• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل دو ملکوں میں قانون سازیاں عروج پر ہیں۔ ایک قانون سازی بھارت میں کی جا رہی ہے جبکہ کچھ قانونی ترامیم پاکستان میں کی جا رہی ہیں۔ بھارت میں سب کچھ ظلم کو تحفظ دینے کیلئے، دنیا کو دھوکہ دینے کیلئے قانون میں تبدیلی لائی جا رہی ہے جبکہ پاکستان میں نااہلیت کو اہلیت میں بدلنے کیلئے، کرپشن اور چوری کو تحفظ دینے کیلئے قانون سازیوں کی تیاری ہو چکی ہے۔ پاکستان میں تو حکومت وقت عدالتوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش لائو لشکر کے ساتھ کر رہی ہے۔ یہی بربادیوں کی دلدل ہے یہی تباہی کاسفر ہے، ایسی باتوں ہی سے تو نظام خراب ہوتا ہے، ایسی حرکتوں کے باعث بڑی بڑی سلطنتیں برباد ہو گئیں، بڑے بڑے معاشرے اجڑ گئے مگر معاشرے، سلطنتیں اور حکومتیں وہاں قائم رہیں جہاں قانون کی حکمرانی رہی، جہاں قانون کی عملداری نظر آئی۔
حالیہ صورتحال میں پہلے بھارت کا جائزہ لیتے ہیں پھر پاکستان کی بات کرتے ہیں آپ کو یاد ہونا چاہئے کہ پچھلے دنوں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کا جنیوا میں اجلاس ہوا اس موقعہ پر جنیوا سوئٹزر لینڈمیں کچھ بینرز آویزاں کئے گئے آزادی کے حق میں لگائے گئےبینرز پر مختلف بھارتی صوبوں اور علاقوں کے نام درج تھے یہ وہ علاقے ہیں جہاں کے لوگ عرصہ دراز سے جدوجہد کر رہے ہیں کہ انہیں بھارت سے آزادی نصیب ہو، ناگا لینڈ، تری پورہ، منی پور، خالصتان اور جموں و کشمیر کے لوگ ایک عرصے سے آزادی کی تحریکیں چلا رہے ہیں، اگرچہ بھارت میں اس مقصد یعنی آزادی کیلئے سترہ سے زائد تحریکیں چل رہی ہیں مگر باقاعدہ بینرز پانچ ریاستوں کیلئے سامنے آئے۔ اصلیت تک پہنچنے کیلئے ہمیں بھارت کا وہ مکروہ ’’چہرہ‘‘ بغور دیکھنا پڑے گا کیا یہ سچ نہیں کہ آٹھ لاکھ بھارتی فوج نے کشمیریوں کو یرغمال بنا رکھا ہے، انہیں بنیادی حقوق بھی حاصل نہیں ہیں کشمیری لوگوں کو سارا سال کرفیو کا سامنا کرنا پڑتا ہے حتیٰ کہ ان کی مذہبی آزادیاں بھی سلب ہو چکی ہیں کیا یہ سچ نہیں کہ بھارت میں اقلیتوں کی پامالی کی جاتی ہے اس حقیقت سے انکار کیسے ممکن ہے کہ بھارت کے صوبہ گجرات میں مسلمانوں کے خون سے کھیلا گیا، نریندر مودی کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، بھارت کی دیگر ریاستوں میں بھی مسلمانوں پر ظلم جاری ہے۔ اس حقیقت کو کون جھٹلا سکتا ہے کہ کبھی نماز پر پابندی تو کبھی جانوروں کے ذبح کرنے پر پابندی لگا دی جاتی ہے کیا یہ سچ نہیں کہ بھارت میں دلتوں اور شودروں کی زندگیاں، جانوروں سے بھی بدتر ہیں ان پر زندگی کے دروازے تنگ ہیں ان کا سانس لینا محال ہے،زندگی مشکل سے اندھیری رات میں ہے کیا یہ سچ نہیں کہ بھارت میں عیسائیوں کے گرجاگھروں کو جلایا گیا، عیسائیوں کے مختلف مشنری اداروں کو نقصان پہنچایا گیا، عیسائیوں پر عرصہ حیات تنگ کیا گیا اس حقیقت سے انکار کیسے کیا جا سکتا ہے کہ بھارت میں سکھوں کی قتل و غارت ہوئی تاریخ کے اوراق سے یہ کیسے ختم کیا جا سکتا ہے کہ بابری مسجد کو شہید کیا گیا، سکھوں کی عبادت گاہ، گوردوارہ گولڈن ٹیمپل کی توہین کی گئی۔بھارت میں اس ساری صورتحال میں حکومت کیلئے پریشانیاں ہیں سب سے زیادہ پریشانی یہ ہے کہ بھارت کی آٹھ لاکھ فوج کشمیریوں کی آزادی کی تحریک دبانے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے، کشمیر میں ڈیوٹیاں دینے والے بھارتی فوجی مختلف نفسیاتی امراض کا شکار ہو چکے ہیں، اب ہندوستانی فوجیوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان کی ڈیوٹی کشمیر سے باہر لگائی جائے۔بھارت میں نئی نسل فوج میں جانے سے گریزاں ہے آپ کو یاد ہو گا کہ ہندوستان خودکشمیر کا مقدمہ لیکر اقوام متحدہ گیا دنیا کے سامنے وعدہ کیا کہ کشمیر کے متنازع علاقے کے لوگوں کو حق خودارادیت دیا جائے گا۔اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں مقبوضہ کشمیرچونکہ ایک متنازع علاقہ ہے وہاں مسلمان اکثریت ہے ہندوستانی حکومت کی عرصے سے یہ خواہش ہے کہ وہاں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جائے۔اس خواہش کا پیٹ بھرنے کیلئے کشمیریوں کی نسل کشی کی گئی،نسل کشی کے باوجود خواہش کی تکمیل نہیں ہوئی تو اب قانون سازی کا سوچا جا رہا ہے۔ بھارتی آئین کا آرٹیکل 35اے کشمیر میں بسنے والوں کی شہریت کی وضاحت کرتا ہے ان کے خصوصی حقوق اور سہولتوں کا تعین کرتا ہے، بھارت کی موجودہ حکومت اس آرٹیکل یعنی 35اے کو ختم کرنے کی کوشش میں لگ گئی ہے تاکہ کشمیر میں ہندوئوں کو آباد کیا جا سکے، تاکہ اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا جائے۔خالصتاً ہندو ذہنیت کی مالک حکومت کو کشمیر میں مسلم اکثریت برداشت نہیں ہو رہی دنیا کو چاہئے کہ وہ اس کوشش کو روکے کیونکہ یہ مقدمہ اقوام متحدہ میں ہے ہونا تو یہ چاہئے کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عملدرآمد ہو اقوام متحدہ کو بھی نوٹس لینا چاہئے، خود بھارت میں موجود سیاسی پارٹیوں کو ایسی قانون سازی سے حکومت وقت کو روکنا چاہئے یہ انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
اب آتے ہیں وطن عزیز کی جانب جہاں ایک نااہل شخص کے لئے نئی قانون سازیاں کرنے کی کوشش ہو رہی ہے آپ کو یاد ہو گا کہ سپریم کورٹ نے 28جولائی کو نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا اب اس کی نظرثانی اپیل بھی مسترد ہو چکی ہے اس نااہلی کے بعد سابق نااہل وزیراعظم نے جی ٹی روڈ پر اور پھر میڈیا کے سامنے لگاتار یہ راگ الاپا کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ احتساب عدالت میں پہلی پیشی کے بعد انہوں نے میڈیا کے سامنے کہا کہ ’’...مجھے پتہ ہے مجھے کیوں نکالا...‘‘‘احتساب عدالت میں پہلی پیشی کے موقع پر لیگی وزرا اورکارکنوں نے عدالت کے اندر ہڑبونگ مچا رکھا تھا اس لئے دوسری پیشی پر عدالت نے حکم جاری کیا کہ چونکہ کمرہ عدالت چھوٹا ہے لہٰذا لوگوں کی بڑی تعداد کو آنے سے روکا جائے، انتظامیہ نے عدالت کے حکم پر عمل کیا تو وزیر داخلہ بگڑ گئے، یہاں دو تین سوال پیدا ہوتے ہیں کہ کیا ایک نااہل شخص کیلئے اس قدر پروٹوکول ضروری ہے، مسلم لیگی لائو لشکر کے ساتھ کیوں جاتے ہیں، کیا وزرا کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ ایک ملزم کے ساتھ عدالتوں میں جائیں؟ کیا آپ بھول گئے ہیں کہ اس ملک کی عدالتوں میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید پیش ہوتی رہیں، کیا یہ درست نہیں کہ آصف علی زرداری، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف احتساب عدالتوں میں پیش ہوتے رہے مگر ان سب نے عدالت کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھا، شاید اسی لئے پیپلز پارٹی کی سینئر وائس چیئرپرسن شیری رحمٰن یہ کہنے پر مجبور ہوئی ہیں کہ ’’ن لیگ عدالتوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کر رہی ہے‘‘ یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف نواز شریف اور ان کے حواریوں کا بیانیہ یہ ہے کہ وہ فیصلوں کو تسلیم نہیں کرتے پھر کہتے ہیں ہم قانون کے تحت عدالتوںکا سامنا کر رہے ہیں۔ کیا یہ کھلی دو عملی نہیں؟ کیان لیگ پھر سے 1997 ءکو دہرانے کا ارادہ رکھتی ہے؟
شرم کا مقام ہے کہ پوری مسلم لیگ ن ایک ملزم کے ساتھ عدالت میں گڑ بڑ کرنا چاہتی ہے، یہ بھی شرم کا مقام ہے کہ پوری مسلم لیگ ن ایک نااہل شخص کیلئے اپنی پارٹی کا آئین تبدیل کر رہی ہے، صرف پارٹی آئین نہیں بلکہ ملکی آئین میں ترمیم کرنے جا رہی ہے کہ نااہل شخص پارٹی کا صدر ہو سکتا ہے، آئین میں سے شق 62 اور 63 ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ایک نااہل کو بچانے کی محبت میں نیب قوانین میں تبدیلیاں کی جا رہی ہیں، ملک کے آئینی اور ریاستی اداروں سے ٹکرائو کیلئے بہت کچھ ہو رہا ہے، یہ ساری قانون سازیاں چوری اور سینہ زوری کے مترادف ہیں۔ اگرچہ الیکشن ریفارمرز بل 2017 سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج ہو چکا ہے مگر پھر بھی قانون سازیاں کرنے پر لوگ بضد ہیں، یہ سوال پوری پاکستانی قوم کیلئے اہم ہے کہ پاکستان کا کرپٹ ترین ٹولہ اپنے آپ کو بچانے کی آرزو میں کیسی کسی قانون سازیاں کر رہا ہے، ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ میں تو صرف ایک انقلابی شاعر سرور ارمان کی زبان ہی بیان کر سکتا ہوں کہ ؎
روشنی سے تیرگی تعبیر کر دی جائے گی
رنگ سے محروم ہر تصویر کر دی جائے گی
بانجھ ہو کر رہ گیا جس وقت دھرتی کا بدن
تب ہمارے نام یہ جاگیر کر دی جائے گی

تازہ ترین