• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن، فوڈاتھارٹی اور بے خبر حکمران

ہم تو بارہا مرتبہ لکھ چکے ہیں کہ آنے والے چند برسوں میں پاکستانی قوم صرف اور صرف صحت نہ ہونے کی وجہ سے تباہ ہو جائے گی۔مگر شاید حکومت کی ترجیحات میں نہ تو عوام اور نہ ہی ان کی صحت و علاج ،کسی بھی ایم پی اے اور ایم این اے کا حلقہ انتخاب صحت اور صفائی کے معاملے میں بین الاقوامی معیار تو دور کی بات کسی کم سے کم معیار پر بھی نہیں اترتاکوئی عوامی نمائندہ اپنے حلقہ انتخاب کا پانی پی اور خوراک نہیں کھاسکتا کچھ تو اپنے حلقہ انتخاب میں رہنا بھی پسند نہیں کرتے ۔پاکستان صرف لاہور، کراچی، اسلام آباد میں واقعے چند جدید بستیوں کا نام نہیں۔ پاکستان میں لالو کھیت، غریب آباد، دھرم پورہ، باغبانپورہ اور وسن پورہ جیسے غریب اور بدترین علاقے موجود ہیں ۔ اس وقت پورے ملک میں عجیب صورتحال ہے ۔کوئی کہتا ہے کہ حکومت لندن سے بھی چلائی جا سکتی ہے کوئی کچھ اس وقت پاکستان کی بڑی جماعتیں الزام تراشی کی میرا تھن ریس میں شریک ہیں کیا عجب تماشا ہے کہ یہ سب دعوے عوام کی بہتری کے لئے ہو رہے ہیں اور عوام بیماریوں ناقص خوراک اور جعلی ادویات کے ہاتھوں ماری جا رہی ہے ۔ارے اللہ کے بندو جب عوام ہڈیوں کا ڈھانچہ اور بیماریوں کا گھر بن چکی ہے وہ بھلا کیا تمہارے لئے نعرے لگائے گی؟ اور کام کرے گی؟ہم اللہ کو حاضر ناظر جان کر یہ عرض کر رہے ہیں کہ پاکستان کے تمام علاقوں میں صحت کی صورتحال صرف تشویشناک ہی نہیں بلکہ خطرناک صورتحال میں آگے بڑھ چکی ہے۔ایک طرف لوگ بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں تو دوسری طرف جگہ جگہ عطائی بیٹھے ہوئے ہیں جو غلط علاج کرکے لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں۔پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن آئے دن جعلی ڈاکٹروں کے خلاف موثر کارروائی کرتا ہوا نظر آتا ہے مگر دوسری طرف ایسے ظالم لوگوں کو عدالتوں سے ریلیف مل جاتا ہے جب ایک بات طے ہو گئی کہ جس کے پاس ایم بی بی ایس کی باقاعدہ تصدیق شدہ ڈگری نہیں وہ ڈاکٹر نہیں ،اس میں کسی دورائے کی ضرورت نہیں تو پھر ایسے عطائیوں کو کام کرنے کی اجازت کیوں دی جائے ؟ قانون میں ایسے افراد کے لئے سخت ترین سزا ہونی چاہئے۔ایک طرف پی ایچ سی کے درد دل رکھنے والے سربراہ باریش ڈاکٹر محمد اجمل خاں اور ان کے اسٹاف ممبران جعلی ڈاکٹروں کو نیست ونابود کرنے کے لئے زندگی وقف کئے ہوئے ہیں تو دوسری طرف ان کی تعداد میں کمی نہیں آ رہی۔ بعض رپورٹوں کے مطابق پاکستان میں عطائی جعلی ڈاکٹروں کی تعداد چھ لاکھ کے قریب ہے جبکہ رجسٹرڈ ایم بی بی ایس ڈاکٹروں کی تعداد ڈھائی اور تین لاکھ کے قریب ہے یہ رپورٹیں بارہا مرتبہ اخبارات میںشائع ہوئی ہیں جب آبادی بڑھے گی تو پھر جعلی ڈاکٹروں کی تعداد بھی بڑھے گی۔
