خوش نہیں۔ ملکی اور علاقائی مفادات کو دیکھتے ہوئے پاکستان کی سول و ملٹری قیادت، تمام سیاسی جماعتیں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز پاک چین اقتصادی راہداری کو کامیاب بنانے کیلئے متفق ہیں۔ سی پیک کسی ایک سیاسی جماعت یا صوبے کا نہیں بلکہ پاکستان اور خطے کا گیم چینجر منصوبہ ہے جس میں اب وسط ایشیائی ممالک کے علاوہ روس، ایران اور ترکی بھی شامل ہونا چاہتے ہیں۔
ہمیں قومی اہمیت کے اس اہم منصوبے کو متنازع نہیں بنانا چاہئے لیکن اس موقع پر میری حکومت کو تجویز ہے کہ وہ مقامی صنعتوں اور مزدوروں کے تحفظ کیلئے پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں میں ایسے سیفٹی وال لگائے جس سے چین سے خام مال کی ڈیوٹی فری سستی امپورٹ سے پاکستان کی مقامی صنعتوں کو نقصان نہ پہنچے اور ان منصوبوں میں زیادہ سے زیادہ مقامی لیبر استعمال کی جائے تاکہ ملک میں بے روزگاری میں کمی آئے۔ مقامی صنعت کو مقابلاتی رہنے کیلئے سی پیک منصوبوں کی طرح ٹیکس مراعات دی جائیں۔ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لیگارڈ سے میری اسلام آباد میں ملاقات پر انہوں نے سی پیک منصوبوں کیلئے اضافی مشینری امپورٹ اور بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کی وجہ سے 2018ء سے پاکستان سے زرمبادلہ کے اضافی انخلا کے خدشات کا اظہار کیا تھا جو ملکی امپورٹ میں موجودہ اضافے سے ثابت ہوتا ہے اور ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر کو متاثر کرسکتا ہے۔ سی پیک منصوبوں میں پاکستان کیلئے بلاشبہ بے شمار فوائد ہیں لیکن انہیں حاصل کرتے وقت ہمیں مقامی صنعت کے خدشات اور تحفظات بھی مدنظر رکھنا ہوں گے تاکہ یہ منصوبے دونوں ممالک کیلئے Win Win حیثیت ثابت ہوسکیں۔

تازہ ترین