• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما کیس کے تناظر میں ملک میں بہت کچھ ہوگیا، مزید بہت کچھ ہوتا نظر آرہا ہے۔ ملکی آئین و قانون کی روشنی میں جاری احتسابی و سیاسی عمل کے نتیجے میں یقیناًآنے والے وقت کا پاکستان، بدلا پاکستان ہوگا۔ قومی سیاسی پیش منظر پر موجود غالب سیاست و طاقت کے مانے جانے والے بتوں کی ’’پوجا‘‘ بند ہو کر پیپلز ایمپاورمنٹ میں تبدیل ہوجائے گی گویا حقیقی عوامی طاقت جنم لے گی۔ ’’پیپلز‘‘ کا ایک ہی مطلب ہوگا، بلاامتیاز رنگ و زبان و نسل، مذہب و مسلک، جنس و عمر و علاقہ مملکت کے تمام شہری جن کے تمام بنیادی حقوق کا ضامن آئین پاکستان ہے، جیسے قوم اور حکومتیں آئین پاکستان کی۔ واضح رہے جس ’’مینجڈ ووٹ بینک‘‘ یااندھے حامیوں کو’’عوامی عدالت‘‘ یا اپنی اصل طاقت کہا جاتا ہے، حقیقت میں یہ اسٹیٹس کو کی تشکیل دی گئی سماجی پسماندگی ہے جو نظام بد کا مکارانہ ڈیزائن ہے۔
ہر طرح کے حکومتی و سیاسی ناخدائوں نے جمہوریت و آئین و قانون کے متوازی جو اپنا عوام دشمن نصاب ملک پر عشروں سے مسلط کیا ہوا ہے، بلاشبہ اس پر چھوٹی بڑی ضربیں اس کے انتہا پر پہنچنے پر الیکشن2008سے لگ رہی ہیں اور پاناما لیکس نے اس پر کاری ضرب لگائی ہے۔ آج یہ مضروب ہے ۔ یہ برسوں کے جمود کے بعد حقیقی ارتقاء کا ثبوت واضح ہے کہ نظام بد میں پہلی مرتبہ دو وزراء اعظم کے عدالتی کارروائی کے نااہل ہونے کی صورت میں بھی آئینی عمل لپیٹا نہیں گیا۔ آمریت مسلط نہیں ہوئی بلکہ آخری سابقہ زیر عتاب رہی اور سیاسی و آئینی عمل جاری و ساری رہا۔فوج کے رویے میں واضح اور مثبت تبدیلی اور آئین و قانون کے حوالے سے اس کی تازہ ذہنی جاری تبدیلیاں بہت حوصلہ افزا ہیں اورنتیجہ خیز بھی ہوںگی۔ عدلیہ سرگرم بھی ہوئی اور آزاد بھی۔ اب یہ آئین و قانون کی چھتری تلے احتسابی عمل کو جاری رکھنے اور نتیجہ خیز بنانے کے ساتھ ہم مردہ متعلقہ ریاستی اداروں میں جان ڈال کر فراہمی انصاف کے عمل کی مانیٹرنگ کی اہلیت بھی حاصل کر چکی جس سے فرینڈلی کورٹس سے مطلب کا انصاف حاصل کرکے بار بار کلین ہونے کےعادی مارسر گنج(خزانے پر بیٹھے سانپ)بھنا گئے ہیں۔ بلاشبہ پاکستانی عدلیہ کا یہ کردار ماضی کے تباہ کن کردار کا کفارہ بھی ہے، تاریخ ساز اور نتیجہ خیز بھی۔ سرخاب کے پروں میں ملبوس جو قومی ملزم و مجرم اس پر سیخ پا ہیں وہ نہیں سمجھ پارہے کہ انہیں عوام کے استحصال مسلسل پر قدرت نے آلیا ہے۔ ان کی برپا و مطلوب تبدیلی کے خلاف بغاوت تو یہ ہی واضح کررہی ہے۔
کوئی دوسری راہ نہیں کہ خود کو آئین کے تابع اور قانون کے حوالے کردیا جائے۔اسٹیٹس کو کی طاقتیں نظام بد کے تحفظ کے لئے جس طرح قانون سازی کے لئے سرگرم ہوا چاہتی ہیں۔ انہوں نے عوام دشمن نظام کو بچا کر جاری وساری رکھنے کے لئے’’کالی قانون سازی‘‘ کی تو وہ اپنے ہاتھ سے قوم ،عدلیہ اور میڈیا کے ایک نئے کردار کا تعین خود کریں گی، فقط اپنے ہی مفادات کے لئے قانون سازی کرنے والوں کو سمجھ نہ آئے گی کہ وہ ایسی غیر جمہوری، غیر آئینی اور عوام دشمن قانون سازی کرکے خود کتنے کمزور ہوں گے۔
