• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابھی میں نے لکھنے کا آغاز بھی نہیں کیا تھا کہ میرا جگری یار بودی شاہ آ گیا۔ بودی شاہ پرانی روایات کا قائل ہے یعنی بغیر بتائے آ جاتا ہے۔ میں نے کئی مرتبہ کوشش کرکے ان کی توجہ اس جانب مبذول کروائی ہے کہ حضور یہ 1960نہیں بلکہ 2017ہے ۔آپ کے ہاتھ میں موبائل فون ہے۔ آپ مجھے آنے سے پہلے اطلاع توکردیا کریں۔ ان سارے سوالوں کا جواب ایک ہی ہوتا ہےکہ میرا اپنا گھر ہے۔ مجھے اطلاع دینے کی کیا ضرورت ہے۔ بس اس کے بعد میں بے بس ہو جاتا ہوں۔ خیر آج میں نے شاہ صاحب کو بات شروع نہیں کرنے دی اور خود ہی گفتگو کا آغاز کردیا۔ میں نے عرض کیا کہ ’’شاہ صاحب! میں اس 22سالہ نوجوان لیفٹیننٹ ارسلان عالم کے بار ےمیں سوچ رہا ہوں جس نے بڑی بہادری کے ساتھ مادر ِ وطن کے لئے جان دی۔ کیا خوبصورت نوجوان ہے کہ اس کی آرزو شہادت تھی۔ شہیدزندہ ہوتاہے۔ یہ ہمار ےایمان کا حصہ ہے، خدا اس کے درجات بلند کرے۔‘‘ بودی شاہ میری باتوں کے دوران زندگی میں پہلی مرتبہ خاموش رہا اور پھر بولا’’وطن کے لئے جان دینا بڑا کام ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہماری مسلح افواج کے جرنیل سے لے کر جونیئرافسران تک اور پھر سپاہی اور رنگروٹ تک سب وطن کے لئے جان قربان کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ مجھے ایک دن مسلم لیگ ن کے ایک رہنما کی بات پر بڑا غصہ آیا۔ جب اس نے کہا کہ فوج اسی مقصد کے لئے ہوتی ہے۔ فوجی اس مقصد کے لئے تنخواہ لیتے ہیں۔ میں تو ایک غریب آدمی ہوں مگر میں چندے سے بھی پیسے اکٹھے کرلوں گا۔ مجھے صرف اتنا بتا دیا جائے کہ وطن کی خاطر شہید ہونے کے لئے نوازشریف، آصف زرداری، اسفند یار ولی، مولانافضل الرحمٰن، محمود اچکزئی اور ان کے پیرو کار کتنی کتنی تنخواہ لیں گے؟‘‘
میں نے عرض کیا کہ ’’پیارے بودی شاہ! مجھے کیا پتا؟‘‘ میرے اس جواب پربودی شاہ کا رنگ سرخ ہو گیا اور وہ غصے سے بولنے لگا ’’تو پھر سن لو کہ ان میں سے بہت سے اپنے ملک کے خلاف سازشوں میں شریک رہتے ہیں۔ آج اگر ہمارا ملک محفوظ ہے تو اس کا کریڈٹ فوج، آئی ایس آئی اور ہماری قوم کوجاتا ہے ورنہ یہ سب تو بیرونی طاقتوںکے آلہ ٔ کار بن چکے ہیں۔ اب توسازشیں بے نقاب ہوچکی ہیں۔ دراصل یہ تمام میرے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام پیداکرنا چاہتے ہیں۔ اس کھیل کا آغاز 2007 کے اوائل میں شدت سے ہوا۔ اگرچہ اس کی شروعات تو کئی برس پہلے ہوچکی تھی مگر اصل کھیل 2007 سے شروع ہوتا ہے۔ بین الاقوامی طاقتوں کے دبائو پر محترمہ بینظیر بھٹو شہید اور نواز شریف این آراو حاصل کرنے میںکامیاب ہوئے۔این آر او کے حصول کےپس پردہ کئی وعدے تھے جونہی بینظیر بھٹو شہید نے اپنی دھرتی پرقدم رکھاتو انہوں نے اپنے وطن کو عزیز جانا اور بین الاقوامی سوچ پر پانی پھیر دیا۔ پیپلزپارٹی میں دوسرے مہرے کو تیار کرنے کےبعد مغربی طاقتوں نے محترمہ بینظیربھٹو شہید کو راستے سے ہٹانےکا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لئے کس نے کیا کام کیا، یہ باتیں آنے والا وقت بتائے گا۔مغربی طاقتیں خواہش کے مطابق بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے میں ناکام ہوگئیں۔ ان بین الاقوامی طاقتوں ہی نے بلوچستان کے لئے گریٹر بلوچستان کا کھیل تخلیق کیا۔ ہمارے کچھ قبائلی علاقے افغانستان کے ساتھ ملانے کا منصوبہ بنایا۔ کراچی میں فسادات کے ذریعے آگ لگانے کا منصوبہ بھی انہی کی تخلیق تھی۔ ان تمام مقاصد کےلئے ہمارے سیاسی رہنمائوں نےاپنی خدمات پیش کیں جو جیسی خدمت کرسکتا تھا اس نے ویسی ہی خدمت پیش کردی۔ میمو گیٹ اسکینڈل، ڈان لیکس ایک ہی بات کا شاخسانہ ہیں جو شخص کل تک ایک پلیئر کے لئے کام کرتا تھا آج وہ شخص دوسرے پلیئر کے لئے کام کرتاہے۔ کل امریکیوں کو واشنگٹن اور دبئی سے ویزے جاری ہوتے تھے تو آج ایک عرب ملک سے 600 ہندوستانیوںکو ایک پاکستانی شخصیت کے حکم پرویزے جاری کردیئے گئےہیں۔ یہ ویزے کراچی کے لئے جاری کئے گئے ہیں۔ انہیں پولیس رپورٹ سے مستنثیٰ قراردیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ حال ہی میں ایک نااہل شخص نے ایم کیو ایم لندن کے خاص لوگوں سے ملاقاتیں کی ہیں۔ اس نااہل شخص نے ہربیار مری سے بھی ملاقات کی ہے۔ پاکستان کے ساتھ کیاہونا تھا اس کیلئے امریکی کرنل پیٹر کا مضمون ہی کافی ہے ۔ آپ کو یاد ہے کہ چوہدری نثار نے اپنےحالیہ انٹرویو میں ملکی سلامتی کو لاحق خطرات کی طرف اشارہ کیا۔ یہی 2015 کی بات ہے جب ایک اجلاس میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کچھ آڈیو، ویڈیو ثبوت پیش کئے جو ناقابل تردید تھے۔ اس اجلاس میں اتنی احتیاط برتی گئی کہ اس وقت کے بڑبولے وزیر دفاع کو بھی اجلاس سے دور رکھا گیا۔ اجلاس میں وزیراعظم، وزیر داخلہ، آرمی چیف، چیف آف جوائنٹ اسٹاف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے شرکت کی۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ تین ہمسایہ ملک پاکستان پرحملہ آور ہوں گے اور پاکستان کے اندر دہشت گرداپنی کارروائیوں سے آگ کا کھیل کھیلیں گے۔ اس دوران پاکستانی معیشت کو کمزور کردیا جائے گا۔ سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا بہانہ بنا کر پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کو انٹرنیشنل قوتوں کے سپرد کردیا جائے گا۔ یہ اجلاس اس وقت ہو رہا تھا جب دھرنوں کو ختم کرنے کے لئے آرمی پبلک اسکول پشاور میں تباہی کا کھیل کھیلا جاچکا تھا۔ جنرل راحیل شریف نے اس مرحلے پر اہم فیصلہ کیا اور انہوں نے ایک بھرپور آپریشن کے ذریعے ملک میں موجود دہشت گردوں کی کمر توڑ دی۔ پچھلے 9سال سے پاکستان پر حکومت کرنیوالے کس طرح ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔ اس کا تازہ اظہار حال ہی میں سینیٹ میں ہوا ہے۔ اب یہ سب ایک دوسرے کو بچانے کیلئے لگے ہوئے ہیں۔‘‘
