• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر خارجہ پاکستان خواجہ محمد آصف کا نیو یارک میں ایشیا سوسائٹی کی تقریب سے خطاب بہت متنازع بنا ہوا ہے ، جس میں پاکستان کی ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کیا ہے اور کچھ انتہا پسند تنظیموں اور افراد کو پاکستان پر بوجھ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا اگر ’ ’ ڈومور ‘‘ کا مطالبہ کر رہی ہے تو وہ درست ہے ۔ پاکستان کی کچھ مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے خواجہ آصف کے اس خطاب کی نہ صرف مذمت کی ہے بلکہ ان کے خلاف اسمبلیوں میں بھی مذمتی قرار دادیں پیش کی جا رہی ہیں ۔ کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ خواجہ آصف کے ہوتے ہوئے دشمن کی ضرورت نہیں ہے ۔ خواجہ آصف کی باتوں پر تنقید کرنے والے یہ بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں برطرف کیا جائے اور ان پر غداری کا مقدمہ درج کیا جائے ۔ اگر پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو خواجہ آصف نے جو باتیں کی ہیں ، وہ سیاسی رہنما ، سیاسی مبصرین ، دانشور اور اہل رائے حلقے بہت پہلے سے کہہ رہے ہیں اور ان سے کوئی انکار بھی نہیں کر سکتا ہے ۔ ہم سب آج یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ 80 ء کی دہائی میں پاکستان کو سوویت یونین کے خلاف افغان جنگ میں امریکہ کا ’’ پراکسی ‘‘ نہیں بننا چاہئے تھا ۔ اس جنگ نے پاکستان کو اس خطے کی تاریخ کی بدترین تباہی سے دوچار کیا ۔ خواجہ آصف کی اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے کہ اس جنگ کا حصہ بننا پاکستان کا انتہائی غلط فیصلہ تھا ۔ خواجہ آصف کی یہ بات بھی حقیقت ہے کہ جن انتہا پسند تنظیموں اور افراد کے خلاف امریکہ اور اس کے حواری پاکستان کو جنگ کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں ، وہ انتہا پسند 25 سال قبل امریکی لاڈلے اور وائٹ ہاؤس میں دعوتیں اڑایا کرتے تھے ۔ سوویت یونین کے خلاف پاکستان کو استعمال کیا گیا اور سوویت یونین سے جنگ جیتنے کے بعد امریکہ نے نہ صرف ہمیں دھتکار دیا بلکہ وہ اس خطے کو چھوڑ کر چلا گیا ۔ اس کے بعد ہم جہنم میں چلے گئے اور ابھی تک اسی جہنم میں جل رہے ہیں ۔ خواجہ آصف کی اس بات کو بھی کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ آج پاکستان میں انتہا پسندی ہے ۔ اس کے حوالے سے خواجہ آصف کی یہ بات بھی معقول ہے کہ بلا شبہ ماضی میں ہم نے جو غلطیاں کی ہیں لیکن یہ غلطیاں کرنے میں ہم اکیلے نہیں ہیں ۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ان انتہا پسندوں کو پروان چڑھایا اور ان کا خمیازہ آج پاکستان بھگت رہا ہے ۔ خواجہ آصف کی جو بات قابل اعتراض ہے ، وہ یہ ہے کہ دنیا جو ہم سے ’’ ڈومور ‘‘ کا مطالبہ کر رہی ہے ، وہ درست ہے ۔ یہ بات وزیر خارجہ کی حیثیت سے شاید انہیں کہنی نہیں چاہئے تھی ۔ کچھ حلقوں کا خیال یہ ہے کہ اس سے پاکستان مخالف قوتوں کے بیانیہ کو تقویت ملتی ہے ، جو یہ الزام لگاتے ہیں کہ پاکستان انتہا پسند تنظیموں کی محفوظ جنت ہے اور دہشت گردوں کے خلاف پاکستان نہ صرف کوئی کارروائی نہیں کر رہا بلکہ انہیں اپنے پراکسی کی حیثیت سے پڑوسی ممالک میں استعمال کر رہا ہے ۔ اگر پاکستان مخالف بیانیہ کے تناظر میں خواجہ آصف کے بیان کو دیکھا جائے تو اس پر تنقید میں کسی حد تک معقولیت نظر آتی ہے لیکن صرف اسی وجہ سے ہم حقائق کو نظر انداز بھی نہیں کر سکتے ۔ خواجہ آصف کے خلاف ردعمل میں ہم اپنی نسلوں کو اس قدر آگے بھی نہیں لے جا سکتے کہ وہ طویل عرصے تک اپنی قومی غلطیوں کا اعتراف بھی نہیں کر سکیں اور اپنے لیے درست راستے کا تعین نہ کر سکیں ۔
