• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم کیخلاف عدالتی فیصلہ‘عوام کو بھی جلد انصاف فراہم کیاجائے

Todays Print

اسلام آباد(شکیل انجم )عدالت عظمیٰ کی جانب سے کیے گئے حالیہ اقدامات نےامید کی نئی کرن پیدا کردی ہےکیوں کہ اس کے سبب ہمیں اپنے عدالتی نظام میں عوام اور ملک کی فلاح کے تناظر میں انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔

یہ سب جانتے ہیں کہ پاکستانی عدالتوں میں ہزاروں کی تعداد میں مقدمات زیر التوا ہیں، جو کہ سول عدالتوں سے عدالت عظمیٰ تک موجود ہیں۔

ان میں سے کچھ مقدمات تو قیام پاکستان سے زیر التواء ہیں، بلکہ شاید کچھ تو اس سے بھی پہلے کے ہوں۔

عوام کو عدالتوں سے  اس وقت بہت امید قائم ہوگئی تھی جب عدالت عظمیٰ نے اس وقت کے وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے خلاف کرپشن کے بڑے مقدمے کافیصلہ سنایا تھا۔کسی بھی مقدمے کافیصلہ سنانے کے لیے ’’ٹائم بار‘‘کے نظام کو متعارف کرانا بہت آسان بات ہے۔سول ججوں کو یہ واضح ہدایت ہونی چاہیئےکہ وہ کسی بھی مقدمے کا فیصلہ چھ ماہ کے اندر سنادے۔

سیشن ججوں کے لیے یہ وقت کم کرکے 4ماہ مقرر کیا جانا چاہیئے۔جب کہ ہائی کورٹ میں سول عدالت سے آنے والے کسی بھی مقدمے کا فیصلہ 2ماہ کے اندر سنا دیا جانا چاہیئے اور عدالت عظمیٰ میں ایسے کسی بھی مقدمے کا فیصلہ ایک ماہ کے اندر ہوجانا چاہیئے۔قیام پاکستان سے قبل کے قانونی نظام میں ، سب سے سنگین نوعیت کے جرم یعنی قتل کے مقدمے کا فیصلہ 90روز کے اندر سنادیا جاتا تھا۔

اس وقت ڈپٹی کمشنرروزمرہ کی بنیاد پر مقدمے کی سماعت کرتا تھااور 90روز سے قبل ہی فیصلہ سنادیتا تھا۔ان معاملات کو عملی شکل دینا بڑا عجیب معلوم ہوتا ہے، تاہم عدالت عظمیٰ کے 5رکنی بینچ نے  اور بعد ازاں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم  جو کہ 5میں سے عدالت عظمیٰ کےبینچ کے 3ارکان کے حکم پر بنائی گئی تھی نے یہ ثابت کردیا تھا کہ سب کچھ ممکنات میں سے ہے۔ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ عدالتی نظام میں انقلاب لاکر اسے کرپشن سے آزاد کیا جائے۔سول ججوں کی عدالت کو ہر مقدمے پر ہفتہ وار کم از کم 2سماعتیں کرنی چاہیئے۔ا س طرح چھ ماہ میں کل 48سماعتیں ہوں گی، جو کہ سول جج کے فیصلہ سنانے کے لیے کافی ہوں گی۔یہی طریقہ کار سیشن ججوں کی عدالتوں ، عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ میں بھی رائج کیا جاسکتا ہے۔

اس طرح سول عدالتوں میں 48، سیشن عدالتوں میں 32، عدالت عالیہ میں 16 اور عدالت عظمیٰ میں 8سماعتیں ہوں گی ۔ان مقدمات کو بغیر سنوائی کے برخاست نہیں کیا جائے گااور ہر سنوائی پرایک حکم جاری کیا جائے گا۔اگر کوئی پارٹی یا ان کے مقررہ وکیل یا وکلاءسماعت میں حاضر نہیں ہوں گے تو انہیں اس روز کے لیے دوسری پارٹی کے وکلاء کی فیس کی ادائیگی کرنا ہوگی، جو سماعت کے لیے جج کے سامنے پیش ہوا ہوگا، جس کا تعین اس وقت کی بنیاد پر ہوگا جو اس نے عدالت میں گزارا ہوگا، اس کے ساتھ ساتھ اسے سفری اخراجات  اور کھانے اور چائے ، پانی کے روزمرہ اخراجات بھی ادا کرنا ہوں گے۔اگر کوئی پارٹی اگلی سماعت تک مقدمہ ملتوی کرنے کی درخواست کرےتو اسے عدالتی اخراجات، جس کا تعین معزز ججوں ، عدالتی اسٹاف کے دیے گئے وقت، اس روز جو وسائل استعمال کیے گئے، جس میں گیس بجلی کے اخراجات بھی شامل ہوں گے۔

سول نوعیت کے مقدمات میں جو پارٹی مقدمہ ہارے گی، اس پر یہ ذمہ داری بھی ہوگی کہ وہ اس مقدمے پر آنے والے تمام اخراجات برداشت کرے ، اس میں مقدمہ جیتنے والی پارٹی کی فیس کی ادائیگی بھی شامل ہے۔اگر مقدمے کے تجزیہ سے ایسا عندیہ ملے کہ اس مقدمے کو دائر کرنے کے پیچھے اس کا مقصد اسے بدنام کرنا ہےتو معزز جج اس کی سزا کا اعلان بھی کرسکتا ہے، جس میں قید اور جرمانہ اور دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔اس طرح جعلی اور جھوٹے مقدمات جو کہ معصوم افراد کے خلاف دائر کردیے جاتے ہیں اس کی بیخ کنی ہوگی۔بے شک کہنا آسان ہے لیکن کرنا مشکل، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس طرح کا انقلابی عدالتی نظام معرض وجود میں لانا آسان نہیں ہے۔ اس کیلئے مکمل نیا انتظامی سیٹ اپ لانا ہوگا۔

عدالتوں کی تعداد بڑھانی ہوگی اور بڑی تعداد میں سول ججوں کو بھرتی کرنا ہوگا۔خصوصی جوڈیشل اکیڈمیاں قائم کرنا ہوں گی ، جہاں ججوں کو منتخب کرکے خصوصی تربیت دینا ہوگی، جس طرح ہم اپنے بیوروکریٹس کے لیے کرتے ہیں اور ہر پاس آئوٹ جج کو وسط مدتی اور سینئر لیول کے کورسز کے ذریعے ہی ترقی کی منازل طے کرنا ہوں گی۔اسی طرح عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ میں بھی ججوں کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے۔

یہ سب ایک خواب سا محسوس ہوتا ہے، تاہم کسی نظام میں انقلاب برپا کرنے کیلئے انقلابی اقدامات کی ہی ضرورت ہوتی ہے۔

تازہ ترین