• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 ابھی تو الیکشن دور ہیں لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ کچھ قوتیں غیر ملکی ایجنسیاں جو نہیں چاہتیں کہ پاکستان کسی بھی طرح سے مستحکم و خود مختار ہوسکے چین سے ہونے والے معاہدے ان کے حلق کی ہڈی بن رہے ہیں ان کی کوشش ہے کہ سی پیک اور دیگر منصوبے پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکیں۔ کچھ لوگ پس پردہ رہ کر الیکشن وقت سے پہلے کرانے کے موڈ میں نظر آرہے ہیں پہلے مرحلے میں حکومتی پارٹی کو گھر بھیجنے کا اہتمام کیا گیا اور حکمران جماعت کے سربراہ جو وزیر اعظم کے عہدے پر فائز تھے کو نا اہل کرا کر گھر بھیج دیا گیا ہے سابقہ وزیر اعظم اور ان کے حواریوں کی اب تک سمجھ میں نہیں آیا کہ انہیں کیوں گھر بھیجا گیا ہے حالانکہ انہیں خوب اندازہ ہے لیکن پھر بھی وہ بار بار یہی جملہ دہرا رہے ہیں کہ مجھے کیوں نا اہل کیا گیا دراصل وہ خود جس چیز کو جرم سمجھے ہوئے تھے جس پر ان کے الزامات کی بنیاد کھڑی کی گئی تھی اسے پس پشت ڈال کر ایسی سزا دی گئی جس پر وہ بے چارے حیران و پریشان ہیں۔ انہیں یہ امید بھی ہے کہ وہ جلد قانون میں رد و بدل کر کے مناسب ترمیم کر کے پھر واپس کم از کم ملکی حکومت کے سربراہ نہیں تو اپنی سیاسی جماعت کے سربراہ ضرور بن سکیں گے جس کی تیاری ان کے حامیوں نے تقریباً کر بھی لی ہے لیکن اسی عرصے میں ایک نیا شوشا تحریک انصاف کے سربراہ نے کھڑا کردیا اپوزیشن لیڈر کی تبدیلی کا گدھے پر بس نہیں چلا تو گدھیا کے کان اینٹھیں وزیر اعظم کی مسند تو ہاتھ آئی نہیں تو پھر انہیں اپوزیشن لیڈر کی کرسی ہی نظر آئی کیونکہ پارلیمنٹ میں لیڈر آف دی ہائوس کے بعد سب سے اہم منصب لیڈر آف اپوزیشن کا ہی ہوتا ہے کہاں وزارت عظمیٰ کا خواب کہاں حزب اختلاف کی نشست وہی مثل ہوئی آسمان سے گرے کھجور میں اٹکے، لیکن بظاہر تو ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ اپوزیشن لیڈری کہیں منہ کے بل نہ گرا دے کہ گھر کے رہیں نہ گھاٹ کے۔ جو عزت اللہ کی مہربانی سے نصیب ہوئی اسے بھی خاک میں ملانے پر تلے ہوئے ہیں، شاید پس پردہ کاریگروں نے حلقہ 120 کے ضمنی انتخاب کرا کے تحریک انصاف کی قوت کا اندازہ خوب اچھی طرح کرلیا ہے شاید اسی باعث عمران کو بھی منظر سے تبدیل کرنے کی تیاری ہے ایک طرف تو عدالت میں نا اہلی کیس چل رہا ہے جو عنقریب اپنے انجام کو پہنچنے والا ہے جس کا اندازہ نہ صرف عمران خان اور ان کے تمام مریدین کو اچھی طرح ہو رہا ہے وہ بھی میاں نواز شریف والی رٹ کہ میں نہ مانو۔ تحریک انصاف کے پاس ایک ہتھیار دھرنوں کا احتجاجی جلسوں کا بھی ہے جس کو وہ استعمال کرسکتے ہیں جبکہ مسلم لیگ نون نے اپنی طاقت کا مظاہرہ دوسری طرح سے کیا کیونکہ مسلم لیگ نون ابھی بر سر اقتدار ہے صرف اس کے سربراہ کو گھر بھیجا گیا ہے جماعت کو نہیں۔
پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ جو اپوزیشن لیڈر ہیں انہیں کچھ زیادہ فکر عمران خان کی چلائی تحریک سے اس لیے بھی نظر نہیں آرہی کہ انہیں یہ یقین ہے کہ ووٹوں کی گنتی میں پیپلزپارٹی تحریک انصاف سے بہت آگے ہے عمران خان کی جماعت تمام دیگر ذرائع استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے اس کے باوجود وہ ووٹ پورے نہیں کرسکے گی ، پیپلز پارٹی کو اگر جیسا کہ امکان ہے حکومتی جماعت کی حمایت اور سرپرستی حاصل ہے تو صرف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے ہی ووٹ اس قدر ہیں کہ انہیں کسی اور جماعت کی حمایت کی ضرورت نہیں پڑے گی جبکہ حکومت کی دیگر حلیف جماعتیں جن میں مولانا فضل الرحمان صاحب کی جماعت، اسفند یار ولی صاحب کی جماعت جناب شیر پائو صاحب کی جماعت اور ان کے زیر اثر دیگر ووٹ بھی پیپلز پارٹی کے امیدوار کے حق میں استعمال ہوں گے۔ عمران خان صاحب کے ساتھیوں کا منصوبہ اپوزیشن لیڈر کی تبدیلی انہیں رسوا کرانے کی کوئی سازش نظر آرہی ہے یہ بھی ممکن ہے کہ یہ کوئی سوچا سمجھا منصوبہ ہو عمران خان کو منہ کے بل گرانے کا ان کے غبارے کی ہوا نکالنے کا۔ بہرحال آنے والے دن کافی تشویش اور ہلچل کے دن نظر آرہے ہیں جبکہ سیاسی جماعتوں کو تو اس وقت آنے والے انتخابات کی تیاری کرنی چاہیے تھی انہیں عدالتوں میں اور خود پارلیمنٹ میں الجھا دیا گیا اس سے دو باتیں ہوسکتی ہیں کہ تحریک انصاف کے امیر اگر عدالتوں سے نا اہل ہوجاتے ہیں تو ان کے جذباتی کارکنان سڑکوں پر نکل آئیں اور ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے لگیں ہوسکتا ہے کہ ان کا نعرہ ہو کہ اگر عمران خان نہیں تو پھر کوئی نہیں کیونکہ ذہنی طور پر نہ صرف عوام کو بلکہ تمام اہل سیاست کو اور تمام سیاسی جماعتوں کو یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ ہر اچھے برے حالات کے لیے تیار نہیں مختلف اقسام کی بیان بازی اور رد عمل آنا شروع ہوچکا ہے میاں نواز شریف نے نیب میں پیش ہو کر بظاہر بڑی ہمت کا ثبوت دیا ہے شاید وہ نیب میں پیش ہو کر ہوا کا رخ دیکھنا چاہ رہے ہوں کہ نیب میں کتنا دم خم ہے کہ حکمران جماعت کے لیڈر بلکہ مقبول لیڈر کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے اس کا اندازہ انہوں نے خوب اچھی طرح کرلیا، اس طرح جہاں انہوں نے غیر حاضری کے باعث ان کی املاک قرق ہونے کے خطرے کو ٹالا ہے اور نیب کے فوری اقدامات کو روکا ہے دوسری طرف انہوں نے خوب اچھی طرح اندازہ کرلیا ہے کہ آئندہ کس طرح اور کیسے نیب سے نمٹنا ہے یا خاموشی سے وطن سے باہر رہ کر الطاف حسین کی مانند حکومت کرنی ہے۔
تحریک انصاف والے یہ ڈنکا بجا رہے ہیں کہ موجودہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا ماضی اور حال داغ دار ہے۔ انہوں نے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی کرپشن پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں اس لیے وہ اپوزیشن لیڈر رہنے کے اہل نہیں رہے حیرت کی بات ہے کہ تقریباً ساڑھے چار برس گزرنے پر خورشید شاہ صاحب کے عیب تحریک انصاف والوں کو اچانک نظر آگئے اب تک وہ کہاں سو رہے تھے یا یہ انہیں یقین ہوچکا ہے کہ عدالت ان کے خلاف فیصلہ صادر کرنے والی ہے اس لیے عمران خان کو اپوزیشن لیڈر کا سائبان شاید کسی طرح بچالے یا یہ بھی سوچا جاسکتا ہے کہ اپوزیشن لیڈر اور مقبول عام شخصیت کو نا اہل کرنے سے پہلے عدلیہ سو بار سوچے گی کہ کہیں ان کے معقول اور انصاف کے مطابق فیصلے سے ملک میں انارکی نہ پھیل جائے اور وہ جو فیصلہ دینے والے ہیں وہ نہ دے سکیں حیرت اس بات پر ہے کہ انہیں حکمران جماعت کے سربراہ جو ملک کے وزیر اعظم کی مضبوط مسند پر براجمان تھے جس کی پارلیمنٹ میں بھی اکثریت ہے اور جو عمران خان سے کہیں زیادہ اپنے عوام میں مقبول بھی ہیں انہیں ایک جج یک جنبش قلم جب گھر بھیج سکتے ہیں تو عمران خان تو میاں نواز شریف کے مقابلے میں آدھے بھی مقبول یا صاحب اقتدار نہیں ابھی تو وہ صرف خوابوں میں ہی رہ رہے ہیں ہاں اگر وہ خواب ہی چکنا چور ہوگئے تو یقیناً ان کے لیے ان کے حامیوں کے لیے کوئی نیک شگون نہیں ہوگا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عمران خان اور میاں نواز شریف کے بعد آنے والا کوئی اللہ کا نیک بندہ ہو جس کو وطن عزیز سے محبت ہو جو وطن عزیز کی ڈوبتی کشتی کو پار لگانے والا بن کر آرہا ہو یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ موجودہ اہل سیاست کی رسہ کشی سے تو عوام بے زار ہوچکے ہیں ہر کوئی اپنی ڈفلی اپنا راگ الاپ رہا ہے کسی کو بھی عوام کی وطن عزیز کی فکر نہیں کسی بھی لیڈر کو سوائے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے اور کوئی کام نظر نہیں آرہا ملک میں مہنگائی کا عفریت منہ کھولے ہوئے ہے بے روزگاری کا کوئی سدباب نہیں کر رہا غربت اور قرضہ داری بڑھتی جا رہی ہے کسی کو فکر نہیں اگر فکر ہے تو اپنا اقتدار بچانے اور دوسرے کو گرانے اور کرسی حاصل کرنے میں سر دھڑ کی بازی لگاتے ہوئے کسی کو ہوش نہیں کہ وطن عزیز میں عوام کے ساتھ خصوصاً غریب عوام کے ساتھ کیا ہو رہا ہے جانے کب ہماری آنکھیں کھلیں گی کب ہمیں ہوش آئے گا کب ہوگا سویرا کب ظلمت کے بادل چھٹیں گے کب ہمارا نصیب جاگے گا اور ہمیں نیک اور محب وطن حکمران میسر آئیں گے۔ اللہ ہمارا ہمارے وطن عزیز کا حامی و ناصر ہو، آمین۔

تازہ ترین