کچھ حلقے خواجہ آصف کے بیان کو پاکستان کے سیکورٹی اداروں کے خلاف مہم سے تعبیر کر رہے ہیں اور یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کی فوج کا بیانیہ اور پاکستان کی حکومت کا بیانیہ ایک دوسرے سے برعکس ہے ۔ فوج کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ ہم سے ’’ ڈومور ‘‘ کا مطالبہ نہ کریں جبکہ وزیر خارجہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ڈومور کا مطالبہ درست ہے ۔ یہ حلقے پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال میں خواجہ آصف کی باتوں کی توضیح کر رہے ہیں ۔ یہ حلقے خواجہ آصف کے بیان کی مذمت کرکے شعوری یا لاشعوری طور پر ایک بیانیہ کی حمایت کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں لیکن انہیں شاید یہ احساس ہی نہیں ہے کہ اس ردعمل کا فائدہ بھی پاکستان مخالف قوتوں کو ہو رہا ہے ، جو یہ دلیل دیتی ہیں کہ پاکستان یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ اس کی سرزمین پر انتہا پسند اور دہشت گرد عناصر موجود ہیں ۔ ہمارے ہاں یہ بحث اس وقت شروع ہوئی ، جب محرم الحرام کی سخت سیکورٹی کے باعث پورے ملک میں کرفیو کا سماں محسوس ہوتا ہے ۔ ہمارے سیکورٹی ادارے اعصاب شکن صورت حال سے دوچار ہیں ۔ پوری دنیا یہ سوال کر رہی ہے کہ یہ کیسا اسلامی ملک ہے ، جہاں مسلمان اپنی مذہبی رسومات بھی سخت سیکورٹی کے حصار میں مناتے ہیں ۔ محرم الحرام کے دوران خوف و دہشت کی فضا میں ہمارا ہر بیانیہ کمزور محسو س ہو رہا ہے ۔ دنیا میں کہیں بھی اس طرح عاشورہ محرم نہیں منایا جاتا ۔
اگرچہ ریاست کا بیانیہ وہ ہوتا ہے ، جو حکومت وقت کا بیانیہ ہوتا ہے لیکن موجودہ صورت حال میں وزیر خارجہ خواجہ آصف کو خاموش رہنا چاہئے یا بات کرنی ہو تو سفارتی زبان کا سہارا لینا چاہئے ۔ ’’ بات سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی ‘‘ کے مصداق حکومت کو پاکستان کی خارجہ اور داخلہ پالیسی بدلنے کے لیے حکمت عملی کے ساتھ کام کرنا چاہئے اور جو لوگ خواجہ آصف پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ وہ پاکستان کی رسوائی کا باعث بنے ، ان کی بات بھی اگرچہ کسی حد تک معقول ہے لیکن ان لوگوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے ردعمل میں اس قدر آگے نہ جائیںکہ ہم معاملات کو ٹھیک کرنے میں مزید دیر کردیں ۔ جب تک پاکستان میں مذہبی رسومات انتہائی سخت سیکورٹی کے حصار میں منائی جائیں گی ، خوف و دہشت کی فضابرقرار رہے گی اور ہم اپنے گھر کو ٹھیک نہیں کریں گے ، تب تک ہم جو بھی بیانیہ اختیار کریں گے ، اس میں پھنسیں گے ۔ ہم دہشت گردوں کی بے شک سرپرستی نہیں کرتے لیکن ہمارا دشمن اس کی سرپرستی کرتا رہیگا ۔ ان حالات میں خاموشی سب سے بڑی معقولیت ہے ۔

تازہ ترین