• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 آپ نے کبھی اونٹ کی سواری کی ہے؟ کہتے ہیں اس کی کوئی کل سیدھی نہیں ہوتی۔ اسی لئے جب وہ کھڑا ہوتا ہے تو ایسے جھکولے کھاتا ہے کہ اس پر بیٹھنے والا ڈرتا رہتا ہے کہ کہیں وہ گر ہی نہ جائے۔ اور جب وہ بیٹھتا ہے تو کبھی دائیں جھکتا ہے اور کبھی بائیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ دائیں کروٹ بیٹھے گا یا بائیں کروٹ۔ کہتے ہیں آج کل ہماری سیاست کا بھی یہی حال ہے۔ ہم پریشان ہیں کہ یہ سیاست ہمیں کہاں لے جائے گی۔ ہر تجزیہ کار اور ہر مبصر اپنی اپنی کہہ رہا ہے۔ اپنے آئی اے رحمٰن صاحب نے تو اس صورتحال کو پنجابی کی اصطلاح میں ’’گھڑ مس‘‘ ڈالنا کہا ہے کہ ہر شخص اپنے طور پر اس میں گھڑ مس ڈال رہا ہے۔ انتظار حسین کو اگر پنجابی کا کوئی لفظ آتا تھا، یا یوں کہیے کہ انہیں پنجابی کا جو لفظ بہت پسند تھا وہ ہے’’بمبل بھوسا‘‘ یعنی ایسا بھوسا جس کے ڈھیر میں ہر ایک اپنے اپنے حساب سے سوئی تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے یا ایسے حالات جن میں الجھنیں ہی الجھنیں ہیں۔ ایسی الجھنیں جن کے سلجھنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔ ہر مبصر اور تجزیہ کار ہمیں ڈرا رہا ہے کہ حالات انتہائی خرابی کی طرف جا رہے ہیں۔ وہ طاقتیں جو ہمارے اوپر حکومت کر رہی ہیں ان کے راستے جدا جدا ہیں۔ کوئی ہمیں ایک جانب لے جانا چاہتا ہے تو دوسرا کسی اور جانب۔ اور وہ طاقتیں جو حکمرانی کے خواب دیکھ رہی ہیں وہ اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں اور بھی الجھنیں بڑھا رہی ہیں۔ ہم نے یہ دیکھا ہے کہ ایسے حالات میں جوتشیوں اور نجومیوں کی بن آتی ہے۔ ایسے میں ہمارے ٹی وی چینلز نہ معلوم کہاں کہاں سے یہ نجومی تلاش کر کے لاتے ہیں اور ان سے پوچھتے ہیں کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے۔ شکر ہے ابھی تک ہمارے ٹی وی چینلز کی توجہ اس طرف نہیں گئی ہے لیکن ایک کالم نگار نے کہیں سے کسی بزرگ کو تلاش کر لیا ہے۔ اور ان سے ہمارے مستقبل کے بارے میں معلوم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان مشہور و معروف کالم نگار نے ان بزرگ کی علمیت اور ان کی ستارہ شناسی کی اتنی تعریف کی ہے کہ ہمارا حقیقت پسند دماغ بھی تھوڑی دیر کے لئے لڑکھڑا گیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سے پہلے بھی ان بزرگ کی پیش گوئیاں صحیح ثابت ہوتی رہی ہیں۔ ان بزرگ نے تو ہمیں سچ مچ ڈرا دیا ہے۔ انہیں ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آ رہا ہے۔ انہیں کہیں بھی روشنی کی کرن نظر نہیں آ رہی ہے۔
اس پر ہمیں لودھراں کے ایک ایسے ہی نجومی یاد آ گئے۔ یہ ضیاء الحق کا زمانہ تھا۔ وہ صاحب ہمارے دوست ناصر رضوی کے پاس لاہور آیا کرتے تھے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ ناصر رضوی بھٹو صاحب کی کابینہ میں وزیر رہ چکے تھے۔ وہ صاحب ضیاء الحق کے بارے میں پیش گوئیاں کرتے تھے۔ اور جب ان کی پیش گوئی غلط ثابت ہو جاتی تھی تو کہتے تھے ’’میں کیا کروں، جب ضیاء الحق پر ادبار آنے لگتا ہے تو وہ اپنا رخ بدل لیتا ہے۔ اور بچ جاتا ہے‘‘۔ احمد بشیر بھی پاک ٹی ہائوس میں بیٹھے ایسی ہی پیش گوئیاں کیا کرتے تھے کہ بس اب ضیاء الحق گیا کہ گیا۔ ان کی ہر پیش گوئی غلط ثابت ہو ئی۔ اس کے باوجود وہ پیش گوئیاں کرنے سے باز نہیں آتے تھے۔ اب ہمیں حسن بن صباح یاد آگیا۔ وہی حسن بن صباح جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے ایک جنت بنا رکھی تھی، جہاں وہ نوجوانوں کو حشیش پلا کر جہادی بنایا کرتا تھا۔ اور ان نوجوانوں سے مشہور و معروف شخصیتوں کو قتل کرایا کرتا تھا۔ کہتے ہیں ایک بار وہ کشتی میں سوار کہیں جا رہا تھا تو طوفان آ گیا۔ ایسا خطرناک طوفان تھا کہ کشتی میں بیٹھے تمام مسافر رونے چلانے لگے اور دعائیں مانگنے لگے۔ لیکن وہ آرام سے خاموش بیٹھا رہا۔ جب کشتی کنارے لگی تو لوگوں نے اس سے پوچھا کہ سب لوگ پریشان تھے مگر تم سکون سے خاموش بیٹھے تھے، اس کا کیا سبب ہے؟ کیا تم جانتے تھے کہ کشتی کنارے لگ جائے گی؟ اس نے جواب دیا ’’اگر کشتی ڈوب جاتی تو باقی مسافروں کے ساتھ میں بھی ڈوب جاتا۔ کوئی مجھ سے پوچھنے والا نہ ہوتا کہ تم سکون سے کیوں بیٹھے تھے؟ اب کشتی کنارے لگ گئی ہے تو ہر ایک میری بزرگی کا قائل ہو جائے گا۔ اور ہر ایک مانے گا کہ مجھے غیب کا علم ہے‘‘۔ یہی حال ہمارے جوتشیوں اور ستارہ شناسوں کا ہے۔ اگر تک لگ گئی تو وہ غیب کا علم جاننے والے بن گئے اگر تک نہ لگی تو کہہ دیا کہ حساب کتاب میں کہیں غلطی ہو گئی ہو گی۔ ارے بھائی کالم نویس صاحب، ہمارے تو پیغمبرﷺ نے کبھی غیب کا علم ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ انہوں نے تو فرمایا ہے کہ غیب کا علم صرف خدا کو ہے اور ڈاکٹر خالد مسعود کہتے ہیں کہ ہر وہ حدیث ضعیف ہے جس میں کوئی پیش گوئی کی گئی ہو۔
معاف کیجئے ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ یہ بات صحیح ہے کہ حالات کو سامنے رکھتے ہوئے دو اور دو چار کر کے مستقبل بینی کی جا سکتی ہے۔ جیسے نجم سیٹھی نے تجزیہ کیا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت اور ہمارے مستقل حکمرانوں کے درمیان بین الاقوامی معاملات پر اتنے اختلافات ہیں کہ اگلے سال ہونے والے عام انتخابات میں کسی بھی سیاسی جماعت کو مضبوط حکومت بنانے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ جو بھی حکومت آئے گی وہ انتہائی کمزور ہو گی اور وہ اپنے جواز کے لئے کسی اور طرف دیکھے گی۔ اور یہ جو ہماری سیاست میں مذہبی جماعتوں کو داخل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کی وجہ بھی ہمارے بیرونی تعلقات ہیں۔ پڑوسیوں کے ساتھ ہمارے برادرانہ تعلقات کسی کو پسند نہیں ہیں۔ اس لئے ان مذہبی جماعتوں کو بھی انتخابات کے ذریعے سیاسی دھارے میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جنہیں اقوام متحدہ بھی دہشت گرد قرار دے چکی ہے۔ بہرحال، ان الجھنوں اور ان پیش گوئیوں کے باوجود تھوڑی سی تسلی کی بات یہ ہے کہ بعض انتہائی اہم معاملات میں میاں نواز شریف کی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی پالیسی میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ اگر یہ دونوں جماعتیں کچھ عرصے کے لئے اپنی پرانی مخاصمت فراموش کر کے ان معاملات پر اکٹھی ہو جائیں جن کا تعلق بین الاقوامی تعلقات اور بلا تفریق سب کے احتساب سے ہے تو اس بدنصیب قوم کو سکھ کا سانس لینے کا موقع مل جائے گا۔ اس کے لئے دونوں جماعتوں کو سیاسی بصیرت کا ثبوت دینا ہو گا۔ ہماری یہی چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہیں جن کے لئے ہم (یا ہمارے سادہ لوح دوست) جوتشیوں، نجومیوں اور ستارہ شناسوں کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ آئندہ چند دن میں کیا ہو نے والا ہے۔ اس کے لئے جو تشیوں، نجومیوں اور ستارہ شناسوں کی خدمات حاصل کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

تازہ ترین