• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں بظاہردو طرح کے قانونی نظام ہیں۔ ایک وہ ہے جو قانونی قواعد کی شکل میں موجود ہے اور ایک قانون وہ ہے جو عملی شکل میں نافذ ہے۔ یعنی ایک قانون وہ ہے جو آئین اور قانونی قوائد کے اندر تحریر ہے اور دوسرا قانون جو کہیں لکھا تو نہیں ہوا مگر عملی طور پر ہمارے ملک میں لاگو ہے۔
مثال کے طور پر قانون یہ کہتا ہے کہ ہر شخص اپنی ٹیکس ریٹر ن معینہ مدت تک جمع کروادے بصورت دیگر اسے جرمانہ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن عملی طور پرایسا نہیں ہوتا۔ہر سال FBRٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی حتمی تاریخ بڑھا دیتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ٹیکس ریٹرن جمع کروا سکیں۔
اسی طرح قانون یہ کہتا ہے کہ متنازعہ معاملات کے لیے ہر شخص قانون کا دروازہ کھٹکھٹائے۔لیکن جو پاکستانی عدالتی نظام ہے بالخصوص ذیلی عدالتی نظام جہاں ایک کیس کئی برس تک چلتا رہتا ہے۔ان عدالتوں اور سول کورٹس کا نظام کچھ ایسا ہے جہاں پر قصوروار Stay Orderکے پیچھے چھپ جاتے ہیں اور انصاف کا حقدار مایوسی سے کچہری کے چکر لگاتا رہتا ہے۔
قانون یہ بھی کہتا ہے کہ جب بھی کوئی پراپرٹی خریدی جائے تو اس کی حقیقی قیمت کاغذات میں لکھی جائے لیکن ایسا نہیں ہوتا۔کیونکہ قانونی طورپر ٹیکس کا ریٹ اتنا نامناسب ہے کہ لوگ ٹیکس سے بچنے کے لیے کاغذات میں پراپرٹی کی قیمت کم لکھواتے ہیں اور حکومت کی طرف سے اس کو قبول بھی کر لیا جاتا ہے۔ شاید ہی کوئی پاکستانی ہوگا جس نے کوئی پلاٹ یا گھر خریدتے وقت اس کی اصل قیمت لکھوائی ہو۔ پاکستان کاقانون تو وزیراعظم کا مذاق بنانے کی بھی اجازت نہیں دیتا لیکن ہم اکثر سوشل میڈیا اور میڈیا پر دیکھتے ہیں کہ وزیراعظم کا بے انتہا مذاق بنایا جاتا ہے اور اس ہتک عزت کے قانون پر کسی طور بھی عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔آرٹیکل62-63جو صادق اور امین کے حوالے سے ہے اس قانون پر شازوناظر ہی عمل درآمد ہوتا ہے۔اور حقیقت پوچھئے تو اس قانون پر عمل درآمد ناممکن ہے کیونکہ آپ کو نہیں معلوم ہوتا کہ کونسا شخص کس وقت صادق اورامین کی پٹری سے اتر چکا ہے اور ماضی میں اس قانون کا غلط استعمال بھی دیکھنے کو ملا ہے۔ مزید یہ کہ اگر یہ قانون نافذ ہوجائے توصرف نوازشریف ہی نہیں بہت سارے اراکین اسمبلی بھی نااہل ہوجائیںگے۔اور شاید ہی کوئی پاکستانی ہو جو حقیقی طور پر 62-63 پر پورا اترتا ہو۔ایک اچھے قانون کی تین بنیادی خصوصیات ہوتی ہیں ۔ ایک اچھا قانون حقائق پر مبنی ہوتا ہے اور عملی طور پر نافذالعمل ہوتا ہے۔ ایک اچھا قانون وقت کے ساتھ ساتھ اپ ڈیٹ ہوتا رہتا ہے۔اور ایک اچھا قانون منطقی حوالے سے قابل فہم ہوتا ہے۔قانون کی قدر ہی تب ہوتی ہے جب تحریری قانون اور نافذ کردہ قانون میں تضاد نہ ہو۔یہی تضاد وہ پاکستان کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔جو پاکستانی ریاست کو کمزور بناتا ہے ۔ہم جن نمائندوں کو ووٹ دے کر منتخب کرتے ہیں ان کو پروٹوکول کے مزے لینے اور اسمبلیوں میں بیٹھنے کے لیے نہیں کرتے۔ ان کی اولین ذمہ داری قانون سازی ہوتی ہے۔