• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ویسے تو یورپی ممالک میں تارکین وطن پاکستانیوں کی کثیر تعداد مقیم ہے جو دیار غیر میں سیاسی ، سماجی اور مذہبی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے ۔لیکن اسپین ، اٹلی ، برطانیہ ،فرانس ، ناروے ، سویڈن ، ڈنمارک ،بیلجیم ،ہالینڈ، پرتگال ، یونان ، آسٹریا اور جرمنی ایسے ممالک ہیں جہاں آباد پاکستانیوں نے مقامی سیاسی جماعتوں میں شمولیت کے ساتھ ساتھ اپنے وطن عزیز سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کو بھی یقینی بنا کر اِن ممالک میں اپنی مصروفیات اور سیاسی جماعتوں کے قائدین سے وابستگی کا ایسا ماحول بنا رکھا ہے کہ جس کو دیکھ کر مقامی کمیونٹی بھی پوچھنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ آپ یہاں رہ کر کس طرح اپنی ملکی سیاست میں حصہ لیتے ہیں۔اِس سوال کے جواب میں پاکستانی کمیونٹی مقامی افراد کو بتاتی ہے کہ اوورسیز پاکستانی اپنے ملک کی معیشت کے بڑھاوے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور جب ہم اپنی کمائی عزیز و اقارب کو بھیجتے ہیں تو یہ عمل زر مبادلہ کی مد میں قومی خزانہ سیراب کرنے کا بہترین ذریعہ بن جاتا ہے ۔دوسری جانب ہمارے عزیز واقارب بھی چونکہ ہمارے پیسوں کے منتظر ہوتے ہیںاس لئے ہم اُن کو یہاں سے یہ پیغام بھی ارسال کرتے ہیں کہ ووٹ کس کو دینا ہے ، لہٰذا ہماری بات مانی جاتی ہے اور ووٹ اُسی پارٹی کو دیا جاتا ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہو ۔دیار غیر میں پاکستانیوں نے مسلم لیگ ن ، مسلم لیگ قاف ، پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف اور عوامی تحریک کو زبردست انداز میں متحرک کر رکھا ہے ، بے شک ایسا کرنے سے پاکستانی کمیونٹی کے مابین نفرت اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی روایات نے جنم لیا ہے مگر اِس طرح پاکستانی سیاسی جماعتوں کے اکھٹے کئے گئے فنڈز وطن عزیز میں سیاسی جلسوں ، دھرنوں اور لانگ مارچ میں کام آتے ہیں ۔کئی جماعتوں کے چاہنے والے تو خصوصی طور پر دھرنوں اور لانگ مارچ میں شامل ہونے کے لئے پاکستان روانہ ہو جاتے ہیں جہاں وہ اپنے ماں باپ ، بہن بھائیوں اور رشتہ داروں سے ملاقات نہیں کرتے بلکہ سیدھا دھرنے یا لانگ مارچ والی جگہ پر پہنچ جاتے ہیں ،ایسا بھی ہوا ہے کہ یورپی ممالک سے مرد حضرات نے دھرنوں کے لئے نقد پیسے جمع کروائے جبکہ خواتین نے اپنے زیورات تک اپنی متعلقہ جماعت کو پیش کر دیئے ، کچھ پاکستانی تو یورپی ممالک سے کفن پوش بن کر دھرنوں میںشامل ہوچکے ہیں ، کفن پوش حضرات کا نعرہ تھا کہ خواہ ہم وفات پا جائیں لیکن پاکستان میں سسٹم کی تبدیلی ضرور ہونی چاہئے اچھی سوچ تھی جو پوری نہ ہو سکی ، اب آپ بتائیں کہ اِس عمل کو کم عقلی کہا جائے، سیاسی جنون یا قائدین سے محبت کا نام دیا جائے ۔اوورسیز پاکستانی اپنے وطن کے حالات و واقعات پربھی گہری نظر رکھتے ہیں ، یہ یورپی ممالک کی سیر کو آنے والے ممبرز صوبائی و قومی اسمبلی کی مہمان نوازی کرتے ہیں کہ شاید اس طرح ہمارے مسائل کی آواز وطن عزیز کے حکومتی ایوانوں میں پہنچ جائے اور اُن مسائل کا کوئی حل نکل آئے ، 60اور 70کی دہائی سے دیار غیر میں آنے والے پاکستانی مسلسل اِن مسائل کا شکار ہیں اور اب تک اِن مسائل کے حل کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی ۔