’’شاہ جی! میں 2001۔ 2000میں ایک اردو اخبار کا ایڈیٹر تھا۔ ان دنوں سشما سوراج اسلام آباد آئی تھیں۔ وہ اطلاعات کی وزیر تھیں۔ اسلام آباد کی نیشنل لائبریری سے نکلتے ہوئے میں نے سشما سوراج سے کشمیر کےمسئلے کو حل کرنے کےلئے کہا تو سشما سوراج بولیں ’’کشمیر کا مسئلہ ان شاء اللہ حل ہو جائے گا‘‘ اس کٹر ہندو عورت کے منہ سے ان شاء اللہ کا لفظ سن کر مجھے دھچکا لگا۔ اب وہ ہندو عورت اقوام متحدہ میں کشمیر کا تذکرہ کرنے سےگریز کرتی رہی۔اگرچہ اس کا جواب ملیحہ لودھی نے دیا مگر ہمارے سیاسی وزیر خارجہ نہ بول سکے۔ انہوں نے تو الٹا پاکستان ہی کے خلاف بات کردی۔‘‘
بودی شاہ میری بات پر بولا ’’ہم لوگ بڑے عجیب ہیں، پچھلے سال آپ کے نااہل وزیراعظم کو فوج نے کل بھوشن کا کیس تیارکرکے دیا تھا مگر نواز شریف نے کل بھوشن تذکرہ نہیںکیا تھا۔ کل بھوشن اور احسان اللہ احسان کے انکشافات کے بعد بھارت کو مشکلات کا سامنا ہے مگر ہمارے سیاسی حکمرانوں کوکہاں فرصت کہ و ہ بھارت کے خلاف کوئی اقدام کرنے کے لئے آواز اٹھائیں۔ آپ کو پتا ہے کہ اس سال اقوام متحدہ کے دفاترکے باہر کشمیریوں اور سکھوں نے مظاہرےکئے۔ یہاں میں ایک بات بتاتا چلوں کہ بھارت کی موجودہ ہندو سرکار نے بھارتی پنجاب کے خالصتان پرست نوجوانوں کو بگاڑنے کےلئے وہاں ڈرگ کا استعمال بڑھا دیا ہے۔ آج بھارتی پنجاب میں حکومتی مدد سے 80فیصد نوجوان منشیات کا شکار ہوچکے ہیں۔ یہ گھنائونا کھیل اب ہندو سرکار نے کشمیر میں بھی کھیلنا شروع کردیا ہے۔ خالصتان تحریک کے رہنمائوں اور آزادی ٔ کشمیر کے متوالوں کواس بات پر غور کرنا چاہئے۔‘‘
’’شاہ جی! ملک کے اندر کیا ہونے والاہے؟‘‘ اس پر بودی شاہ نے کہا کہ ’’ملک کے اندر جھاڑو پھرنے والا ہے۔ ایک نااہل شخص گزشتہ روز جب آیا تو پوری کابینہ استقبال کر رہی تھی پھر وہ نااہل شخص 58گاڑیوں کے قافلے میں پنجاب ہائوس گیا۔ اب ایک نااہل شخص سرکاری عمارت میں بیٹھ کر فیصلے کرتا پھررہاہے۔گاڑیوں سے یاد آیا کہ پچھلے دنوں ایک سرکاری د ورہ میں امریکہ میں لیموزین استعمال ہوئیں۔ ان کا کرایہ 53ہزار ڈالرز بنا جبکہ فرانس کےسربراہ نے جو گاڑیاںاستعمال کیں ان کا کرایہ 24سوڈالرز تھا۔ سب کچھ صاف ہونے والا ہے۔ ذرا سی دیر ہے سب کا احتساب ہوگا۔ کچھ نام ای سی ایل پر ڈال دیئے جائیں گے اور جو باہر چلے جائیں گے انہیں انٹرپول کے ذریعے لایا جائے گا۔ منظر بدلنے والاہے۔ دیکھتے جایئے کیا سے کیا ہوتاہے۔‘‘
یہ تھیں بودی شاہ کی باتیں۔ اب آخرمیں محسن نقوی کا شعر پیش خدمت ہے کہ؎
اے دل تجھے دشمن کی بھی پہچان کہاں ہے
تو حلقۂ یاراں میں بھی محتاط رہا کر

تازہ ترین