• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سچی بات یہ ہے کہ میرے لئے میاں نواز شریف کا پریس کانفرنس میں خطاب تھوڑا سا حیران کن تھا اگرچہ غیر متوقع نہیں تھا۔ میاں صاحب نے لکھی ہوئی تقریر نہایت سکون سے پڑھی اور مجھے علم ہے کہ اس تقریر کو پریس کانفرنس سے پہلے انہوں نے ایک دو بار سنا ہوگا اور شاید کچھ اضافے بھی کروائے ہوں گے، اگر اس موقع پر کچھ متوازن سوچ کے حامل دور اندیش مشیران یا دوست میاں صاحب کے پاس موجود ہوتے تو وہ ضرور مشورہ دیتے کہ جارحانہ انداز کی بجائے تو ازن کی راہ اپنائی جائےکیونکہ پاکستان کے تین مرتبہ منتخب ہونے والے وزیر اعظم، تجربہ کار سینئر سیاستدان اور مدبر رہنما کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ قومی اداروں کے خلاف لفظی طبل جنگ بجادے اور اپنے خلاف فیصلے کو ملک ٹوٹنے کے اندیشے کا باعث قرار دے دے۔فیصلے کے خلاف احتجاج ان کا اور مسلم لیگ (ن) کا حق ہے لیکن اس حق کو تصادم کی شکل دینا قومی مفاد میں نہیں، اگر مقصد دبائو ڈالنا تھا تو وہ الٹا بھی پڑسکتا ہے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں مولوی تمیز الدین کیس کا حوالہ دیا جو بلاشبہ ہماری تاریخ کا شرمناک باب ہے لیکن اس کے باوجود کہ مولوی تمیز الدین تحریک پاکستان کے مرد مجاہد، قائد اعظم کے ساتھی اور دستور و قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر تھے، انہوں نے تصادم یا ایجی ٹیشن کی راہ اختیار کرنے سے اجتناب کیا۔ سیاست عروج و زوال کا کھیل ہے اور سیاستدان پھر منتخب ہو کر اقتدار میں آسکتا ہے لیکن اگر قومی اداروں کو انتقام کا نشانہ بنا کر کمزور کردیا جائے تو اس کی تلافی نہیں ہوسکتی۔ عدلیہ نے طویل سفر کے بعد کچھ وقار حاصل کیا ہے اور عوامی نگاہوں میں قابل ا عتماد ٹھہری ہے۔ فوج ملک کا سب سے اہم ادارہ ہے جس نے ملک کو ہر طرح محفوظ بنارکھا ہے۔ غائب کا علم رکھنے والوں یا اندرون خانہ خبروں سے استفادہ کرنے والوںکے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے لیکن بظاہر فوج سیاست سے کنارہ کش نظر آتی ہے اور بادی النظر میں عدلیہ کے فیصلوں پر خاکی سائے نظر نہیں آتے۔ ان حالات میں جبکہ فوج کئی محاذوں پر مصروف ہے اور وزیر اعظم مودی کا ٹارگٹ بنی ہوئی ہے۔ کسی بھی اہم قومی سیاستدان کا فوج کو نشانہ بنانا ہرگز ملکی مفاد میں نہیں۔ ابھی چند ہفتے قبل ہندوستانی وزیر اعظم نے ایک جلسہ عا م میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے گلگت بلتستان بلوچستان وغیرہ سے شکریے کے پیغامات آتے ہیں۔ اکتوبر ،نومبر1970میں اسی طرح کی تقریریں ہندوستان کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کیا کرتی تھیں اور مشرقی پاکستان کو غلامی سے رہائی دلانے کے عزم کا اظہار کیا کرتی تھیں۔آج اسی طرح کی تقریریں مودی کررہا ہے اور کھلم کھلا آزاد کشمیر، گلگت وغیرہ کے ساتھ بلوچستان کی رہائی کا پروپیگنڈہ کررہا ہے۔ اس تناظر میں ہماری سرحدوں کی محافظ فوج کو مضبوط بنانے اور اندرونی طور پر قوم کو متحد و مستحکم رکھنے کی ضرورت ہے۔ قوم کے باطنی اتحاد اور یکجہتی کا امین و محافظ قومی سیاستدان ہوتے ہیں اس لئے اگر قومی لیڈر ہی قوم کو قومی اداروں سے تصادم کا پیغام دینا شروع کردیں اور اسے بطور سیاسی حکمت عملی اپنالیں تو مودی سے زیادہ کون خوش ہوگا۔ احتجاج تصادم کے بغیر بھی ہوسکتا ہے، بہترین انتقام جمہوریت ہے، آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر لڑائی لڑنا، پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کرکے غلط فیصلوں کا راستہ روکنا اور منتخب وزیر اعظم کو محفوظ بنانا سیاسی تدبر کہلاتا ہے لیکن اقتدار سے وقتی محرومی کے احساس محرومی کے تحت تصادم یا انتقام کا رویہ کمزور تدبر کی علامت ہے جو’’شیر‘‘ جیسے بہادر لوگوں اور صابر سیاستدانوں کو زیب نہیں دیتا۔ غلام اسحاق خان سے ٹکر لینا جائز تھا، بینظیر بھٹو سے ٹکرائو کی پالیسی بھی سیاسی کھیل کا حصہ تھی اور متبادل لیڈر بننے کے لئے ضروری تھی لیکن عدلیہ اور فوج جیسے قومی اداروں سے تصادم ملکی خدمت نہیں۔ قانون اور آئین کی جنگ قانون اور آئین کے دائرے میں رہ کر لڑنا ہی مناسب ہوتا ہے۔ یہی قائد اعظم کی لیڈر شپ کا طرۂ امتیاز تھا اور یہی راستہ ہماری قیادت کو بھی اپنانا چاہئے۔ خود عدلیہ کے لئے بھی اپنے و قار کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ انصاف کے دروازے کھلے رکھے اور یہ تاثر پیدا نہ ہو کہ پوری طرح انصاف نہیں ہوا۔
مخالف فیصلے، عروج و زوال، سیاسی محرومیاں اور بحران ہی قیادت کے لئے آزمائش کا درجہ رکھتے ہیں اور ایسے حالات میں صبر و تحمل تدبر اور دور اندیشی کا مظاہرہ قائدانہ صلاحیتوں کا امتحان ہوتا ہے۔ تندہی باد مخالف سے مشتعل ہوجانا یا ایسا تاثر دینا ایک عام اور کمزور انسان کے لئے جائز ہے لیکن قومی رہنمائوں کے لئے نہیں۔ میاں محمد نواز شریف کی رگ رگ میں حب الوطنی اور قومی خدمت کا جذبہ موجزن ہے۔ وہ بہادر سیاستدان، پابند صوم و صلوٰۃ اور بامروت انسان ہیں۔ انہیں عوامی حمایت حاصل ہے اور ان کا سیاسی مستقبل روشن ہے۔ انہیں سیاسی میدان میں ہرایا جاسکتا ہے نہ عوام کے دلوں سے نکالا جاسکتا ہے۔ تصادم کے ذریعے عوام کے جذبات کو بھڑکائے بغیر بھی وہ 2018کا انتخاب ایک موثر انتخابی مہم کے ذریعے جیت سکتے ہیں۔میاں صاحب اور ان کے خاندان پر بہت سے الزامات ہیں جو عدالتی کارروائی کا حصہ ہیں لیکن بظاہر ان الزامات سے ان کا ووٹ بینک زیادہ متاثر نہیں ہوا۔ اس وقت سنگین مسئلہ ان پر تاحیات پابندی ہے جس کا حل آئین اور پارلیمنٹ کے ذریعے تلاش کیا جاسکتا ہے۔ اس مسئلے کو بہرحال عوامی عدالت کے ذریعے حل نہیں کیا جاسکتا البتہ اسے مظلومیت کا رنگ دے کر ووٹ بینک بڑھایا جاسکتا ہے، اگر کوئی پاکستانی وزیر اعظم اپنی میعاد پوری نہیں کرسکا تو ایسی بے شمار مثالیں دوسرے ممالک میں بھی موجود ہیں۔ پاکستان کی اس تلخ سیاسی حقیقت کو فوج جیسے قومی اداروں کے خلاف استعمال کرنے کی بجائے اس کا مستقل حل پارلیمنٹ اور قانون سازی میں تلاش کرنا چاہئے۔ سیاسی تدبر کی حکمت عملی اپنا کر میاں صاحب چوتھی بار بھی وزیر اعظم بننے کی منزل پاسکتے ہیں کیونکہ تدبر اور تحمل قومی سیاستدانوں کے سب سے زیادہ موثر ہتھیار ہوتے ہیں۔ تدبر کا تقاضا ہے کہ میاں صاحب لفظی، زبانی اور قلمی اشتعال دینے والوںاور خوشامدیوں سے احتیاط برتیں چاہے وہ اپنے لب و لہجے سے کتنے ہی مخلص لگتے ہوں۔ مجھے بھی ان کے اخلاص پہ شبہ نہیں البتہ حکمت عملی اور ویژن سے اختلاف ہے۔ سیاسی میدان گرم ہے اور ہر روز اس کی حدت میں اضافہ ہورہا ہے۔ سیاسی گرمی کے ماحول میں مشیران کا بھڑک اٹھنا قابل فہم ہے لیکن قائد وہ ہوتا ہے جو شدید سیاسی گرمی اور بحران میں بھی ٹھنڈے دل و دماغ سے فیصلے کرے، حکمت عملی کے مضمرات پر نگاہ رکھے اور ہر حال میں ملکی و قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دے۔ فی الحال اتنا ہی کافی ہے کہ شاید تیرے دل میں اتر جائے میری بات!!

تازہ ترین