• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصاف نے ایک اور خواب دیکھا ہے کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اس کا ہونا چاہئے۔ وہ ایم کیو ایم پاکستان کو اس خواب کی تعبیر کیلئے اپنے ساتھ ملانے کیلئے کوشاں ہےمگر یہ حقیقت بنتا نظر نہیں آرہا۔ جب قومی اسمبلی کی زندگی صرف 9ماہ رہ گئی ہے تو عمرا ن خان چاہتے ہیں کہ اپوزیشن لیڈر ان کا نامزدکردہ بندہ بن جائے۔ انہوں نے بہت دیر کر دی ہے اس کے علاوہ ان کی جو پالیسی گزشتہ چار سال کے دوران رہی ہے وہ بھی ان کی خواہش پوری ہونے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ ان کے رویے پر غور کریں تو ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہر سیاسی جماعت کو لعن طعن کرکے سخت ناراض کرتے رہے ہیں۔ اب انہوں نے ایم کیو ایم سے بات چیت کا آغاز کرکے ایک اور یوٹرن لے لیا ہے۔ یہ وہی ایم کیو ایم ہے جس کو وہ کیا کیا نام نہیں دیتے رہے اور جس پر کیا کیا الزام نہیں لگاتے رہے۔ ایم کیو ایم اپنی سیاسی بقا اور مفادات کیلئے پی ٹی آئی سے ڈائیلاگ کر رہی ہے حالانکہ اس کا ٹریک ریکارڈ ہے کہ وہ اپنے کسی فیصلے سے کسی وقت بھی منحرف ہوسکتی ہے۔ پی ٹی آئی نے ایم کیو ایم کے بارے میں اپنے ماضی کے خیالات کو ایک طرف رکھ کر تعاون کا فیصلہ کرکے ’’حقیقی‘‘ سیاست کا آغاز کر دیا ہے جہاں اصولوں کا صرف چرچا کیا جاتا ہے ان پر عمل نہیں کیا جاتا۔ اس وقت تو لگ رہا ہے کہ پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے درمیان اپوزیشن لیڈر لانے کیلئے الائنس بن جائے گا مگر ہمارے خیال میں ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ ایم کیو ایم کے بے شمار ’’مسائل‘‘ ہیں اور وہ وفاقی حکومت کو بھی ناراض نہیں کرسکتی کیونکہ یہی کسی حد تک دوسرے ’’بااثر کوارٹرز ‘‘ کے مقابلے میں اس کے ریسکیو میں آتی رہتی ہے۔ مزید یہ کہ ایم کیو ایم کو کراچی میں پاکستان سرزمین پارٹی کے حملوں کا سامنا ہے تاکہ اسے اس کے بہت سے رہنمائوں اور کارکنوں سے محروم کر دیا جائے۔ ایم کیو ایم کو معلوم ہے کہ پی ایس پی کے پیچھے کون سی پاورز ہیں جو چاہتی ہیں کہ اگلے انتخابات میں کراچی مصطفیٰ کمال کے گروپ کے کنٹرول میں آجائے اور ایم کیو ایم کی چھٹی ہو جائے۔
آخر اتنی دیر بعد پی ٹی آئی کو کیوں یہ خیال آیا کہ قائد حزب اختلاف اس کا ہونا چاہئے جبکہ اس نے ہر سیاسی جماعت کو مسلسل ٹارگٹ کرکے اس نہج تک پہنچا دیا ہے کہ وہ کبھی بھی اس کے ساتھ تعاون نہ کرے۔ آئین کے مطابق چیئرمین نیب کا تقرر صدر پاکستان نے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے مشورے سے کرنا ہے اور یہی طریقہ نئے نگران وزیراعظم کی نامزدگی میں بھی اپنایا جانا ہے۔موجودہ چیئرمین نیب 9اکتوبر کو اپنی چار سالہ مدت پوری کرکے ریٹائر ہو رہے ہیں۔ کیئرٹیکر پرائم منسٹر کا تقرر جون 2018ءمیں ہونا ہے جنہوں نے نئے عام انتخابات کروانے ہیں۔ پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ اس کی مرضی کا نگران وزیراعظم اور چیئرمین نیب آجائے۔ ایسا خواب دیکھتے ہوئے وہ اس بات کو نظر انداز کر رہی ہے کہ آخر وزیراعظم کا بھی ان تقرریوں میں بہت بڑا رول ہے۔ آئین کے مطابق اگر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر نگران وزیراعظم پر متفق نہ ہوسکیں تو وہ تین تین نام ایک پارلیمانی کمیٹی کو فیصلے کیلئے بھجوائیں گے جس میں ایک طرف نون لیگ اور اس کے اتحادی اور دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں کے نمائندے ان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں تعداد کے تناسب سے ہوں گے۔ فرض کریں اگر پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم اپنا قائد حزب اختلاف لانے میں کامیاب بھی ہو جاتی ہیں تو پھر بھی پارلیمانی کمیٹی میں اکثریت نون لیگ اور اس کے اتحادیوں اور اپوزیشن کی طرف سے پیپلزپارٹی اور اس کے الائنس کی ہی ہوگی یعنی وہ اپنی مرضی کا نگران وزیراعظم لے آئیں گے اور پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم اپنا منہ دیکھتا رہ جائیں گی۔ عددی اعتبار سے بھی پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادی اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کی کوششوں کو ناکام بنا سکیں۔ اگر انہیں کوئی کمک چاہئے ہوگی تو حکومت یقیناً انہیں فراہم کرنے کو تیار ہوگی کیونکہ وہ کبھی بھی نہیں چاہے گی کہ پی ٹی آئی اپنا قائد حزب اختلاف لاسکے۔ اس کی ترجیح یہی ہوگی کہ سید خورشید شاہ ہی اس عہدے پر رہیں کیونکہ وہ ایک ایسے سمجھدار سیاست دان ہیں جن سے بات چیت بھی ہوسکتی ہے اور معاملات کو حل بھی کیا جاسکتا ہے جبکہ پی ٹی آئی نے تو کسی بات پر اتفاق کرنا ہی نہیں ہے اور یہ اس کا منشور ہے جس کی وجہ سے سیاست میںاتنی زیادہ بربادی، دشنام طرازی اور الزامات کی بھرمار ہو چکی ہے۔
پی ٹی آئی کا اب نیا ٹارگٹ ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) آفتاب سلطان ہیں۔ عمران خان کو کسی دوسری انٹیلی جنس ایجنسی نے فیڈ کیا کہ آئی بی چیف لندن میں سابق وزیراعظم نوازشریف سے ملے ہیں لہٰذا انہوں نے فوراً مطالبہ کر دیا کہ آفتاب سلطان کو مستعفی ہونا چاہئے۔ اس سے قبل ایک ٹی وی چینل کو بھی اس ملاقات کے بارے میں فیڈ کیا گیا۔ آئی بی چیف خصوصی طور پر لندن سابق وزیراعظم سے ان کی اہلیہ کی تیمارداری کیلئے نہیں گئے بلکہ یہ ان کا سرکاری دورہ تھا جو تین ماہ قبل شیڈول کیا گیا تھا جبکہ نوازشریف ابھی وزیراعظم تھے۔ لندن میں ہوتے ہوئے وہ سابق وزیراعظم سے ملے تویہ کوئی نئی بات نہیں کیونکہ جب بھی ایک دوسرے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اسلام آباد میں ہوتے ہیں تو آفتاب سلطان ان سے بھی ملتے ہیں کیونکہ وہ ان کے ماتحت کام کر چکے ہیں اور یقیناً یہ کرٹسی کالز ہوتی ہیں۔ آئی ایس آئی سے ریٹائر ہونے والے بریگیڈیئر اسد منیر کا کہنا ہے کہ آفتاب سلطان کی نوازشریف سے ملاقات میںکوئی مضائقہ نہیں کیونکہ وہ سابق وزیراعظم کے ماتحت کام کر چکے ہیں ، وہ انہیں ہر روز ملتے رہتے تھے اور رپورٹ دیتے تھے اور میں بھی یہی کرتا اگر میرا سابق باس اس حالت میں ہوتا جس میں نوازشریف ہیں۔ آفتاب سلطان ایک نیک نام، انتہائی ایماندار اور پروفیشنل افسر ہیں۔ آئی بی چیف ہوتے ہوئے انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو کارنامے کئے ہیں وہ بے مثال ہیں۔ وہ خاموشی سے کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے آئی بی کو بہت مضبوط کر دیا ہے اور اب یہ کسی بھی بہترین خفیہ ایجنسی سے پیچھے نہیں ہے یہی بات ان کے مخالفین کو ایک آنکھ نہیں بھاتی اور وہ ان کے خلاف سازشوں میں لگے رہتے ہیں۔ ان کے بہترین کام کی وجہ سے ہی نوازشریف بطور وزیراعظم انہیں بار بار ملازمت میں توسیع دیتے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی حالت پر ترس آتا ہے کہ جو کچھ بھی اس کے کان میں پھونکا جاتا ہے وہ اس کو اسکینڈل بنا دیتی ہے۔ اس سے قبل وہ الیکشن کمیشن، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، سپریم کورٹ، سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور دوسرے بے شمار اداروں پر گند اچھالتی رہی اور مطالبہ کرتی رہی ہے کہ ان کے ہیڈز کو برطرف کیا جائے۔ اب اس کا نیا ٹارگٹ آفتاب سلطان ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہوں کو اس طرح اسکینڈلائز نہیں کیا جاتا مگر کون عمران خان کو سمجھائے کہ ایسے رویے سے قومی مفاد کو کتنا نقصان پہنچتا ہے۔ آفتاب سلطان وہی ہیں جنہوں نے پرویز مشرف کے ریفرنڈم کے وقت بطور سرگودھا ڈی آئی جی کام کرنے سے انکار کر دیا تھا اور اپنے آئی جی سے کہا تھا کہ ان کا وہاں سے ٹرانسفر کر دیں کیونکہ وہ اس فراڈ کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ اس کے بعد ایک بار ان کے فیصل آباد کے گھر پر کچھ نامعلوم افراد نے حملہ بھی کیا تھا مگر وہ بال بال بچ گئے تھے۔

تازہ ترین