لیکن بدقسمتی سے عوام جہاں اس لاقانونیت میں پھنسی رہتی ہے وہاں پر ہمارے اہلکار اوراشرافیہ اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے وہ قانون کی خامیوں کو ٹھیک نہیں کرتے۔مسلسل نظرانداز ہونے کی وجہ ہے اس لاقانونیت کے تباہ کن نتائج عوام کو تو سہنے پڑ ہی رہے تھے۔لیکن اب سیاستدان بھی اسی جال میں پھنسنا شروع ہوگئے ہیں۔اور اس کا آغاز نواز شریف سے ہوچکا ہے۔پچھلے انتخابات سے قبل آرٹیکل 62-63کو ختم کرنے کے لیے بہت سی آوازٰیں اٹھنا شروع ہوگئیں۔ جب ریٹرننگ آفیسروں نے اپنی مرضی کے حساب سے اس قانون پر کسی کو پورا اتارا اور کسی نہ اتارا۔اس قانون کا غلط استعمال کیا گیا اور Political victimizationبھی کی گئی ۔تاہم چار سال حکومت کرنے کے بعد بھی مسلم لیگ ن کی حکومت نے اس پر توجہ نہ دی اور اس قانون کو ٹھیک نہ کیا۔ حتیٰ کہ ا ن کا اپنا وزیراعظم اس قانون کی ایک تشریح کی بھینٹ چڑھ گیا اور ناہل ہوگیا۔میں یہاں نواز شریف کے بے گناہ یا گنہگار ہونے کی بات نہیں کررہا بلکہ میرا اشارہ اس متنازعہ قانون کی طرف ہے جس کی وجہ سے نااہل کیا گیا۔ اب جب کہ سینیٹ نے انتخابی اصلاحات کا بل پاس کردیاہے جس کے تحت نااہل شخص بھی پارٹی کی صدارت کا اہل ہوسکتا ہے۔ لہٰذا میاں نواز شریف اب مسلم لیگ ن کے صدر بن سکتے ہیں۔ یہاں بات صحیح اور غلط کی نہیں ہی بلکہ ذاتی مفاد کی بن گئی ہے ۔ NABآرڈیننس کے خاتمے یا اس میں تبدیلی کی بات بھی سننے میں آرہی ہے۔ ویسے تو NABبھی اپنے قیام کے بعد سے ہی متنازعہ رہا ہے۔اورمشرف کے دور میں اس کو سیاستدانوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔NABکا ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ بین الاقوامی قانون کے بنیادی ستون کے برعکس ہے ۔ کوئی بھی ملزم جرم ثابت ہونے تک بے قصور ہوتا ہے۔ لیکن NABکے کیس میں ملزم تب تک قصوروار ہوتا ہے جب تک وہ اپنی بے گناہی کا ثبوت خود نہ دے۔ مشرف کے بعد کسی بھی حکومت نے NABکے ان نقائص کو دور کرنے کی قطعی کوشش نہیں کی۔ کیوں؟ کیونکہ وہ اسے اپنے فائدے اور سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرتے آئے تھے۔ اور یہی NAB آج مسلم لیگ ن اور نواز شریف کے بھی گلے کا پھندا بن گئی ہے۔ تاہم اگر ایسا ہوا تو یہ سب کو پتا ہے کہ قانون کی درستگی کے لیے نہیں بلکہ میاں نواز شریف کو بچانے کے لیے کیا جائے گا۔اگر ہمارے قانون ساز اس نظام کو جلد درست کرنے اور اس کی اصلاح کرنے کے لیے اقدامات نہیں کریں گے تو کل کو کوئی اور اسی جال میں پھنس جائے گا۔ایک صاف شفاف نظام سب کو انصاف دیتا ہے اور ایک خراب نظام صرف طاقتور کو فائدہ دیتا ہے۔طاقت کبھی مستقل نہیں رہتی اور یہی بات ہمارے سیاستدان اور قانون ساز نہیں سمجھتے۔جج قانون نہیں بناتے وہ صرف اس قانون کی تشریح کرتے ہیں اور اس کے مطابق فیصلہ دیتے ہیں۔نواز شریف پوچھتے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا؟ "کیوں کہ میںنے وہ تنخواہ ظاہر نہیں کی تھی جو میں نے لی ہی نہیں تھی ۔۔"؟ نہیں جناب۔۔احترام کے ساتھ آپ کو اس لئے نکالا گیا کہ آپ نے ایک فرسودہ نظام کو اس کی اصلاح کیے بغیر چلنے دیا۔جس کے مطابق آپ کا نہ لی گئی تنخواہ ظاہر نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کوئی بھی عوامی خدمت کا عہدہ رکھنے کے اہل نہیں ہیں۔

تازہ ترین