• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاست دانوں کو یہ ایڈوانٹج حاصل ہوتا ہے کہ قانونی معاملات کو سیاسی رنگ دے کر اسے سیاسی بنادیتے ہیں اور ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم دھوکے میں آجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمارا سیاسی لیڈر سچ کہتا ہے اور اس بات کا تعلق ہر پارٹی سے ہے ۔ہمارے ووٹرز یا پارٹی کی حمایت کرنے و الے اپنی قیادت پر اندھا دھند اعتماد کرتے ہیں یا اس کی خامیوں ، چوریوں اور بد معاشیوں سے جان بوجھ کر پہلو تہی کرتے ہوئے خود اندھے بن جاتے ہیں جو ہمارے سیاسی معاملات اور جمہوریت کی بنیادی خامی ہے جب تک ہم اپنی اس عادت کو نہیں بدلیں گے، اپنی پارٹی قیادت یا سیاسی رہنماکی ہر بری یا منفی بات کو بھی اچھائی کی عینک سے یا مخالف کی اچھائی کو برائی کی عینک سے دیکھتے رہیںگے معاملات الجھتے رہیںگے اور سیاسی لیڈر شپ جھوٹ بول بول کر یا مظلوم بن بن کے دھوکا دیتے رہیںگے اور ہم نعرے ، ریلیوں، دھرنوں اور تقریریں سن سن کر نہ صرف بے وقوف بنتے رہیںگے بلکہ ملک کا قیمتی وقت ضائع کرتے رہیںگے ، جب میں بیٹھا یہ کالم لکھ رہا تھا تو یہ بریکنگ نیوز چل رہی تھی کہ سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے واپس آنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور پیر کو وطن واپس پہنچ جائیںگے اور 26ستمبر کو نیب عدالت میں پیش ہونگے ، سخت بیانات، ریلیوں اور تقریروں کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ(ن) اپنی سیاسی حکمت عملی کے ساتھ منصوبہ بندی بھی کررہی ہے جس کا واضح ثبوت نااہلی کے باوجود پارٹی قیادت سنبھالنے کی پارلیمنٹ سے منظوری کرانا ہے ، عدالتوں کے خلاف سخت زبان استعمال کرنے اور یہ کہنے کہ ہم کسی نیب عدالت میں پیش نہیں ہونگے کے باوجود نیب عدالت میں پیشی کا عندیہ، ایک اور سیاسی حکمت عملی ہوسکتی ہے۔ بہت سارے پارٹی رہنما جو میاں نواز شریف کے بغیر سیاست میں خود کوبغیر ملاح کے ایک ایسی کشتی کے سوار سمجھتے ہیں جو ہچکولے کھا رہی ہے اورکسی وقت اس کشتی کی سمت کسی منجدھار یا بھنور کی جانب ہوسکتی ہے ، پارٹی رہنماچاہتے ہیں کہ وہ میاں نواز شریف کو آگے رکھیں ،بھلے ان کو عدالتوں میں گھسیٹا جائے ،بھلے انہیں گرفتار کیا جائے یا انہیں جیل میں ڈال دیا جائے ، کیو نکہ یہ سارے عوامل پاکستانی سیاست میں ان کے لئے ہمدردی کا ایک ایسا ووٹ پیدا کریں گے جو پاکستانی سیاست میں ہمیشہ کیش کرایا گیا ہے ، لیکن میرا خیال ہے کہ ابھی شریف خاندان کے لئے مشکلات ہی مشکلات ہیں اور شریف خاندان یا مسلم لیگ کو کھلی لڑائی اور کسی دوسری منصوبہ بندی میں پڑنے کی بجائے صبر اور اور دانش کی حکمت عملی اپنانی چاہیے۔