حکومتی نمائندے خاطرمدارت کروا کر واپس وطن عزیز پہنچتے ہیں تو تارکین وطن پاکستانیوں سے کئے گئے وعدے بھول جاتے ہیں ۔ہر حکومت یہ کہتی ہے کہ ہم سے پہلی حکومت نے اتنے گمبھیر حالات میں ہمیں اقتدار سونپا ہے جسے ٹھیک کرتے کرتے بڑاعرصہ درکار ہے ،ہر آنے والی حکومت اس طرح کی منطق سنا کر تارکین وطن کے مسائل کا باب ہی بند کر دیتی ہے ۔افسوس کی بات ہے کہ تارکین وطن پاکستانیوں کو وطن عزیز میں ووٹ ڈالنے کا حق نہیں دیا جا رہا ۔این اے 120میں ہونے والے ضمنی الیکشن کو ملک کا سب سے بڑا اور سنسنی خیز الیکشن کہا جائے تو قطعاً غلط نہیں ہوگا کیونکہ یہ ایک سیٹ کی ہار جیت کا معاملہ نہیں تھا بلکہ یہ مقابلہ ملک میں جمہوری طاقت کو قائم رکھنے یا کسی اور طاقت کے قیام کو مان لینے کا نام تھا ،سیاسی قائدین جہاں ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کر رہے تھے وہیں راتوں رات این اے 120کے گلی محلوں میں بجلی کی فراوانی ، سڑکوں کا نیا بنایا جانا ، صاف پانی کا مسئلہ حل کرنا ، بے روزگاروں کو روزگار دینے کی یقین دہانیاں ، چوکی تھانوں سے مجرمان اور ملزمان کی رہائیاں ، غربا کے گھروں میں اناج کی ترسیل ، نوجوانوں کی جیبوں میں گرما گرم مال ، سوال یہ ہے کہ پاکستان کے تمام حلقوں کے سارے الیکشن ایسے کیوں نہیں ہو سکتے ؟ تاکہ دوران الیکشن ہی سب کے مسائل حل ہو جائیں ۔شاید یہ االیکشن موجودہ حکومت اور تحریک انصاف کے مابین تھا اِس لئے تمام سرکاری مشینری ، وزرا ، تمام محکمے الیکشن کو بالکل صاف اور شفاف بنانے میں مصروف تھے ،یہ واحدضمنی الیکشن تھا جس کے بارے میں دونوں پارٹیوں نے مشترکہ طور پرکہا ہے کہ اِس بار دھاندلی نہیں ہوئی ،اِس کا مطلب ہے کہ پہلے ہونے والے انتخابات میں دھاندلی ہوتی تھی ؟ مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز نے الیکشن جیتنے کے بعد جو تقریر کی وہ یورپی ممالک میںمقیم پاکستانیوں میں زیر بحث ہے ،اُنہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہمارے بہت سے کارکنان کو منہ پر کپڑا باندھ کر اغوا کیا گیا ، ووٹرز کو غائب کر دیا گیا ، لوگوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی تھی کہ موجودہ حکومت سے وابستہ لوگوں کو کون اغوا یا غائب کر سکتا ہے ؟ مریم نواز نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا تھا کہ آج ہم نے اُن کو بھی ہرایا ہے جو نظر آتے ہیں اور اُنہیں بھی شکست دی ہے جو نظر نہیں آتے ۔کیا اِس کا یہ مطلب سمجھا جائے کہ مسلم لیگ ن کے خلاف نہ نظر آنے والے جن ، بھوت اور پریاں تھیں یا ایسے افراد تھے جنہوں نے سلیمانی ٹوپیاں پہن رکھی ہوں اور وہ کسی کو نظرنہیں آ رہے تھے ،تقریر میں جن کے بارے میں کہا گیا یا جن کی طرف اشارہ تھا وہ ضرور سمجھ گئے ہونگے ، کیونکہ اگر نظر نہ آنے والے الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں یا کسی کی طرف داری کر سکتے ہیں تو وہ ایسے کام بھی کر سکتے ہیں جو نظروں سے تو اوجھل ہوں گے مگر اُن کی بازگشت اور ’’ دھمک ‘‘ مدتوں سنائی دیتی رہے ۔ میاں نواز شریف ، میاں شہباز شریف ،اوراسحاق ڈار بھی بلا خوف و خطر لندن سے پاکستان پہنچ گئے ہیں اور وہ اپنے خلاف ہونے والی ہر کارروائی کا جواب دینے کی ہمت پیدا کرکے آئے ہیں ،چار سال پہلے تک ایسے حالات نہیں تھے،اب پاکستان کے حکومتی نمائندے اپنی صفائیاں دے رہے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ تارکین وطن پاکستانیوں کے مسائل کا حل بھی تلاش کرے۔

تازہ ترین