• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ مکہ سے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ تشریف لائے۔ یہاں آپ نے مسجدِ نبوی تعمیر فرمائی۔ مسجد نبوی کے ساتھ ہی رہائش کے لئے حجرے بنوائے۔ اس تعمیر سے قبل چند ماہ کے لئے اللہ کے رسول نے ایک انصاری صحابی ابو ایوب انصاریؓ کے گھر میں قیام فرمایا۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا روضہ ترکی کے شہر استنبول میں ہے۔ گزشتہ ہفتے میں نے اپنی اہلیہ اور دو بچوں کے ساتھ حضرت ابو ایوب انصاری کے روضہ پر حاضری دی، سلام عرض کیا اور فاتحہ پڑھی۔
استنبول دنیا کا ایک منفرد اور نہایت حسین شہر ہے۔ یہ شہر دنیا کے دو براعظموں ایشیا اور یورپ کے درمیان صدیوں سے آباد ہے۔ اس شہر کو یونانیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے تقریباً ساڑھے چھ سو سال پہلے تعمیر کیا تھا۔ روایت ہے کہ اس شہر کا نام ایک یونانی بادشاہ بیزاس کے نام پر بازنطیم (Byzantium)رکھا گیا۔ چوتھی صدی عیسوی میں اس شہر کو رومیوں نے فتح کر لیا اور اسے اپنی بازنطینی سلطنت کا دارالحکومت بنایا۔ فاتحین نے تو اس شہر کا نام نیا روم (Nova Roma) رکھا تھا لیکن بعد میں لوگ اس شہر کو اس کے فاتح قسطنطین اعظم (Constantine Great)کے اعزاز میں قسطنطنیہ پکارنے لگے ۔ قسطنطنیہ 395ء سے 1453ء تک یعنی تقریباً گیارہ سو سال بازنطینی سلطنت کا ناقابلِ تسخیر دارالحکومت رہا۔ یہ شہر بحر اسود اور بحرِ مرمرہ کے درمیان آبنائے باسفورس پر واقع ہے۔ اس کا جغرافیائی محلِ وقوع اسے ایک زبردست دفاعی حصار فراہم کرتا تھا۔ مشرق سے اس شہر تک صرف بحری جہازوں کے ذریعے رسائی حاصل کی جاسکتی تھی۔ بازنطینی حکمرانوں نے شہر کی طرف آنے والے تنگ بحری راستے کے کنارے بھاری توپ خانہ نصب کر کے اور سمندر کے اندر زنجیریں ڈال کر کسی بڑے بحری جہاز کی شہر کی طرف بغیر اجازت آمد کو ناممکن بنا رکھا تھا۔ مختلف ادوار میں قسطنطنیہ پر حملے کی کئی کوششیں ہوئیں لیکن اس دفاعی انتظام کے باعث کوئی حملہ کسی پریشانی کا باعث نہ بن سکا۔
عرب مسلمانوں کی افواج نے بھی 674ء اور 717ء میں قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا لیکن بازنطینی دارالحکومت فتح نہ کیا جاسکا۔ 1299ء میں عثمان اول نے ترکی کے ایک علاقے میں عثمانی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ عثمانی سلطنت کے آٹھویں سلطان محمد ثانی کے ہاتھوں 1453ء میں قسطنطنیہ انتہائی حیرت انگیز جنگی تدابیر کی وجہ سے بہ آسانی فتح ہوگیا۔ بازنطینی دارالحکومت اب عثمانی سلطنت کا دارالحکومت بنادیا گیا۔ قسطنطنیہ کا نام تبدیل کر کے استنبول رکھا گیا۔ کچھ روایات میں ہے کہ قسطنطنیہ کا تبدیل شدہ نام استنبول نہیں بلکہ اسلام بول تھا۔ بعض دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ استنبول میں ایک علاقے کا نام اسلام بول تھا۔ ناقابلِ تسخیر قسطنطنیہ فتح کرنے پر ترک عثمانی سلطان محمد ثانی کا نام محمد فاتح پڑ گیا۔ محمد فاتح کا انتقال 1481ء میں ہوا ان کی قبر استنبول کے قدیم تاریخی علاقے فاتح میں مسجد فاتح کے احاطے میں ہے۔ آج بھی لوگ یہاں فاتحہ خوانی کیلئے آتے ہیں۔
یورپ اور ایشیا میں واقع استنبول ایک عجیب شہر ہے۔ کبھی یہ دیومالائی افسانوی وادیوں کی طرح نظر آتا ہے، کبھی ترقی اور جدت کا متاثر کن منظر پیش کرتا ہے۔ قدامت اور جدت، مشرقی اور یورپی روایات استنبول میں ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں۔ استنبول میں سفر کرنا ٹائم ٹنل میں سفر کرنا بن سکتا ہے۔ یہاں آپ خود کو باآسانی تاریخی ادوار میں محسوس کرسکتے ہیں۔ تاریخ سے باہر آکراکیسویں صدی کے ایک شہر کی سب سہولتوں سے بہرہ مند ہوسکتے ہیں۔ ترکوں نے ہر دور میں اپنے تاریخی ورثے کی دل و جان سے قدر کی ہے۔ انہوں نے اس ورثے کی خوب حفاظت کا بہت اعلیٰ اہتمام کیا۔ ترکی میں مسلمانوں کی واضح اکثریت ہے۔ تقریباً تین لاکھ مربع میل پر پھیلے ترکی کی آٹھ کروڑ آبادی کا 82فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ یہاں عیسائی، یہودی اور دیگر مذہب اور اعتقادات کے ماننے والے بھی آباد ہیں۔ ترک مسلمانوں میں رواداری، تحمل اور برداشت انتہائی متاثر کن ہے۔ ترک اپنی ثقافت اور اپنی زبان سے تعلق پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ دفتری اور تعلیمی زبان ترکی ہے۔ پہلی جماعت سے لے کر گریجویشن اور پی ایچ ڈی تک، اسکول، کالج، یونیوررسٹی کے ہر درجے میں، میڈیکل ، انجینئرنگ، بزنس، قانون، ادب اور دیگر سب مضامین کی تعلیم ترکی زبان میں ہی دی جاتی ہے۔ ترک تعلیمی اداروں کا معیار بہت اچھا ہے۔ ترکوں نے بیرونِ ممالک کے طالب علموں کے لئے یونیورسٹی کی سطح پر بعض جامعات میں انگلش میڈیم کا اجرا بھی کیا ہے۔ لیکن ان اداروں میں بھی اساتذہ اور دیگر افراد آپس میں ترکی زبان میں ہی بات کرتے ہیں۔ اس ماحول کی وجہ سے حصول تعلیم کے لئے ترکی جانے والے غیر ملکی طالب علموں کی اکثریت انگلش میں پڑھنے کے ساتھ ساتھ ترکی زبان بھی سیکھ لیتی ہے۔
استنبول میں میرے بیٹے کے ایک دوست کے والد سینئر نیورو سرجن ہیں اور والدہ بائیو کیمسٹری کی پروفیسر ہیں، سرجن صاحب نے پیشہ ورانہ تعلیم کے کئی درجات طے کئے ہیں، پروفیسر صاحبہ نے بائیو کیمسٹری پر ایک ضخیم کتاب لکھی ہے جو نصاب کا حصہ ہے۔ ہمیں انہوں نے اپنے گھر ناشتے پر مدعو کیا۔ مہمانوں کا خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب خود ہمیں لینے تشریف لائے۔ دوران سفر بات چیت کا آغاز کرتے ہوئے میں نے ان سے انگریزی زبان میں خیریت دریافت کی۔ جواب میں ڈاکٹر صاحب انتہائی معصومانہ انداز میں مسکرادیئے۔ پتہ چلا کہ ترکی کے اتنے بڑے ڈاکٹر انگریزی زبان بالکل نہیں جانتے۔ اب میں نے ڈاکٹر صاحب سے اردو میں باتیں شروع کردیں اور ڈاکٹر صاحب ترکی میں جواب دیتے رہے۔ ترجمانی کے فرائض ہمارے بیٹے نے ادا کئے۔ ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ پروفیسر صاحبہ جنہوں نے بائیو کیمسٹری پر کتاب لکھی ہے، انگریزی زبان سے قطعی واقف نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ترکی میں کسی بھی جگہ انہیں ترکی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ڈاکٹر صاحب اور پروفیسر صاحبہ کو اس بات پر حیرت تھی کہ پاکستان میں قومی زبان تو اردو ہے لیکن سرکاری اور تعلیمی زبان زیادہ تر انگلش ہے۔ ترکی میں قومی اور سرکاری زبان کی یکسانیت کے پیش ِ نظر اس اعلیٰ تعلیم یافتہ ترک جوڑے کی حیرت میرے لئے قابلِ فہم تھی۔
ہمیں سوچنا چاہیے کہ صرف ترکی ہی نہیں، دنیا کی ہر قوم نے تعلیم، معیشت، حکومت، عدالت اور دیگر شعبوں میں اپنی مادری اور قومی زبان کو اختیار کرکے ہی ترقی کی ہے۔ یورپ میں اس کی مثالیں جرمنی، فرانس، اسپین، اٹلی اور دیگر کئی ممالک ہیں۔ برطانیہ کی ترقی میں بھی ان کی قومی زبان کا اہم ترین حصہ ہے۔ برطانیہ میں بھی صدیوں پہلے عوام کی زبان انگلش اور اشرافیہ کی زبان لاطینی تھی۔ بچوں کو لاطینی میڈیم اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنی پڑتی تھی۔ اس دور میں بے انتہا کوششوں کے باوجود برطانیہ میں شرح تعلیم میں اضافہ نہ ہوسکا۔ اشرافیہ کے دباؤ کی وجہ سے انگلش کو ذریعہ تعلیم بنانے کی کوششیں اسی طرح ناکام ہوتی رہیں جس طرح آج پاکستان میں اردو کو سرکاری اور تعلیمی زبان بنانے کی کوششیں کامیابی کی راہ تک رہی ہیں۔ جو ممالک اپنی قومی زبانوں کو دوسرے یا تیسرے درجے پر رکھے ہوئے ہیں وہ اپنی معیشت، قانونی اور حکومتی امور، ادب اور فنون میں زیادہ تر دوسروں پر انحصار کرنے والے بن کر رہ گئے ہیں۔ پتہ نہیں کہ ہم پاکستانی اس حقیقت کا ادراک اور اعتراف کب کریں گے۔ اصلاح کا عمل تو غلط روش کے اعتراف کے بعد ہی شروع ہوتا ہے۔

تازہ ترین