• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم اپنے اپنے خول میں مگن رہتے ہیں۔ اپنے کابک میں، اپنے ڈربے میں(کابک میں کبوتر اور ڈربے میں مرغی)۔ ہمیں اس سے کو ئی غرض نہیں ہو تی کہ ہمارے خول یا ہمارے کابک اور ڈربے سے باہر کیا ہو رہا ہے۔ یہ خول زبانوں اور ادب میں بھی موجود ہے۔ اردو والے بالکل نہیں جانتے کہ پاکستان کی دوسری زبانوں میں کیا لکھا جا رہا ہے۔ لے دے کے پنجابی یا سندھی زبان کے جو ترجمے ایک دو سالوں میں چھپ جاتے ہیں ان سے ان زبانوں کے ادب کے بارے میں تھوڑا بہت معلوم ہو جاتا ہے۔ اسی لئے جب دوسری زبان کے کسی بڑے ادیب کا انتقال ہوتا ہے تو اردو اخباروں میں اس خبر کیلئے تھوڑی سی جگہ بھی نہیں ہو تی۔ ابھی پچھلے دنوں پنجابی زبان کے ایک بہت ہی بڑے شاعر، ناول نگار اور مترجم افضل احسن رندھاوا کا انتقال ہوا تو اردو کے اخباروں نے اسے چھوٹی سی خبر کے قابل بھی نہیں سمجھا۔ ہم اپنے آپ کو بھی اسی خول میں بند سمجھتے ہیں اسی لئے ہم بھی رندھاوا صاحب کے بارے میں صرف اتنا ہی جانتے ہیں کہ وہ بہت ہی ملنسار اور خوش اخلاق انسان تھے۔ ان کی تخلیقی کاوشوں کے بارے میں ہم نے صرف سنا ہی تھا۔ لیکن ہم چاہتے تھے کہ انکی تحریروں کے بارے میں اردو پڑھنے والوں کو بھی علم ہو جائے۔ اس لئے ہم نے پرانے صحافی، مصنف اور پنجابی اور اردو ادب کے جان کار زمان خاں سے درخواست کی کہ وہ پنجابی کے اتنے بڑے قلم کار کے بارے میں ہماری معلومات میں اضافہ کریں۔ اب انہوں نے جو لکھا وہ تھوڑی سی کتربیونت کے بعد یہاں حاضر ہے۔
’’افضل رندھاوا یکم ستمبر1937کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ پنجابی میں جو کہتے ہیں’’سولاں جمدیاں دے منہ تکھے ہوندے نیں‘‘ افضل احسن رندھاوا کا بھی وہی حال تھا۔ انہوں نے سکول میں ہی لکھنا شروع کر دیا تھا۔ وہ زمانہ طالب علمی سے ہی امروز اور لیل و نہار میں چھپتے تھے۔ وہ جس تعلیمی ادارے میں بھی گئے وہاں کے میگزین کے ایڈیٹر رہے۔ رندھاوا نے پہلے اردو میں لکھنا شروع کیا تھا۔ وہ کافی عرصے اردو میں لکھتے رہے۔ انہوں نے پنجابی میں کیسے لکھنا شروع کیا؟ یہ ایک دلچسپ حادثہ تھا۔ اس پر رندھاوا نے خود لکھا ہے ’’منیر نیازی کو ’’انگور کی پیٹی‘‘ کی طلب ہو ئی۔ مگر اس کے پاس پیسے نہیں تھے۔ اس نے مجھ سے کہا تم اپنی کہانی کسی اخبار کو بیچ دو کچھ پیسے مل جائیں گے۔ ہم ایڈیٹر ’’روزنامہ احسان‘‘ کے پاس گئے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اردو کی نہیں، پنجابی کہانی کی ضرورت ہے۔ منیر نیازی نے کہا تم ابھی اور اسی وقت پنجابی کہانی لکھو۔ میں نے اپنی اردو کہانی کا پنجابی میں ترجمہ کردیا‘‘ یہ پنجابی لکھنے کا آغاز تھا۔ رندھاوا نے1951 سے لکھنا شروع کیا تھا۔ مگر ان کے پہلے ناول ’’دیوا تے دریا‘‘ نے انہیں اصل شہرت بخشی یہ ناول انہوں نے پنجابی زبان کے ممتاز ادیب آصف خاں کی فرمائش پر صرف بیس دن میں لکھا تھا۔ یہ پہلا پاکستانی پنجابی ناول تھا جو ہندوستان میں بھی چھپا۔ اس ناول پر رندھاوا کو رائٹرز گلڈ کی طرف سے آدم جی انعام بھی دیا گیا۔ لیکن انہوں نے بطور احتجاج یہ انعام لینے سے انکار کردیا کہ گلڈ پنجابی ادب سے سوتیلی ماں کا سلوک کرتا ہے۔ ان کی کہانیوں کے پہلے مجموعے ’’رن، تلوار تے گھوڑا‘‘ نے پنجابی ادبی سرکل میں دھوم مچادی تھی۔ وہ شاعر کے طور پر زیادہ جانے جاتے تھے۔ ان کی شاعری کے چھ مجموعے چھپے ہیں۔ ’’شیشہ اک لشکارے دو، رت دے چار سفر، پنجابی دی وار، مٹی دی مہک، چھیواں دریا، اور پیالی وچ آسمان (غزلاں)۔
رندھاوا کو دوسری زبانوں کا ادب پڑھنے کا بھی شوق تھا۔ ان کی کوشش تھی کہ پنجابی قاری تک بھی تیسری دنیا کا ادب پہنچائیں۔ اسی لئے انہوں نے مارکیز کے ناول Chronicle of Death Foretold کا پنجابی میں ’’پہلوں دس دی گئی موت دا روزنامچہ‘‘ کے نام سے ترجمہ کیا۔ انہوں نے Luis Sepulveda کے ناول The Man Who Read Love Stories کا پنجابی میں ’’بڈھا جو عشقیہ کہانیاں پڑھدا‘‘ اور چنوا اچے بے کے ناول Things Fall Apart کا ’’ٹٹ پج‘‘ کے نام سے ترجمہ کیا۔ انہوں نے اوریانا فلاچی کی کتابInterview With History میں شامل مزاحمت کار الیگزینڈر پانا کوس کے انٹرویو کا پنجابی میں ترجمہ کیا۔ انہوں نے ایک سو سے زیادہ افریقی نظموں کا ترجمہ کیا۔ انہوں نے دوسرا ناول ’’دو ابہ‘‘ بیس سال بعد لکھا۔ وہ اس ناول کو اپنا بہترین تخلیقی کام سمجھتے تھے۔ اس ناول میں انہوں نے پنجابی ثقافت کے منفی رجحان کو پیش کیا ہے۔ اس ناول پر کافی لے دے بھی ہوئی تھی۔ ’’سورج گرہن‘‘ کئی نام سے انہوں نے ایک تجرباتی ناول بھی لکھا۔ ان کی ادبی خدمات پر حکومت کی طرف سے انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس کا صدارتی انعام ملا۔ اور 2013میں انہیں ’’کمال فن‘‘ کا انعام دیا گیا۔ انہیں دنیا بھر کی پنجابی تنظیموں کی طرف سے بھی انعام دیئے گئے۔ ہندوستان میں ان کی کتابیں پنجابی کے نصاب میں شامل ہیں۔ فیصل آباد کی ڈسٹرک بار نے انہیں لیجنڈ آف بار کا اعزاز بھی دیا ہے ۔
افضل احسن رندھاوا بائیں بازو کے نظریات سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کے لیے انہوں نے قید بھی کاٹی۔ تاریخ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ انہیں پیپلز پارٹی کے باغی رہنما مختار رانا کی بہن کے خلاف الیکشن لڑنا پڑا۔ وہ1972 سے 1977 تک قومی اسمبلی کے ممبر رہے۔ ضیاء الحق کے مارشل لا میں ان پر سات سال سیاست میں حصہ لینے پر پابندی رہی۔ وہ درویش صفت آدمی تھے۔ ان کے مالی حالات کبھی اچھے نہیں رہے۔ چند سال پہلے ان کے جوان بیٹے کی بے وقت موت نے ان کی کمر توڑ دی تھی۔ پھر ان کی محبوب بیوی بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ آخرعمر میں وہ تصوف کی طرف مائل ہو گئے تھے۔ وہ ہر روز فیصل آباد کی ڈسٹرکٹ بار کے ایک کمرے میں تسبیح پڑھتے پائے جاتے تھے۔ اور آ خر کار 19ستمبر کو ان کے سینکڑوں چاہنے والوں نے فیصل آباد کے سائیں بابا قبرستان میں انہیں دفن کیا۔ افضل احسن رندھاوا کے ساتھ پنجابی ادب کا ایک بہت ہی بڑا نام ہم سے رخصت ہو گیا۔‘‘

تازہ ترین