• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہیمانہ کارروائی تھی، قیامت ِ صغری،جسے سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد پرٹوٹے تین دہائیاں گزرگئیں۔اس سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ آج تک مجرموں کو سزا نہیں ہوئی۔ کچھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا، وہ بری ہوگئے۔ پاکستان میں ایسی کوئی اور واردات پہلے ہوئی نہ بعد میں۔ اللہ کرے کبھی نہ ہو۔
اُس وقت گھر حیدرآباد میں تھا اور اکثر آنا جانا رہتا تھا۔ اس بار تو گھر میں ایک تقریب بھی تھی۔ بہت لوگ آئے ہوئے تھے۔ اچانک خبر ملی کہ محمد خان جونیجو کی حکومت بحال ہو گئی ہے۔ سوچا فوراً کراچی واپس چلیں اور پھر اسلام آباد اور اُس اسمبلی کا حال دیکھیں جو بحال ہورہی ہے۔ اسمبلی معطل کرنے والا فوجی آمر جنرل ضیا ء الحق ایک ہوائی حادثے میںماراجا چکا تھا، 17اگست کو۔ حکومت پر صدر غلام اسحاق خان براجمان تھے اور فوج کے سربراہ جنرل اسلم بیگ ہوگئے تھے۔ ابھی واپسی کی تیاری ہو ہی رہی تھی کہ ٹی وی پر خبر سنی کہ عدالت نے بحالی کے حکم کو معطل کردیا ہے، اس بات کی اہمیت کم رہی کہ اس دن اتوار تھا، مگر عدالت لگی اور فیصلہ سنایا گیا۔ سو واپسی کا پروگرام تو رہ گیا ۔ ہم سفر ہمیشہ کہتی تھیں حیدرآباد آکے آپ کا دل واپس جانے کو نہیں چاہتا۔ کچھ ایسا ہی تھا۔ سو اس دن علی حسن کی موٹر سائیکل پر ٹیلیگراف آفس جانے کے لئے گھر سے نکلا، یہی ایک مقام تھا جہاں شام کو سارے صحافی جمع ہوتے تھے اور خبریں اپنے اپنے اخبارات کو بھیجتے تھے۔ یہ کوئی دس پندرہ منٹ کا سفر تھا۔ آرام سے طے ہوگیا، کچھ بھی غیر معمولی محسوس نہیں ہوا۔ لیکن اچانک لگا کہ کچھ ہوا ہے۔ آفس کے آس پاس غیر معمولی اندھیرا تھا، علی حسن بہت جلدی میں تھے، کہنے لگے گاڑی دیں، گاڑی دیں۔ آپ یہ لے لیں۔ وہ خود اپنی موٹر سائیکل پر روانہ ہوگئے۔ علی حسن گاڑی کھاتے میں ایک سنیما کے نام سے مشہور چوک تک گئے، وہاںکافی دنوں سے کشیدگی کے آثار تھے۔ خیال تھا وہاں کچھ ہوا ہوگا۔ مگر وہ تھوڑی دیر میں واپس آگئے، وہاں کچھ نہیں ہوا تھا۔
ہوا تو کہیں اور تھا، کہاں نہیں ہوا تھا۔شہر کے مختلف علاقوں سے دوست احباب فون کررہے تھے، ہر جگہ سے یہی اطلاع مل رہی تھی کہ فائرنگ ہوئی ہے۔ گھر فون کیا کہ مہمانوں کو جانے نہ دیں۔ پتا چلا کچھ نکلے تھے، انہوں نے فائرنگ ہوتے دیکھی تو واپس آگئے۔ ایدھی سینٹر فون کیا انہوں نے کہا بارہ لاشیں آچکی ہیں۔ علی حسن کا خیا ل تھا، یہ مبالغہ کررہے ہیں، اس کا اظہار کیا۔ ایدھی سینٹر کے آدمی نے کہا آپ فون بند کریں ، بہت فون آرہے ہیں۔ قریب میں دیال داس کلب چلے گئے ، وہاں بھی ایسا ہی منظر تھا۔ دوستوں کے گھروں سے فون آرہے تھے، ہماری طرف فائرنگ ہوئی ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا ہواکیا ہے۔ حال ہی میں ایسا کوئی لسانی جھگڑا بھی نہیں ہوا تھا، کوئی غیر معمولی کشیدگی بھی بظاہر نہیں تھی۔ یہ ہوکیا رہا ہے؟ ہر طرف سے فائرنگ کی اطلاعا ت مل رہی ہیں، سب ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے، جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ بعد میں پتہ چلا۔ خودکار اسلحہ سے مسلح ، کچھ لوگ گاڑیوں میں سوار، شہر کے مختلف راستوں سے داخل ہوئے اور ایک ہی وقت میں مختلف علاقوں میں کوئی دس بارہ منٹ فائرنگ کی ، شہر کو خون میں نہلایا اور غائب ہوگئے۔