صبر و دانش کی حکمت عملی یہ ہے کہ اپنی نئی پوت کو پارٹی قیادت سنبھالنے اور قیادت میں آنے کیلئے ان کی راہ میں کاٹنے بچھانے کی بجائے اپنی ’’چلت پھرت‘‘ کو دھیما کردیں، مریم نواز نے خود کو سیاست میں رجسرڈ کروالیا ہے ، گو کہ انہوںنے تین بڑی غلطیاں بھی کی ہیں لیکن حالات نے انہیں سیاست میں ملے دھکے سے تیرنا سکھا دیا ہے کنارے پر پہنچنے کیلئے ابھی انہیں بہت ساری موجوں اور طوفانوں کا مقابلہ کرنا ہے اور غلطیوں سے اجتناب کرنا ہے ، اگر میں ان کی تین غلطیوں کا ذکر کروں تو پہلی غلطی انہوںنے اپنے اردگرد ایک ایسی ٹیم کھڑی کرلی جس نے بظاہر تو میاں نواز شریف اور مسلم لیگ(ن) کا دفاع کیا لیکن حقیقت میں انہوںنے عدلیہ ، جے آئی ٹی اورغیر جانبدار لوگوں کو خاص طور پر پارٹی کی سینئر قیادت کو اشتعال دلایا، دوسری غلطی یہ کہ وہ شریف خاندان میں دراڑ کا باعث بنیں، ہوسکتا ہے وہ دراڑ زیادہ گہری نہ ہو لیکن ایسا ہوا ضرور ہے اور الیکشن کے موقع پر حمزہ شہباز اور شہباز شریف کو ملک چھوڑ کر جانا پڑا اور اس حوالے سے انہوں نے پارٹی کے سینئرز کو بھی اپنے والد سے دور کیا، حالانکہ اگر وہ ادب و احترام سے چوہدری نثار علی خان جیسے سینئر کو اپنے لئے مشوروں میں شامل رکھتیں تو کوئی زیادہ نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہی ہوتا ، تیسری بڑی غلطی انہوں نے این اے 120میں الیکشن مہم کے دوران عدلیہ اوراسٹیبلشمنٹ کیلئے جو زبان استعمال کی وہ اپنی راہ میں خود کانٹے بچھانے کے مترادف تھی، میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور اب پھر یہ کہتا ہوں کہ طوفان سے اشعار اور تقریرں میں تو لڑا جاسکتا ہے لیکن عقلمندی کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ سامنے سے آنے والے طوفان سے ہٹ کر کھڑا ہونا چاہیے اور اس کے گزرنے کا انتظار کرنا چاہیے ، پرویز مشرف کے مارشل لاء کے وقت میاں نواز شریف نے سیاسی طور پر ایک غیر مقبول فیصلہ کیا تھا کہ وہ پارٹی قیا د ت کی پر و اہ کئے بغیر ، ایک معاہدے کے تحت رات و رات ملک چھوڑ گئے تھے لیکن بعد ازاں ان کا یہ فیصلہ انہیں واپس اقتدار میں لانے کا باعث بنا دانشور کہتے ہیں کہ ’’ سر قائم تو ٹوپیاں ہزار‘‘ ہوسکتا ہے کہ نواز شریف کا وقت ختم ہوچکا ہو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میاں شہباز شریف بھی مشکلا ت میں گھر جائیں لیکن مریم نواز اگر چند سالوں کیلئے نااہل بھی ہوگئیں تو ان کیلئے بہت وقت پڑا ہے وہ واپس آسکتی ہیں ۔سیاست دان تو بہت ہوتے ہیں لیکن سیاسی ٹرک کو کھینچنے کی صلاحیت کسی کسی میں ہوتی ہے یاقیادت کسی کسی کے ماتھے پر لکھی ہوتی ہے، ہوسکتا کہ آئندہ سیاسی قیادت مریم نواز اور آصفہ بھٹو کے ماتھے پر لکھی ہو ۔ اس کے لئے جگہ تو بہت ہے جسے ہم سیاسی ویکیوم کہتے ہیں لیکن ٹھنڈا کرکے کھانا ہوگا اچھی حکمت عملی کو اپنانا ہوگا ورنہ،
نہ گور سکندر، نہ ہے قبر دارا………!

تازہ ترین