• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسے وقت میں جب عام انتخابات کے انعقاد میں چند ہی مہینے باقی رہ گئے ہیں اور موجودہ حکومت نے ابھی اپنی پانچ سال کی آئینی مدت بھی پوری نہیں کی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنی سیمابی طبیعت کے تقاضوں کے عین مطابق قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کر کے سیاسی حلقوں کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ بنی گالہ میں پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ ملک میں جمہوریت کی مضبوطی کے لئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو حکومت کرنے کے لئے نیا مینڈیٹ لینا چاہئے، خاص طور پر اس لئے بھی کہ ان کے بقول وزیراعظم پر این ایل جی کرپشن کا دھبہ بھی ہے وہ ایک کمزور وزیراعظم ہیں اور صرف شریف فیملی کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ عمران خان نے اپوزیشن لیڈر کی تبدیلی کیلئے اپنی کوششوں کا بھی ذکر کیا اور عدالت عظمیٰ سے کہا کہ وہ نیا چیف الیکشن کمشنر بھی مقرر کرے کیونکہ انہیں موجودہ الیکشن کمیشن پر اعتماد نہیں۔ حکمران مسلم لیگ ن کے علاوہ اپوزیشن کی تمام بڑی پارٹیوں پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے رہنمائوں نے عمران خان کے اس مطالبے کو غیر سنجیدہ اور غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ جمہوریت کو پھلنے پھولنے کا موقع دینے کے لئے حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے دی جائے اور عوام کے دیئے گئے پانچ سال کے مینڈیٹ کا احترام کیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں کوئی ہنگامی حالت ہے نہ سیاسی بحران اس لئے قبل از وقت انتخابات کے مطالبے کا کوئی جواز نہیں۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ سیاسی پارٹیوں نے پہلے ہی سیاسی سرگرمیوں کے نام پر عملاً انتخابی مہم شروع کر رکھی ہے اور عوام ان سرگرمیوں کو آنے والے انتخابات کے تناظر میں ہی دیکھ رہے ہیں۔ اس لئے ملکی استحکام کا تقاضا ہے کہ آئین کی منشا کے خلاف کوئی قدم اٹھانے سے پہلے سو بار سوچا جائے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف بھی جو اپنی علیل اہلیہ کی تیمارداری کے لئے لندن گئے ہوئے تھے اور ان کے خاندان کے بعض دوسرے افراد بھی وہیں موجود ہیں، سیاسی مخالفین اور تبصرہ نگاروں کی تمام تر خواہشات قیاس آرائیوں اور افواہوں کے باوجود سیاسی دھارے میں شریک ہونے کے لئے پیر کی صبح وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ وہ یہاں نہ صرف اپنے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت کرنے والی نیب عدالت میں پیش ہوں گے بلکہ پارلیمنٹ کی جانب سے انتخابی قوانین میں ترمیم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلم لیگ ن کی سیاسی سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصہ لیں گے اور اپوزیشن کے لئے میدان خالی نہیں چھوڑیں گے۔ نواز شریف نے واپسی کا فیصلہ ایسی سیاسی صورت حال میں کیا جب مخالفین بڑے دعوے سے کہہ رہے تھے کہ شریف فیملی مقدمات کے گرداب میں پھنس چکی ہے، اب وہ کبھی واپس پاکستان نہیں آئے گی۔ لیکن سابق وزیراعظم نے اتوار کی رات ان سب کی پیش گوئیوں کو اس وقت غلط ثابت کر دیا اور توقعات پر پانی پھیر دیا جب وہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے ہمراہ لندن سے واپس وطن روانہ ہو گئے۔ نیب مقدمے میں ملوث وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، جو جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے نیو یارک گئے تھے، کے ہمراہ لندن سے واپس آ گئے ہیں اور پیر کو وہ نیب کی عدالت میں پیش بھی ہوئے۔ خود نواز شریف منگل کو نیب عدالت میں پیش ہوں گے۔ لندن میں نواز شریف اور مسلم لیگی قائدین نے تفصیلی مشاورت کی اور وطن واپسی کا درست فیصلہ کیا۔ اس موقع پر سیاسی و صحافتی حلقوں میں سابق آمر پرویز مشرف کے غیر جمہوری اور نواز شریف کے جمہوری رویے کا موازنہ بھی کیا جا رہا ہے۔ دونوں پر سنگین مقدمات ہیں مگر مشرف حیلے بہانوں سے ملک سے باہر چلے گئے اور اب واپسی کا نام نہیں لے رہے جبکہ نواز شریف احتساب کا سامنا کرنے کے لئے واپس آگئے ہیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے بقول اب اگر نواز شریف جیل بھی چلے گئے تو اس سے نہ صرف ان کی پارٹی مضبوط ہو گی بلکہ متحد بھی ہو گی۔ لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف نے اپنے اس موقف کو دہرایا کہ میں نے کرپشن کی نہ قوم کا پیسہ کھایا۔ مجھے پاناما کیس میں ملوث کیا گیا مگر سزا اقامہ پر دی گئی۔ توقع ہے کہ ان کی وطن واپسی پر ن لیگ نئے سیاسی لائحہ عمل کا اعلان کرے گی اور بھرپور انداز میں سامنے آئے گی۔ دوسری پارٹیاں پہلے سے میدان سجائے ہوئے ہیں۔ اس طرح ملک میں زوردار سیاسی سرگرمیاں جاری ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں بھی کسی رکاوٹ کے بغیر کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تمام ادارے اپنا اپنا کام کر رہے ہیں، مسلح افواج سرحدوں کے دفاع کے لئے تیار، مستعد اور چوکس ہیں، دہشت گردی تقریباً ختم ہو گئی ہے اور امن و امان کے بڑی حد تک بحال ہونے سے کاروباری، سماجی اور تعلیمی سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری ہیں۔ ایسےمیں وقت سے پہلے انتخابات یا عبوری حکومت کے قیام کے مطالبے میں کوئی وزن نظر نہیں آتا۔ وسط المدتی یا قبل از وقت انتخابات جمہوریت کا حصہ ہیں اور جب کسی ملک کے حالات غیر معمولی ہوں تو وقت سے پہلے انتخابات کوئی غلط روایت نہیں بشرطیکہ تمام سیاسی پارٹیوں میں مکمل اتفاق رائے موجود ہو۔ پاکستان کو اندرونی اور بیرونی خطرات ضرور لاحق ہیں مگر ایسی کوئی ایمرجنسی نہیں کہ حکومت کی بساط لپیٹ دی جائے اور نظام کو پٹری سے اتار کر افراتفری کی کیفیت پیدا کر دی جائے۔ اس سے صرف ملک عدم استحکام کا شکار ہوگا اور دشمن قوتوں کو فائدہ پہنچے گا۔ عمران خان کے مطالبے کی تمام بڑی پارٹیوں نے مخالفت کی ہے۔ اس مسئلہ پر سیاسی ہنگامہ آرائی اور کسی احتجاجی مہم جوئی کا کوئی جواز نہیں ہے نہ ملک اس کا متحمل ہو سکتا ہے۔ ملک کے بہتر مستقبل کے لئے تمام فیصلے اتفاق رائے سے ہونے چاہئیں۔ اس کے لئے پارلیمنٹ کا پلیٹ فارم موجود ہے۔ اس مسئلے پر وہاں بات ہونی چاہئے اور پارلیمنٹ کا فیصلہ ہی حتمی ہونا چاہئے۔ مہذب جمہوری ملکوں میں سیاستدان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے مختلف حربے استعمال کرتے رہتے ہیں مگر یہ فیصلہ عوام کرتے ہیں یا عدالتیں کہ کس کا موقف درست ہے اور کس کا غلط۔ ہماری سیاسی پارٹیوں کو بھی یہی قانونی، آئینی اور مہذب طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔ سیاستدانوں کو تحمل اور بردباری سے کام لیتے ہوئے صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑنا نہیں چاہئے اور انتخابات کے لئے مقررہ وقت کا انتظار کرنا چاہئے۔

تازہ ترین