• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ویسے تو میرے دوست کہا ں نہیں رہتے۔ لیکن آج جس دوست کا ذکرہے وہ پاکستان کے صحرائی علاقے تھرپارکر میں رہتا ہے۔ وہاں کوئی نوکوٹ ہے، نقشے پر دور دراز چھوٹا سا قصبہ۔ میرا دوست ارشاد علی وہیں رہتا ہے۔ اسکے ساتھ اس کی بیوی، بیٹا اسامہ اور کمسن بیٹی عریشہ رہتی ہے۔جب ہم تعارف کے مرحلے سے گزر رہے تھے تو میں نے ارشاد علی سے پوچھا کہ اس ذرا سی بستی میں تم کیا کرتے ہو۔ اس نے کہا کہ میں مرچ او رکپاس کا چھوٹا سا بیوپاری ہوں۔ کہاں لندن اور کہاں ریگستان میں دھنسی ہوئی بستی نوکوٹ، آپ سوچتے ہوں گے کہ ہمار ا یہ دوستی کا رشتہ کیسے قائم ہوا۔ اسکی کہانی بھی سن لیجئے۔ ارشاد علی نے خدا جانے کہاں سے اور کیسے میرا لندن کا ٹیلی فون نمبر ڈھونڈ نکالا۔ اس نے مجھے فون کیا۔ایسا فون میرے ہاں پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ اب کے جو آیا تو اپنے ساتھ صحرا کی ریت نہیں،اُس پر برسنے والی بارش کے پہلے چھینٹے کی سوندھی خوشبو لایا۔ ارشاد علی نے کہا کہ میری بیٹی عریشہ چھٹی جماعت میں ہے۔ اسے پڑھنے کا بے حد شوق ہے لیکن ہمارے علاقے میں (جسے سندھی علائقہ کہتے ہیں)اچھی کتابیں نہیں ملتیں۔ عریشہ کہتی ہے کہ آپ نے بچوں کی کتابیں لکھی ہیں اور کیوں نہ آپ سے اچھی کتابیں مانگی جائیں۔ جسے اس نے مانگنا کہا، اسے میں نے حکم جانا۔ اپنے لاہور کے پبلشر کو لکھ بھیجا کہ کتابوں کا پارسل بنا کر نوکوٹ روانہ کیا جائے۔ بس اس کے بعد عریشہ میری چھوٹی سی دوست بن گئی ۔ وہ ٹیلی فون پر مجھ سے چھوٹی چھوٹی باتیں کرنے لگی او رمیں اسے جب بھی موقع ملا، کتابیں بھجواتا رہا۔ ارشاد علی کا گھرانا کبھی کبھا ر فون کرتا اور وقت بدلا تو فون میں ان سب کی شکلیں بھی نظر آنے لگیں۔ عریشہ بڑی ہورہی تھی۔ اب وہ آٹھویں جماعت میں ہے اور کتابوں کا تقاضا اب بھی کرتی ہے۔ پچھلے دنوں ارشاد علی کا فون آیا تو اس نے ایک عجیب خبر سنائی، دل کو دکھانے والی خبر۔ کہنے لگا کہ بیٹی اب نویں جماعت میں جائے گی۔ ہم اسے جیسے بھی بن پڑا ، پرائیوٹ اسکول میں پڑھواتے رہے اور اس کا خرچ اٹھاتے رہے۔ اب وہ نویں کلاس میں جائے گی جس کی فیس اتنی زیادہ ہے کہ ہم اٹھا نہیں سکتے۔ اب ہم نے سوچا ہے کہ اسے سرکاری اسکول میں داخل کرادیں۔ سرکاری اسکول میں پڑھائی وڑھائی تو ہوتی نہیں۔ بچّے جیسے جاتے ہیں ویسے ہی آجاتے ہے۔ ہم نے سوچا کہ عریشہ دن میں سرکاری اسکول میں جائے اور شام کو ٹیوشن پڑھے۔اس طرح شاید اس کی تعلیم اچھی ہوجائے۔
ضلع میر پور خاص کے قصبے نو کوٹ کے مرچ اور کپاس کا یہ چھوٹا سا بیوپاری دراصل اپنی کمسن بیٹی کا نہیں، پاکستان کے ایک پوری نسل کا دکھ بیان کر رہا تھا۔ اس کا یہ کہنا دل پر گھاؤ لگا گیا کہ سرکاری اسکول میں بچے جیسے جاتے ہیں ، ویسے ہی آجاتے ہیں۔ ذرا سے اس فقرے میں بڑی سی حقیقت سما گئی ہے۔ یہ اتنا بڑا سچ ہے کہ اس کی قسم کھائی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں تعلیم اس لئے ہے کہ پرانے وقتوں سے چلی آرہی ہے۔ یہ حال ایک تعلیم ہی کا نہیں، زندگی کے ہر شعبے کا ہے۔ گزرے وقتوں میں لوگ جو کام کرگئے ، وہ کام اتنے سخت جان ہیں کہ ابھی تک چل رہے ہیں ورنہ چھوڑنے والوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ میں نے خاص طور پر سندھ میں بچوں کے اسکولوں کی حالت دیکھی ہے۔ کاش نہ دیکھی ہوتی۔ عمارتیں کھنڈ ر ہوئی جاتی ہیں، چھتیں گر رہی ہیں اور بچے کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے پڑھ رہے ہیں۔ نہ کھیل کے میدان ہیں ، نہ ٹوائلٹ ہیں، کہیں کتابیں نہیں اور کہیں تو اور غضب ہے کہ استاد ہی نہیں۔ میں نے ایسے اسکول دیکھے ہیں جہاں کچھ نوجوان بے روزگاری سے تنگ آکر بلا اجرت پڑھا رہے ہیں۔ کہیں کہیں تو اصل ٹیچر گھر بیٹھا ہے اور کسی ضرورت مند کے آگے اپنی اجرت کا چھوٹا سا ٹکڑا ڈال کربچوں کو پڑھوا رہا ہے۔ بعض سیاسی رہنما بجا طور پر کہہ رہے ہیں کہ سرکار کو ترقیاتی فنڈ کے نام پر جو دس کروڑ روپے ملے ہیں ان سے قائم ہونے والے دس اسکول یا دس شفاخانے دکھا دے۔ صاف کیوں نہ کہوں کہ یہ ترقیاتی فنڈ جن لوگوں کی جیبوں میں جارہے ہیں ، ٹھونسے جانے سے ان کی جیبوں کے بخئے ادھڑرہے ہیں اور نیت کا یہ حال ہے کہ کسی حال سیر نہیں ہوتی۔
اب رہ گئے وہ تعلیمی ادارے جن کی پیشانی پر بڑے ناز وانداز کے ساتھ لفظ پرائیوٹ لکھا ہے، وہ تعلیمی نہیں، کاروباری ادارے ہیں۔ ان کو غرض فیسوں سے ہے اور بس۔ان میں سے اکثر اداروں کی خوبی یہ ہے ، اور والدین ان کی اس ادا پر جان چھڑکتے ہیں کہ ان کی چار دیواری کے اندر صرف اور صرف انگریزی بولی جاتی ہے ۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ وہاں اردو بولنے والوں پر جرمانہ ہوتا ہے۔ اس انگریزی کے نام پر بچّوں کے والدین سے جو رقم بٹوری جاتی ہے وہ ہر سال بانس کے درخت کی طرح بڑھتی جاتی ہے۔اس بار تو والدین سڑکوں پر نکل کر مطالبہ کر رہے ہیں کہ حکومت ان کی روک تھام کرے۔اب کوئی ان سے یہ پوچھے کہ حکومت کا خود اپنے تعلیمی اداروں پر بس نہیں چلتا، وہ بازاروں کی طرح کھلے ہوئے اداروں کی حالت کیسے سدھارے گی۔اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے۔لوگ حکومت کی طر ف دیکھنا چھوڑ دیں۔ خاص طور پر تعلیم اور صحت کے معاملے لوگ اپنے ہاتھوں میں لیں۔ صاحب حیثیت یا با اثر لوگ اپنے اسکول کالج کھولیں اور اپنے شفاخانے قائم کریں۔ یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ اس طور پر اب تک جو کام ہوا ہے وہ کسی معجزے سے کم نہیں۔ لوگوں نے دور دراز علاقوں میں بڑے بڑ ے اسپتال قائم کرلئے ہیں جہاں ضرورت مندوں کا مفت علاج ہورہا ہے۔ اسی طرح جرات مند لوگوں نے تعلیمی ادارے کھول کر ایسا کارنامہ انجام دیا ہے کہ علاقے کے بچّوں کی قسمت جاگ اٹھی ہے۔ کہیں گاؤ ں دیہات میں ایک کمرے کے اسکول کا حیرت انگیز نظام قائم ہوگیا ہے اور کہیں تو بڑے شہروں میں فلائی اوور کے سائے میں ان بچوں کے لئے اسکول کھول دئیے گئے ہیں جو کچرا چن کر اپنا اور گھر والوں کا پیٹ پالتے تھے۔ یہ روگ اونچے مینار پر بیٹھی ہوئی حکومت کے بس کا نہیں۔اب جو تمنّا کرنے چلا ہوں اس سے پہلے کس نے کی ہوگی کہ کاش یہ روگ ہم سب کو لگ جائے۔کچھ ایسا ہو جائے کہ گلی گلی عمدہٰ اسکول کھلیں اور کاش عریشہ اپنے ہی گاؤں میں اعلیٰ تعلیم پائے اور مرچ او رکپاس کا چھوٹا سا بیوپاری ارشاد علی دنیا کو دکھا سکے کہ دیکھو، میری تعلیم یافتہ بیٹی ۔

تازہ ترین