• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئی دو دن قبل مجھے کسی نے امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن کی ایک وڈیو بھیجی۔ یہ وڈیو کسی غیر ملکی ٹی وی چینلز پر چلائی گئی۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکی سینیٹ یا کانگریس کی کسی کمیٹی میٹنگ کی یہ وڈیو ہے جس میں امریکی وزیر خارجہ صدر ٹرمپ کے حالیہ دورہ سعودی عرب کے بارے میں سوالات کا جواب دے رہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں امریکی وزیر خارجہ کہتے ہیں:
"One of the outcomes of the President's summit in Riyadh was the creation of a Centre to counter extreme Muslim messaging. The Center now exists and it was inaugurated when we were there. The Center has a number of elements to attack on extreme elements around the world. One of the elements that we are visioning with them and we already have taken up this matter with the Saudis is to publish new text books that go in the schools and the mosques around the world. These books are to replace text books that are out there today. They do advocate extreme wahabism viewpoint around and the justification of violence. We have asked them they just not publish the new book, we have asked that they retrieve the existing text books so we get those back. That's just one example. The center is going to have a broad range of social media to broadcast to have young Imams trained in theological centers. And we are working with them today with the staff of the new center what are the measures that we will hold out self accountable too....."
امریکی وزیر خارجہ کے اس بیان کا اردو میں مفہوم کچھ یوں ہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنے حالیہ دورہ سعودی عرب کے دوران سعودی حکمرانوں سے جو بات چیت کی اُس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ سعودی عرب میں ایک سینٹر قائم کیا گیا جس کا افتتاح اُسی دوران ہو گیا جب امریکی صدر سعودی عرب کے دورہ پر تھے۔ امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ اس سینٹر کے قیام کا مقصد مسلمانوں میں شدت پسندی کے پیغام کو پھیلنے سے روکنا ہے۔ اس سینٹر کو شدت پسندی کے مختلف پہلووں کا مقابلہ کرنا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کے مطابق ایک پہلو جو امریکا نے سعودی عرب کے ساتھ اٹھایا وہ اُس نصاب کے بارے میں ہے جو سعودی عرب شائع کرتا ہے اور جسے دنیا بھر کی مساجد اور مدارس میں پڑھایا جا تا ہے اور جو شدت پسندی اور تشدد کو بڑھاوا دیتا ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ ایسی تمام کتب کو نئے نصاب سے بدلا جائے گا۔ امریکی وزیر خارجہ کے مطابق امریکا نے سعودی عرب کو یہ بھی کہا ہے کہ نہ صرف نئی کتابیں مساجد اور مدرسوں کوفراہم کی جائیں بلکہ پرانی واپس بھی لی جائیں۔ امریکی وزیر خارجہ نے یہ بھی بتایا کہ یہ سینٹر نئے نصاب کی تیاری کے ساتھ ساتھ مدرسوں میں نوجوان اماموں کی تربیت کے لیے میڈیا کو بھی استعمال کرے گا۔ امریکی وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ امریکا سعودی عرب میں قائم کیے گئے اس سینٹر کے اسٹاف کے ساتھ بھی کام کر رہا ہے۔
اس انٹرویو کو سن کر مجھے حیرت اور پریشانی ہوئی کہ امریکا اس حد تک آگے بڑھ چکا ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں کی مسجدوں اور مدرسوں میں وہ کچھ پڑھایا جائے جو اُس کی مرضی کا ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکا اب مدرسوں میں زیر تعلیم مستقبل کے علماء کی تربیت میں بھی خود شامل ہونا چاہتا ہے۔ نہیں معلوم کہ سعودی حکومت نے یہ سب کچھ تسلیم کیا بھی کہ نہیں لیکن امریکی وزیر خارجہ کے اس بیان کے سامنے آنے کے بعد اس معاملہ پر سعودی عرب کو اپنا رد عمل ضرور دینا چاہیے تا کہ معلوم ہو سکے کہ سچ کیا ہے ۔ جو امریکی وزیر خارجہ نے کہا اگر وہ حقیقت ہے تو پھر معاملہ کافی پریشان کن ہے۔

تازہ ترین