• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج 8محرم ہے، پرسوں وہ دن ہوگا جس دن نواسہ ٔ رسول ؐ حضرت امام حسین ؓ نے اپنا سب کچھ قربان کرکے دین کو بچایا ورنہ باطل قوتوں نےدین مٹانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ سیدنا حسینؓ نے باطل قوتوں کی اس چال کو قربانیوں سے ناکام کیا۔
خواتین و حضرات! واقعہ ٔ کربلا اچانک نہیں ہوا۔ اس واقعہ کی تیاری برس ہا برس ہوتی رہی کیونکہ خدا کے دین کے سامنے باطل قوتوں نے ہمیشہ مشکلات کھڑی کیں۔ اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاؑ کو آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ کسی کوبیٹے کی جدائی سہنا پڑی تو کوئی بھائی سے محروم ہو گیا، کسی کو بچپن میں یتیمی ملی، کسی کووقت کی عدالت کا سامنا کرنا پڑا، کوئی مچھلی کے پیٹ میں رہا، کسی کو کنویں میں پھینک دیا گیا، کسی کو پتھروں سے پالا پڑا، کسی کو آگ میں جھونک دیا گیا، کسی کی توہین کرنے کی کوشش کی گئی، کسی کا راستہ روکا گیا، کسی کو اولاد سے محروم کردیاگیا، کسی کو بیماریوں سے آزمایا گیا، کسی کو حالات کے تھپیڑے عطا کئے گئے، کوئی پانی کو ترستا رہا، کسی کو بھوک دے دی گئی، کسی کو مال کے خسارے سے آزمایا گیا۔ وقت گزرتا رہا، آزمائش کا یہ سفر جاری رہا۔ باطل قوتیں دین ِ فطرت کا راستہ روکنے کی کوششوں میں لگی رہیں۔ جب رسول پاکﷺ پر خدا نے دین ِ فطرت مکمل کردیا تو باطل قوتوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنا شروع ہوگئے۔ انہوں نے دین کے خلاف سازشوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہ سازشیں پلتی رہیں مگر دین بھی چلتا رہا اور پھر بالآخر حالات دونوں کو فرات کے کنارے کربلا میں لے آئے۔ وہ دین جو حضرت آدم ؑ سے شروع ہوا تھا حضرت محمدﷺ پہ اس کی تکمیل ہوئی تھی۔ ایک طرف اسے چاہنے والے سیدنا حسینؓ اور ان کے مقابلے میں باطل قوتوںکا نمائندہ یزید۔ یزید درحقیقت ایک فکر کانام ہے جس کایہ سفر ابلیس کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔ باطل قوتوں کی پوری طاقت کربلا میں جمع ہوگئی۔ 10محرم کویہی فیصلہ ہونا تھا کہ یا صدیوں سےجاری جنگ کے بعد خدا کا دین رہے گا یا پھر باطل قوتیں رہیں گی۔ صد شکر کہ 10محرم کو خدا کا دین بچ گیا۔ باطل کو ہمیشہ کےلئے شکست ہوگئی۔ باطل قوتوںکے آخری چراغ یزید کو ایسی شکست ہوئی کہ آج سیدنا حسینؓ کے نام لیوا تو موجود کروڑوں میں ہیں مگر یزید کا نام شرمندگی کی علامت بن چکا ہے۔