خوفزدہ لوگ زخمیوں کو لطیف آباد کے بھٹائی اسپتال لے گئے۔ کرفیو لگ چکا تھا، سڑکوں پراندھیرا تھا۔ علی حسن نے پھر بھی ہمت کی۔ وہ ایک ساتھی کے ساتھ بھٹائی اسپتال گئے۔ واپس آئے تو آنکھیں سرخ تھیں۔ پتہ چلا، لاشیں ، اتنی بہت سی لاشیں، دیکھ کر جذبات پر قابو نہ رکھ سکے ، روتے رہے ہیں۔ کافی لاشیں ہیں، انہوں نے بتایا۔ کتنی؟ اس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ گنی نہیں جا سکیں۔ اپنے اپنے اخبارات کو ابتدائی خبریں دے کر، علی حسن اور میں لطیف آباد نمبر سات میں امریکن اسپتال گئے۔ یہ ایک زچہ خانہ ہے۔ اتنے بہت سے زخمیوں کو طبی امداد فراہم کرنا وہاںموجود عملے کے لئے ممکن نہیں تھا۔ بہت سے شدید زخمی زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے دم توڑگئے ۔ وہاں کیا حالت تھی، کچھ نوجوانوں کے جذبات اور سوالوں سے اندازہ ہوا۔ آپ اب آئے ہیں، ایک نے غصے سے پوچھا۔ نہیں ، پہلے بھی آئے تھے۔ علی حسن کا جواب تھا۔ آپ یہاں چلے تھے؟ آپ کے پیروں میں خون لگا تھا؟ خون کمروں سے بہہ بہہ کر راہداری میں آرہا تھا، اس میں سے گزرنے کے لئے، پیروں پہ خون ضرور لگتا۔ پیچھے کچی زمین پر، کوئی بیس پچیس لاشیں پڑی تھیں، انہیں ڈھانکنے والی چادر یںخون آلود تھیں۔ ہمارا اندازہ تھا کہ کوئی ستّر لوگ مارے گئے ہیں۔ یہی خبر میں نے ظفر عباس کو بتائی۔ یہ ایک غیر معمولی تعداد تھی۔ظفر نے حسب معمول کہا، ادریس صاحب ، ہوش میں ہیں۔ جب اسے یقین دلایا تو اس نے کہا مروا مت دیجئے گا۔ وہ ان دنوں دبئی کے اخبار خلیج ٹائمز کے یہاں نمائندہ تھے۔ میں نے وائس آف امریکہ کو خبر دی۔ صبح تک یہی ہوتا رہا۔ اور ہم تھک گئے، نیند اور دکھ سے بے حال۔
اس سارے عرصے میں ہمیںکسی جگہ انتظامیہ یا پولیس کا کوئی اعلیٰ اہلکار نظر نہیں آیا۔ ڈپٹی کمشنر شہر ہی میںتھے ، پولیس کے سربراہ بھٹ شاہ گئے ہوئے تھے جہاں کچھ فرقہ وارانہ کشیدگی تھی۔ شہر کا کوئی والی وارث نہیں تھا۔ کوئی جواب بھی نہیں دے رہا تھا، صبح تک کچھ پتہ نہ چل سکا کہ پورے شہر کو خون میں نہلانے والے یہ کون لوگ تھے؟ یہ کیوں کیا گیا؟ کس کے کہنے پر کیا گیا؟ کون بتاتا۔
اگلے دن، بلکہ رات ہی کو، کراچی کے مختلف علاقوں میں بھی لوگوں کو اُن کے گھروں میں قتل کیا گیا۔ یہاں لوگوں نے گولیاں نہیں چلائیں، چاقو اور خنجر سے حملے کئے گئے، تاکہ گولیوں کا شور سنائی نہ دے۔ لوگوں کے دروازے کھٹکھٹا کر ان کے بارے میں پوچھا گیا۔ ان کی لسانی شناخت کے بعد انہیں مارا گیا۔ علی الصبح ایک بس پر حملہ کیا گیا۔ سند ھ کے قائم مقام وزیر اعلیٰ اختر قاضی اور ایک صوبائی وزیر، احد یوسف جب حیدرآباد پہنچے، تو ان سے پہلے ہمیں ظفر عباس نے یہ اطلاع دیدی تھی کہ کراچی میں کیا ہواہے ۔ یہ اس وقت سمجھ میں آیا نہ آج تک آیا کہ کیا ہورہا تھا، کیا ہوا؟ ایک بات سمجھ میں آئی تیس ستمبر کو اور اگلے دن کراچی میں جو کچھ ہوا، کرایا گیا، اس نے سندھ میں لسانی اور نسلی کشیدگی کو ایک خطرناک رخ دیدیا، دونوں بڑے لسانی گروپ ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوگئے ، ایک مقصد صوبہ کوایک طویل عرصے تک غیر مستحکم رکھنا تھا، اس میں اس واردات کے سرپرست کامیاب رہے۔ صوبہ اب تک بھگت رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ کی آمد کے موقع پر ہم سرکٹ ہائوس گئے، وہاں ہمارے ایک دوست سب ڈویژنل مجسٹریٹ نے نہایت رازداری سے بتایا کہ اس واردات میں قادر مگسی اور جانو آرائیں کا گروہ ملوث ہے۔ میں نے پوچھا، آپ کوئی خبر دے رہے ہیں؟
ان کا اقراری جواب سن کر میں نےانہیں بتایا کہ یہ تو آج کے ایک اردو اخبار میں چھپی ہوئی ہے، نئی بات کیا ہے؟ اور کیوں آپ ہمیں یہ بتا رہے ہیں؟ ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، اور اگر تھا تو انہوں نے بتایا نہیں۔ قاد رمگسی اور جانو آرائیں کی اسی بنیاد پر بعد میں ضمانت ہوگئی تھی۔
اگلے چند دن ہم حیدرآباد میں ہی پھنسے رہے۔ کرفیو اٹھنے کے بعد ہی واپس کراچی آسکے۔ اس سے پہلے نسلی اور لسانی عصبیت کا عفریت پوری طرح شہر پہ چھایا رہا۔ اچھے اچھے اور ایسے ایسے معقول لوگوں سے غلط بیانیاں سنیں کہ خود شرم آنے لگی۔ سب جھوٹ بول رہے تھے کہ ایسا ہوا اور اس لئے ہوا۔ کچھ نہیں ہوا تھا۔ ہاں بعد میں بہت کچھ ہوا۔ کراچی میں کمشنر سے پوچھا کہ آپ لوگوں نے حفاظت کا کوئی بندوبست نہیں کیا تھا۔ ان کا جواب تھا، inter face پر پولیس لگا دی تھی۔ یعنی جہاں مہاجر اور سندھی آبادی قریب قریب تھی وہاں انتظامات کئے گئے تھے۔ ان آبادیوں میں اندر جو لوگ رہ رہے تھے، اور قاتلوں کا نشانہ بنے ان کا انتظامیہ کو کوئی اندازہ نہیں تھا، نہ ان کی حفاظت کا بندوبست کیا گیا۔
یہ بھی آج تک سمجھ نہیں آیا کہ کراچی میں دوسرے لسانی گروہ پر حملہ کرنے والوں کو حیدرآباد کے وا قعہ کا پتہ کیسے چلا؟ اخبار تو صبح چھپتے ہیں، ٹی وی تھا نہیں تو انہیں اس سنگین صورت حال سے کس نے آگاہ کیا؟ اور کیا وہ پہلے سے تیار تھے کہ ایسا ہوگا تو ایسا کریں گے؟ کیا ان دونوں گروپوں کے پیچھے ایک ہی ہاتھ تھا؟ کون بتاتا۔ قادر مگسی اور ان کے بہت سے ساتھی گرفتار کئے گئے، مگر عدم ثبوت کی بنا پر رہا کردئیے گئے۔ سیشن عدالت کے اس فیصلے کو ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھا۔ حکومت نے اس کے خلاف اپیل نہیں کی۔ کوئی فائدہ بھی نہیں۔ جب ثبوت ہی نہیں ہے تو اپیل سے کیا ہوگا۔
جنہیں پولیس نے ملزم قرار دیا تھا وہ تو بری ہو گئے۔ مگر اصل مجرم کہاں ہیں؟ یہ سوال تو اپنی جگہ برقرار ہے ۔ یہ جو حیدرآباد میں ڈھائی سو اور کراچی میں سو سوا سو افراد مارےگئے ، کسی نے تو کئے۔ تو کیا اس بات کی تحقیقات نہیں ہونی چاہیے کہ کس نے کئے؟ ہونی تو چاہیے، مگر ہوئی نہیں۔ اور اب تیس برس بعد کیا ہوگی؟ کسی کو دلچسپی ہوتی تو کچھ ہوتا۔ دلچسپی کس کو ہے، پھر شاید کچھ پردہ نشینوں کے نام بھی آتے، اس لئے کچھ نہیں ہوا۔ خونِ خاک نشیناں تھا، رزق خاک ہو گیا تو کیا ہوا؟

تازہ ترین