• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلم لیگ( ن) اور میاں نواز شریف وزیر اعظم کے عہدے سے نا اہل ہونے کے بعد سیاست میں دوبارہ واپس آنے کے لئے نئے نئے فیصلے کر رہے ہیں۔ حالات کہاں تک ان کا ساتھ دیتے ہیں،ابھی کچھ کہناقبل از وقت ہے۔ پہلے انہوں نے نیب کی عدالت میں پیش ہونے سے انکار کیا اور لندن اپنی بیمار بیگم کلثوم صاحبہ کی عیادت کے بہانے گئے اورکہا جارہا ہے کہ وہاں خفیہ طور پر کالعدم متحدہ لندن کے سربراہ سے، جو خود پارٹی کے عہدیداران کی بغاوت سے سربراہی سے معزول ہوئے ہیں ،مبینہ ملاقات کی۔ مبینہ میٹنگ میں کیا کیا باتیں ہوئیں ابھی منظر عام پر نہیں آئیں مگر صاف ظاہر ہے کہ کیا کیا باتیں ہوئی ہوںگی ۔
لاہور کے حلقہ این اے 120پر کلثوم نواز صاحبہ کی کامیابی سے میاں نواز شریف اور ان کے ہمنوا وزراء اب کھل کر فوج اور عدلیہ پر تنقید کررہے ہیں۔ پہلے کہا کہ مجھے کیوں نکالا اور اب میں کیوں بھاگوں ، کہہ کر نیب کی احتساب عدالت میں پیش ہو گئے ۔ غالباً انہیں دوستوں نے ہی مشورہ دیا ہو گا کہ میاں صاحب جب آپ کے صاحبزادے عدالت میں نہیں پیش ہوئے تو قوانین کے مطابق ان کے سمن کے بعد اب وارنٹ جاری ہو گئے ہیں۔ تو کل آپ کا نمبر بھی آئے گا تو آپ کی سبکی ہوگی۔ لہٰذا آپ مقدمات کا سامنا کریں اسی میں آپ کی بہتری ہے ۔ سو وہ پیش تو ہو گئے مگر جب عدالت سے پیشی کے بعد میڈیا والوں نے گھیرا تو وہی پرانا راگ الاپاکہ مجھے عوام نے انصاف دے کر سرخرو کر دیا ہے ۔ مگر اس عدالت سے انصاف کی توقع نہیں ہے اور مجھے کوئی استثنیٰ نہیں دیا جا رہا ہے ۔ وہی تینوں جج نیب کی نگرانی کر رہے ہیں ،جنہوں نے مجھے نااہل قرار دیا تھا ۔ ہر دن ان کی صاحبزادی مریم نواز اور خواجہ سعد رفیق ، حنیف عباسی ، رانا ثناء اللہ اور پرویز رشید میڈیا کو گمراہ کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیںاور ان سے ہمدردیاں سمیٹتے ہیں اور کرپشن کو جھٹلاتے ہیں۔ اب جب ان کے صاحبزادوں کے ثبوت سامنے آئیں گے جو والیم 10میں موجود ہیں پھر جا کر عوام کو معلوم ہو گا، تب کیا بہانہ بنائیں گے؟۔ پھر ان کے سمدھی اسحاق ڈار کا حلف نامہ جو ماضی میں ریکارڈ ہوا تھا کیسے ان کو بچا سکے گا۔
سب کچھ ابھی ہوا میں ہے ، ابھی مقدمات میں ہی گھرے ہوئے تھے تو ان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے امریکہ میں ڈو مور کی حمایت میں بیان دے کر ایک اور دھماکہ کر ڈالا اور مذہبی جماعتوں پر ملبہ ڈال کر ناراض کر دیا ۔ جس کے تانے بانے حسین حقانی کے ذہن کی عکاسی کر تے ہیں ، جو ماضی میں فوج کے کردار کو بدنام کرنے کی کوشش کرچکے ہیں ۔ خود خواجہ آصف نے بھری اسمبلی میں جب میاں نواز شریف عتاب میں تھے تو کھل کر فوج کے خلاف زہر اگلا تھا ۔ تیسرا محاذ خود میاں نواز شریف نے سینیٹ سے اپنی نا اہلی سے مسلم لیگ (ن) کی قیادت چھیننے والی شق ختم کروائی ۔ اس کردار میں عمران خان کے سینیٹروں کا بھی ووٹنگ کے وقت غائب ہونا عمران خان کو بھی فائدہ پہنچانے کا سبب بنے گا۔ اس وقت ان کے سیاسی ستارے گردش میں آسکتے ہیں۔ بنی گالہ نا اہلی کیس میں ابھی تک وہ عدلیہ کو مطمئن نہیں کر سکے ۔ رقم جو ان کی سابق اہلیہ جمائما خان نے ان کوتحفہ میں دی تھی اس کا ثبوت پرچیوں اور ای میلز میں تو پایا جاتا ہے لیکن یہ قوانین کا پیٹ نہیں بھر سکا ۔ لہٰذا اگرا ن کے سینیٹر اس نئے قانون کو ختم نہیں کرواتے تو عمران خان کم از کم پارٹی کے سربراہ تو رہ سکیں گے ۔ مسلم لیگ (ن) والے تو میاں صاحب کے احسانوں تلے دبے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف والے ابھی نا پختہ ذہنوں کے مالک ہیں ان کی پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو سکتی ہے ۔ خصوصاً اس پارٹی کے بیشتر سینئر اراکین پارٹی کے سربراہ کی غیر سیاسی حرکتوں سے بیزار ہو کر پارٹی چھوڑ چکے ہیںاور اب وہ اپنی صفیں دوبارہ سیدھی کر کے بہت بڑا مضبوط گروپ بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ خواتین کو عائشہ گلا لئی سنبھالنے کی پوری تیاری کر چکی ہیں۔ ان کے سر پر بھی مسلم لیگ (ن) نے در پردہ ہاتھ رکھا ہوا ہے ۔ ابھی تک کچھ کہنا قبل از وقت ہے ۔ سیاست میں اور کرکٹ میں آخری وقت تک کچھ پیشن گوئی نہیں کی جا سکتی ۔ ایک طرف حزب اختلاف کا عہدہ ہاتھ سے جاتا دیکھ کر زرداری صاحب نے پھر مسلم لیگ (ن) سے رابطے از خود بحال کرنے میں پہل کر ڈالی ہے ۔ یقیناََ مسلم لیگ (ن) اور مولانا فضل الرحمن نہیں چاہیں گے کہ کوئی انکا مخالف گروپ قائد حز ب اختلاف کا عہدہ سنبھالے ۔ وہ کھل کر خورشید شاہ کو نہیں جانے دینگے ۔ اگرچہ اعجاز الحق اور چوہدری برادران مسلم لیگ (ن) میں میاں صاحب سے ناراض اراکین کا گروپ بنانے کے دعویدار ہیں۔ چوہدری نثار علی خان کی میاں صاحب کی پریس کانفرنس میں شرکت نئے گروپ بننے کی نفی کر رہی ہے۔ البتہ نیب کا فیصلہ مسلم لیگ (ن) اور اسکی قیادت کی سیاست کا آخری فیصلہ ثابت ہو گا۔ ادھر نیب کے سربراہ کی میعاد بھی ختم ہونے کو ہے تو نیا سربراہ بھی حزب اقتدار اور حز ب اختلا ف کا مشترکہ اُمیدوار ہی ہو سکتا ہے ۔ اسلئے بھی دونوں کے لئے ضروری ہوگاکہ وہ جلد از جلد اپنے اختلافات ختم کر لیں۔ غیر مصدقہ اطلاعات اسلام آباد میں گر دش کر رہی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اب سیاست سے کرپشن ختم کرنے کے لئے آخری کوشش میں لگی ہوئی ہے ۔ الیکشن سے پہلے کسی شفاف کردار کی ٹیکنو کریٹس حکومت لائی جائے جو سیاست سے گندگی صاف کر کے سیاستدانوں سے لوٹا ہوا سرمایہ واپس پاکستان لائے اور آئی ایم ایف اور دیگر اداروں سے لئے گئے قرضوں کو واپس کر کے قوم کو اس بوجھ سےآزاد کرائے اور سی پیک جیسے کامیاب معاہدوں سے عوام میں خوشحالی لائے جو ابھی تک خواب ہی لگتا ہے ۔ قوم ابھی تک صرف وعدوں پر اعتبار کر کے اپنا مستقبل تاریک کر چکی ہے اور ہمارے دشمن صرف باہر ہی نہیں ہیں خود ہماری صفوں میں بھی موجود ہیں۔ جن کی وجہ سے پاکستان آج تک نہیں پنپ سکا۔ بھلا جس ملک میں دو سمندری ساحل ہو ں اور اس کے کنارے آج تک اجڑے پڑے ہوں جس کے پاس دنیا بھر سے زیادہ کوئلے کی کانیں موجود ہوں اور وہ باہر سے کوئلہ درآمد کرتا ہو ۔ جس کے پہاڑوں میں سونا، تانبہ اور ہر قسم کی معدنیات موجود ہوں اور 70سال گزرنے کے بعد بھی وہ وہیں دفن ہوں ۔ جس ملک میں 4چار موسم آتے جاتے ہوں ، وہ باہر سے پھل پھول اور سبزیاں درآمد کرے ، وہ قوم کیسے ترقی کر سکتی ہے ۔ جس کے 80فیصد عوام اپنے لیڈر ذات برادری پر چنیں اور وہ لیڈ ر جو آج تک نئے تعلیمی اسکول ، کالج ، یونیورسٹیاں نہیں بناتے وہ قوم جس کے لاکھوں ہنر مند ڈاکٹر ز ، پروفیسرز ، انجینئرز اپنا ملک چھوڑ کر دوسرے ممالک کی معیشت کو فائدہ پہنچا رہے ہوں ، اور وہ لیڈر خود اپنا علاج دیارِ غیر میں جا کر کروائیں اور اربوں کا زرِ مبادلہ ضائع کریں وہ قوم کو صرف دھوکہ ہی دے سکتے ہیں ۔ خدارا آنکھیں کھولیں اور دوست اور دشمن کی پہچان کریں۔

تازہ ترین