خواتین و حضرات! میں نے مختلف انبیاؑ کی مثالیں اس لئے دی ہیں تاکہ آپ کو بتا سکوں کہ اللہ تعالیٰ کے تمام نیک لوگ جن آزمائشوں سے گزرتے رہے وہ کربلا میں تمام کی تمام آزمائشیں سیدنا حسین ؓ کو دینا پڑیں۔ امام الانبیا حضرت محمدﷺ کا پیارا نواسہ ان تمام آزمائشوں سے بڑے اطمینان سے گزرا حالانکہ ان سب آزمائشوں کا عرصہ بڑا قلیل ہے یعنی صالحین نے جو آزمائشیں کئی سالوں میں دیں حسینؓ نے وہی آزمائشیں لمحوں میں دیں۔ حسینؓ کاحوصلہ دیکھئے شب ِ عاشور ان کا خطبہ سنیئے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ سرور کائنات حضرت محمدﷺ کا پیارا نواسہ کس قدر مطمئن ہے اور اپنے آخری لمحے تک دین کی سربلندی کے لئے کس قدر پرعزم ہے۔ سیدنا حسینؓ نے جس صبر ورضا کامظاہرہ کیا، وہ پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتا۔ ایسی قربانی پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اسی لئے عہد ِ جدید کاشاعر محسن نقوی کہتاہے کہ؎
حسینؓ تصویر انبیاؑ ہے
نہ پوچھ میرا حسینؓ کیا ہے؟
چندروز پیشتر مجھے اسلام آباد میں یکے بعددیگرے تین مختلف تقاریب میںجانےکااتفاق ہوا۔ دو تقاریب روہنگیا مسلمانوں کےحوالے سے تھیں جن کا انعقاد الخیر فائونڈیشن اور مسلم ہینڈز نےکر رکھا تھا جبکہ ایک تقریب امت ِ مسلمہ کو درپیش چیلنجز کے حوالے سےتھی۔ اس کا انعقاد مفتی گلزار احمد نعیمی نےکیاتھا۔ اس تقریب میں چونکہ مسلمان حکمرانوںکاتذکرہ بہت ہوا اس لئے مجھے باربار یہ بات یادآتی رہی کہ آج کے مسلمان حکمران فلسفہ ٔ حسین ؓ سے کس قدر دور ہیں مثلاً آج کے مسلمان حکمرانوں کو دولت سے بہت پیار ہے جبکہ نواسہ ٔ رسولﷺ نے اسے ہیچ جانا۔ آج کے مسلمان حکمرانوں کو پروٹوکول کا بہت شو ق ہے۔ حسینؓ نے اس کی نفی کی۔ آج کے حکمرانوں کو اپنی اولادوں سے بہت پیار ہے۔ وہ اپنی اولادوں کے لئے اقتدار کے رستے تیار کرتے ہیں۔ حضرت امام حسینؓ نے اپنی اولاد کو راہ ِ حق میں قربان کیا۔ انہوں نے بادشاہت کے خلاف سچ کا علم بلند کیا۔ آج کے مسلمان حکمران آزمائش میں بزدلی دکھاتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں،این آر او کرتے ہیں، بچائو کے رستے تلاش کرتے ہیں۔ یہ تمام باتیں، یہ تمام طریقے راہ ِ حسینؓ سے کہیں دور ہیں۔
آپ دیکھ لیجئے کہ 10محرم کے روز مسلمان حکمران مختلف پیغامات دیں گے مگر پیغامات صرف پیغامات تک ہی رہیں گے کیونکہ آج کے مسلمان حکمرانوں کو یہ فرصت نہیں کہ وہ راہ ِ حسینؓ پر عمل پیرا ہوں، انہیں مشکل لگتا ہے کہ حق پر چلا جائے۔ ان کے لئے دولت چھوڑنا، دولت سے پیار چھوڑنابہت مشکل کام ہے۔ آج مجھے ایک بزرگ کی باتیں یادآرہی ہیں۔ ان سے کسی نے (ناک پر فرقہ بندی کی عینک سجا کر) پوچھا کہ آپ شیعہ ہیں یا سنی؟ اس پربزرگ نے سوال کرنے والے کو لاجواب کر دیا۔ بزرگ نے کہا کہ واقعہ ٔ کربلا کے بعد دنیا میں دوطرح کے انسان ہیں ایک حسینی اور دوسرے یزیدی۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں حسینی ہوں۔ جوش ملیح آبادی یاد آگئے کہ؎
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ

تازہ ترین