وہ حصول انصاف کے جس عمل کا لازمہ بن چکے ہیں نہیں سمجھ رہے کہ وہ کتنا کڑا اور بے رحم ہوتا جائے گا، لیکن شفاف بھی سمجھ لیں گے ، تو انصاف پاکر بھی پارٹیاں بچائیں گے۔ نہ سمجھے تو اب تک کتنی آئینی شقوں کو جامد رکھا گیا وہ سب حرکت میں آجائیں گی۔
یہ ہے وہ صورتحال جس میں بار بار واضح ہورہا ہے کہ پاکستان میں اب سیاسی جماعتوں کو پولیٹیکل پارٹی ایکٹ کے تابع ہونا پڑے گا اور خود(ترامیم ہونی ہیں تو)اسی ایکٹ میں ہوں گی، جس میں تادم گنجائش نکلتی ہے کہ بڑے بڑے محترم سیاسی انکلز کو دبا کر اور خاموش کرکے ’’شاہی خاندانوں‘‘ کے شہزادے ، شہزادیاں قیادت قیادت کھلیں، گویا سیاست کو سمجھے بغیر سیاست سے بھی کھل کھلیں۔ وقت دو رنہیں کہ سیاسی خاندانوں کو کلین کلین سیاسی انکلز سیاسی کارکنوں کی مدد اور آئین و قانون (خواہ ترمیم شدہ) کی مدد سے پارٹی آ ئین کی تابع داری کریں، خواہ حکمراں جماعت ہو اپوزیشن یا کوئی اور جماعت۔ مملکت کو مکمل کھوکھلا اور قوم کو سراپا بدحال کرنے کے لئے اب ’’بتدریج عمل‘‘ اور’’بدترین جمہوریت کی قبولیت‘‘ کی مکاری کسی طور پر قبول نہیں ہوگی، جب معلوم ہے اور لانے کہ تمام انتظامات اور ڈھانچہ موجود ہے کہ بہترین جمہوریت کیا اور کیسے آئے گی تو ٹال مٹول کا کیا مطلب۔ 1973سے تادم سول منتخب ادوار میں بلدیاتی نظام کی لازمی آئینی ضرورت کو فریز کرکے نہیں رکھا گیا؟ فقط تھانہ کچہری نظام کو اپنی عوام دشمن قوت کے ہتھیار کے طور پر ا ستعمال کے لئے؟عدلیہ سے ممکن ہوا تو منتخب نمائندوں( جو اپنے ہی جماعت کے وفادار ہوتے ہوئے گلی محلے گائوں گوٹھ کے منتخب نمائندے تھے) کے اختیارات غصب کئے ہوئے ہیں، اب پنجاب میں اور سندھ میں بھی۔
بدلتے پاکستان میں اب سیاسی بتوں کا کردار تیزی سے ختم ہونا واضح ہے جس جماعت نے الیکشن،2018 میں عوام سے ووٹ لینے ہیں اور ثابت کرنا ہے کہ وہ پارلیمانی قوت بننے اور حصول اقتدار کی اہل ہے، وہ روایتی طرز کے نام نہاد و منشور تیار اور اس کی فقط انتخابی مہم میں تشہیر کی بجائے ایسے مسودہ ہائے قانون عوام کی فہم کے لئے تشریحات کے ساتھ لائے جس پر منتخب حکومت تشکیل ہوتے ہی قانون سازی کے لئے پارلیمنٹ اپنے آئینی کردار کے لئے سرگرم ہو۔ریاستی اداروں کی تطہیر ، آئین و قانون کی لازمی بالا دستی، اسٹیٹس کو کے متوازی نظام کی بیخ کنی ، کڑا احتسابی عمل، بت شکنی، پیپلز ایمپاورمنٹ ۔ اب یہی پوری قوم کا منشور ہے، اس کے لئے سب سیاسی جماعتوں نے عملاً اور حقیقتاً لازماً کافی کچھ اور جلد کرنا ہے۔ جلد کرنا پڑے گا اسی سے پاکستان تیزی سے بدلے گا اور مطلوب پاکستان بنے گا۔

تازہ ترین