کتنی دلچسپ اور تکلیف دہ صورتحال اور حقائق ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر آج تک جتنے وزیر اعظم آئے کسی ایک کا بھی حلقہ انتخاب صحت و صفائی اور تعلیم کے حوالے سے آئیڈیل اور صحت کے کم سے کم معیار پر پورا نہیں اترتا، مگر دعویٰ ہر وزیر اعظم نے کیا کہ وہ عوام کی حالت بدل دے گا عوام کی حالت کیا بدلنی ہے اس کی ان کے خاندان کی ضرور حالت بدل جاتی ہے ۔پنجاب کے وزیراعلیٰ کی ہزار کوششوں کے باوجود صحت کے شعبے میں بہتری نہیں آ رہی اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگ ناقص غذا کھا کر بیمار ہو رہے ہیں تو دوسری طرف جعلی ادویات اور عطائی حضرات سونے پہ سہاگہ کا کام کر رہے ہیں۔سرکاری اسپتالوں کے حالات پورے ملک میں جو ہیں اس پر کیا بات کرنی؟پی ایچ سی نے پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن ایکٹ 2010کے تحت اب تک 5600سے زائد عطائیوں کے کاروبار بند کرکے تین کروڑ تیس لاکھ جرمانہ کیا ہے اور مئی 2017ء میں صرف نوایام میں 108جعلی ڈاکٹروں کے اڈے سیل کر دیئے تھے جو لائق تحسین ہے۔
پوری دنیا میں پاکستان کا واحد ملک ہے جس کے حکمران ملک کے مسائل (ملک کے مسائل کسی نے کیا ڈسکس کرنے ہیں ) اپنی جماعت کی توڑ پھوڑ اور جو کچھ اس وقت ن لیگ کی وجہ سے ملک میں بحرانی کیفیت ہے اس کے بارے میں لندن میں بیٹھ کر بات چیت ہو رہی ہے ۔ کبھی جاپان، چین، ترکی اور شام کے حکمران اپنے ملک کے بحران کے بارے میں بات کرنےلندن جاکر میٹنگیں کرتے ہیں گورے بھی ہم پر ہنستے ہوں گےبے خبر حکمرانو قبر میں کوئی تھری پیس سوٹ نہیں ہو گا۔ پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن اور فوڈاتھارٹی دو ایسے ادارے ہیں جو بے چارے عوام کی بھلائی کے لئے اپنے تئیں لگے ہوئے ہیں مگر ان کو جس طرح حکومت کی بھرپور سپورٹ چاہئے وہ حاصل نہیں۔ آئے دن فوڈ اتھارٹی کے ڈی جی نور الامین مینگل اور ان کی ٹیمیں چھاپے مارتی رہتی ہیں حال ہی میں پنجاب فوڈ اتھارٹی کی پہلی میڈیکل اسکریننگ رپورٹ آئی ہے پنجاب فوڈ اتھارٹی نے 4572ایسے ورکرز کا بلڈ ٹیسٹ کرایا جو فوڈ انڈسٹری میں کام کرتے ہیں یعنی ہوٹلوں ، ریستوران اور چھوٹے بڑے کھانے پینے کی اشیاء تیار کرنے والے اداروں میں کام کرتے ہیں اور ہر 28واں ورکر ہیپاٹائٹس بی سی ،ایڈز ، ٹائیفائیڈ اور ٹی بی کے مرض میں مبتلا تھا ذرا دیر کو سوچیں کہ کتنی خوفناک صورتحال ہے۔ہمارے اینکر پرسنز کن مسائل پر گرما گرم بحث کر رہے ہوتے ہیں۔
