• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی جانب سے قبل از وقت انتخابات کے اچانک مطالبے سے سنجیدہ قومی و سیاسی حلقوں میں بے چینی اور اضطراب پیدا ہوگیا ہے۔ اس وقت ملک کے ادارے ٹھیک کام کررہے ہیں۔ احتسابی عمل کا بھی آغاز ہوچکا ہے۔ جماعت اسلامی، پیپلزپارٹی اور اے این پی نے بھی ملک میں قبل از وقت انتخابات کے مطالبے کو مسترد کردیا ہے۔ عمران خان کی طرف سے نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ غیر آئینی نہیں ہے۔ البتہ موجودہ ملکی صورتحال میں یہ مطالبہ غیر دانشمندانہ اور غیر حکیمانہ نظر آتا ہے کیونکہ یہ مسئلے کا حقیقی حل نہیں ہے۔ اس سے غیر جمہوری قوتوں کا راستہ ہموار ہوگا۔ 11مئی 2013کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو اقتدار کیلئے بھاری مینڈیٹ ملا تھا۔ تحریک انصاف نے مسلم لیگ(ن) پر دھاندلی کا الزام لگا کر اسلام آباد میں 126دن کا طویل دھرنا دیا تھا مگر وقت نے ثابت کیا کہ احتجاجی دھرنے کی ٹائمنگ درست نہیں تھی۔ اُس وقت مسلم لیگ(ن) کی حکومت کو برسراقتدار آئے صرف ایک سال ہی گزرا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے اب سوا چار سال ہو چکے ہیں۔ اگلے سال 2018میں عام انتخابات اپنے شیڈول کے مطابق ہوں گے۔ ان حالات میں قبل ازوقت انتخابات سے کچھ حاصل نہ ہوگا بلکہ اپوزیشن کی جماعتوں کو بھی الیکشن کی تیاری کیلئے پورا وقت نہیں مل سکے گا۔ موجودہ حکومت کی مدت میں چند ماہ باقی رہ گئے ہیں۔ اگر اس وقت مسلم لیگ نون کی حکومت کو ختم کر کے وقت سے پہلے الیکشن کرا دیئے گئے تو نوازشریف پھر مظلوم بن جائیں گے اور اس کا سیاسی فائدہ مسلم لیگ (ن) کو ہوگا۔ عمران خان نے دو سال پہلے مڈٹرم الیکشن کا مطالبہ کیا تھا جو پورا نہ ہوسکا تھا۔ اب قبل از وقت انتخابات بھی بے وقت کی راگنی محسوس کی جارہی ہے۔ پیپلزپارٹی کی سابقہ حکومت کو پانچ سال حکومت کرنے کا موقع ملا تھا۔ موجودہ حکومت کو اپنی آئینی مدت ضرور پوری کرنی چاہئے۔ اُسے یہ کہنے کا جواز نہیں ملنا چاہئے کہ وقت سے پہلے ہی اُسے فارغ کر دیا گیا تھا۔ اب بھی وقت اور حالات کا تقاضا یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں حکومت کو گرانے کی بجائے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر ایسی قانون سازی کریں کہ کرپٹ عناصر کو آئندہ الیکشن کے عمل میں شریک ہونے کا موقع نہ مل سکے۔ اگر انتخابی اصلاحات پر 2018ء انتخابات میں بھی عملدرآمد نہ ہوا تو پھر شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہوسکے گا اور ایک بار پھر دھاندلی کا شور مچایا جائے گا۔ حکومت نے سینیٹ میں ایک ووٹ کے فرق سے ایک نیا الیکشن بل2017ء منظور کروایا ہے۔ ابھی اس بل کو قومی اسمبلی سے بھی منظور کروایا جائے گا۔ بعدازاں صدر مملکت ممنون حسین کے دستخط کے بعد یہ ایک قانون بن جائیگا۔ انتخابی اصلاحات کے اس بل کی سینیٹ سے منظوری سے نوازشریف کے نااہل ہونے کے باوجود دوبارہ پارٹی صدر بننے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ اس بل کی ایک شق میں نااہلی کی مدت پانچ سال کی گئی ہے، گویا انتخابی اصلاحات بل کی قومی اسمبلی سے منظوری کے نتیجے میں نوازشریف پانچ سال بعد سیاسی کردار ادا کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ سینیٹ سے انتخابی اصلاحات بل کی منظوری خوش آئند ہے مگر اس بل کے ذریعے کسی نااہل شخص کو دوبارہ سیاست میں لانے کی کوشش نہیں ہونی چاہئے۔ انتخابی اصلاحات سیاسی جماعتوں کا دیرینہ مطالبہ تھا۔ سینیٹ میں مسلم لیگ(ن) نے متنازع شق کو انتخابی اصلاحات بل میں شامل کرنے اور منظور کروانے میں جس قدر عجلت کا مظاہرہ کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک شخص کو بچانے کیلئے پوری حکومتی مشینری لگی ہوئی ہے۔ آئندہ چند روز میں قومی اسمبلی میں جب یہ بل پیش کیا جائے تو نااہل شخص کے دوبارہ پارٹی صدر بننے کی شق کو بل میں سے نکال لینا چاہئے۔ بصورت دیگر سپریم کورٹ اور جمہوری اقدار دونوں کی بدنامی ہوگی۔ پارلیمنٹ کو عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کرنا چاہئے اور ایسی قانون سازی سے گریز کرنا چاہئے کہ جس سے ریاستی اداروں کا آپس میں ٹکرائو ہو۔ ایک دوسرے کے مدمقابل آنے سے ریاستی ادارے کمزور ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ انتخابی اصلاحات بل کی قومی اسمبلی سے بھی منظوری کے بعد کیا الیکشن میں روپے پیسے کا عمل دخل ختم ہوجائے گا؟ اور کیا غریب اور متوسط طبقے سے لوگ انتخابات میں حصہ لے سکیں گے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پارلیمنٹ قانون سازی تو کر دیتی ہے مگر اُس پر حقیقی معنوں میں عملدرآمد ہو نہیں پاتا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں قانون کی حکمرانی نہیں ہے۔ ہر آنے والی حکومت قانون کی حکمرانی کے نعرے تو لگاتی ہے مگر قوانین پر صدق دل سے عمل نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کا حکومتوں پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ 70سال بعد یہ پہلا موقع ہے کہ کسی بااثر فرد کو کرپشن کے الزام میں سپریم کورٹ کی طرف سے نااہل قرار دیا گیا ہے۔ ماضی میں یہ ہوتا رہا ہے کہ اشرافیہ پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا تھا۔ جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق کا یہ کہنا درست ہے کہ احتساب صرف ایک خاندان کا نہیں ہونا چاہئے بلکہ تمام کرپٹ افراد کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہئے۔ پاناما لیکس میں شامل دیگر 436پاکستانیوں کو بھی احتساب کے شکنجے میں لانا ہوگا۔ احتساب کے نام پر سیاسی انتقام یا مذاق نہیں ہونا چاہئے۔
بہرکیف سابق وزیراعظم نوازشریف پاناما کیس میں نااہل ہو کر احتساب عدالت میں پیش ہوچکے ہیں۔ اگرچہ نوازشریف کے نااہل ہونے کے بعد لندن سے ان کی ڈرامائی انداز میں وطن واپسی ہوئی ہے۔ کہا جارہا تھا کہ وہ اپنی اہلیہ کلثوم نواز کے مکمل علاج تک لندن میں ہی رہیں گے اور فوری وطن واپس نہیں آئیں گے حتیٰ کہ ان کے پاکستان واپس آنے سے ایک روز قبل وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا بیان بھی منظر عام پر آیا تھا کہ سابق وزیراعظم ابھی وطن واپس نہیں آئیں گے بلکہ وہ اپنی اہلیہ کے علاج کی غرض سے کچھ عرصہ لندن میں قیام کرینگے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ این اے 120کا نتیجہ مسلم لیگ(ن) کے حق میں آنے کے بعد نوازشریف نے پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ حالانکہ اس ضمنی الیکشن سے پہلے ان کی رائے یہ تھی کہ وہ لندن میں بیٹھ کر پارٹی امور چلائیں گے۔ واقفان حال کا مزید کہنا ہے کہ جس طرح سابقہ دور حکومت میں یوسف رضا گیلانی کو وزارت عظمیٰ سے فارغ کر کے پیپلز پارٹی کی حکومت کو ختم نہیں کیا گیا تھا بلکہ وہ چلتی رہی تھی اسی طرح ملکی مقتدر حلقے نوازشریف کے سیاسی منظرنامے سے ہٹنے کے بعد مسلم لیگ(ن) کی حکومت کا خاتمہ نہیں چاہتے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ یہ حکومت اپنی مدت پوری کرے۔ آئندہ الیکشن 2018میں مقتدر حلقے ایک ایسی حکومت کے خواہش مند ہیں جو قومی سلامتی کے امور پر کمپرومائز نہ کرے۔ 2018کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کا سیاسی مستقبل مخدوش دکھائی دے رہا ہے جبکہ تحریک انصاف بھی اپنی یوٹرن پالیسیوں کی وجہ سے اگلے عام انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل نہیں کرسکے گی۔ لگتا یہ ہے کہ مقتدر حلقوں کی سرپرستی سے ایک نئی مسلم لیگ 2002کی طرح ’’کنگزپارٹی‘‘ کے طور پر آئندہ چند ہفتوں میں سامنے آئے گی جو مستقبل کی سیاست میں مرکزی کردار ادا کرے گی۔ پیپلزپارٹی 2013 کے الیکشن میں سندھ تک محدود ہوچکی ہے۔ اب مسلم لیگ (ن) بھی پیپلزپارٹی کی طرح گوشہ نشین ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ این اے120 لاہور کے الیکشن نے بھی یہ واضح پیغام دے دیا ہے کہ اگر دینی جماعتیں2018میں مل کر الیکشن نہ لڑیں گی تو ان کا حال بھی این اے120جیسا ہوگا۔ کے پی، کراچی، پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں میں اگر 2018میں دینی جماعتیں متحد ہو کر الیکشن لڑتی ہیں تو ملکی منظرنامہ تبدیل بھی ہوسکتا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پاکستان میں احتساب کے نام پر آئندہ انتخابات کو موخر کیا جاسکتا ہے۔ ٹیکنوکریٹس اور سیاستدانوں پر مشتمل قومی حکومت تین سال کیلئے بنانے کے پلان پر غور کیا جارہا ہے۔ ہماری دانست میں ایسا کوئی اقدام پاکستانی جمہوریت کیلئے نیک شگون ثابت نہیں ہوگا۔ ایک بار جمہوریت پٹری سے اتر گئی تو پھر ماضی کی طرح نیا ڈکٹیٹر آجائے گا۔ اس طرح پاکستان میں جمہوری نظام کبھی مضبوط نہیں ہوپائے گا۔ خدارا ایسی سنگین غلطی نہیں ہونی چاہئے۔ پاکستان کی سیاسی قوتوں کو اس نازک صورتحال میں فہم وفراست سے کام لینا چاہئے۔

تازہ ترین