ہم انتہا کے جدید اور بظاہر صاف ستھرے ریستوران میں کھاتے ہوئے کبھی یہ نہیں سوچتے کہ خوبصورت ڈش میں تیار ہونے والا کھانا جس فوڈ ورکر یعنی شیف یا کک نے تیار کیا ہے وہ خود کیا صحت مند ہے ؟ کیا اس کے گھر کا ماحول صحت مند ہے؟ کیا اس کے گھر کے افراد صحت مند ہیں؟ خطرناک بیماریوں میں مبتلا نہیں ؟ہم نے کئی بڑے ہوٹلوں کے فوڈ ورکرز کا ہیپاٹائٹس بی سی اور ٹائیفائیڈ کا علاج خود کرایا ہے جن بیماریوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ تمام ایک انسان سے دوسرے انسان کو بڑی آسانی کے ساتھ منتقل ہو سکتی ہیں اور ہوتی بھی ہیں کیا دلچسپ صورتحال ہے کہ شہروں میں غریب اور مزدور طبقہ اپنی پسلی نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے گندے ہوٹلوں سے غیر معیاری کھانا کھا کر موت کی وادی میں اتر رہے ہیں۔ دوسری طرف ایلیٹ کلاس ہر شام کو بڑے شہروں کے مہنگے ترین ہوٹلوں میں کھانا کھا کر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بڑا محفوظ کھانا کھا رہے ہیں حالانکہ دونوں طبقے پیسے دیکر بیماریاں خرید رہے ہیں ۔ ایک طبقہ بے چارہ مجبوراً پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے ان گندے ترین ہوٹلوں میں کھانے کو مجبور ہے تو دوسری طرف امیر ترین طبقہ مہنگے ترین ہوٹلوں میں خود چوائس کرکے لمبے چوڑے بل ادا کرکے بیماریاں خرید رہا ہے۔ دونوں طبقے ہی بیمار ہو رہے ہیں ایک کو پھر شہر کے اچھے ڈاکٹرز نصیب ہو جاتے ہیں اور دوسرا طبقہ سرکاری اسپتالوں میں ایڑیاں رگڑتے رگڑتے مر جاتا ہے یہ سب کچھ غیر معیاری غذا اور اس غذا کو تیار کرنے والے افراد سے ہو رہا ہے ۔جیو پر آپ رپورٹ دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح غیر معیاری گوشت چین کی ایک کمپنی ایک بڑی فاسٹ فوڈ کمپنی کو مہیا کر رہی ہے باہر کے ممالک سے آنے والے گوشت کو کوئی چیک نہیں کرتا اس پر پھر بات کریں گے ۔ ہم نے کئی حکمرانوں اور ایلیٹ کلاس کے ساتھ کھانے کھائے ہیں ان کے گھروں میں جو کھانا جن طریقوں پر تیار ہوتا ہے اور جو معیار ہوتا ہے آپ اس کا تصور نہیں کرسکتے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ لوگوں کی بددعائوں کی وجہ سے کچھ خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
ہیلتھ کیئر کمیشن اور فوڈ اتھارٹی جیسے ادارے پورے ملک میں ہونے چاہئیں۔70برس میں تو سیاسی حکومتوں نے کچھ کیا نہ کیا یہ علیحدہ بحث ہے مگر ان دونوں اداروں نے عوام کی صحت کے لئے جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ لائق ستائش ہیں۔چاہئے تو یہ کہ یہ دونوں ادارے ملکر کوئی حکمت عملی ایسی مرتب کریں کہ جس کے خلاف جو ایکشن لیا جائے اس کو کڑی ترین سزا دی جائے اور اسے کہیں سے بھی ریلیف نہ ملے۔ سیاسی جماعتیں اور لیڈران بے شک ایک دوسرے کو الو بنائیں مگر خدارا عوام کو الو نہ بنائیں اور عوام کو بھی چاہئے کہ اب الو بننا چھوڑ دیں۔ حکمران تو لندن میں بمعہ اپنے نوکروں کے موجیں مار رہے ہیں اور غریب عوام قیمے والے نان کھا کر نعرے لگا کر انہیںمنتخب کر رہی ہے عمریں بہت ہو چکی ہیں آگے ہم نے کچھ نہیں کہنا؎
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے
انجام گلستان کیا ہو گا؟

تازہ ترین