• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسان کتنا بھی بڑا ہوجائے کسی بھی عہدے پر پہنچ جائے ، باپ ، نانایا دادا بن جائے ۔ بچپن کی یادیں ہمیشہ اس کے ساتھ رہتی ہیں۔ بچپن کی دوستیاں ، حماقتیں ٹیچرز کی ڈانٹ ، ٹیچرز کا پیار ،چھوٹی چھوٹی لڑائیاں ،ناراضگیاں اور معصوم حرکتیں ہمیشہ یادوںکی مالا میں پروئی آپ کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں، یہ باتیں کبھی آپ کو یاد کے گہرے سمندر میں لے جاتی ہیں ،کبھی آپ اپنے دوستوں کو مس کرتے ہیں اور کبھی اپنی یا دوستوں کی حماقتوں پر بے اختیا رمسکرا اٹھتے ہیں ۔ بچپن میں اپنے مستقبل کے جو تانے بانے بنتے ہیں وہ یاد آتے ہیں تو اپنی ہی معصومیت پر پیار آنے لگتا ہے ، اپنی ہی غلطی پر ٹیچرز کے سامنے بہانے بنانے کو وہ معصومانہ فن اور پھر پکڑے جانا اور آئندہ کبھی جھوٹ نہ بولنے کا وعدہ کرکے ڈانٹ سے جان بچانا ، پیٹ کے درد کا بہانہ بنا کے کلاس اورا سکول سے بھاگنے کی منصوبہ بندی کرنا اور دوا اور غصے کے کڑوے گھونٹ پی کر بھاری بیگ کو کندھے سے لٹکائے مجبوراً کلاس میں بیٹھ جانا یہ سب حسین یادیں آپکو ہمیشہ مسکرانے پر مجبو ر کرتی رہتی ہیں، ایسے میں اگر آپ کو اپنی یادوں سے جڑا ہوا کوئی پرا نادوست مل جائے تو پھر آپ ڈھیروں باتیں کرتے ہیں ۔ حسین یادوں کے صندوق کو کھولتے اور قہقہے لگاتے ہیں۔گزشتہ روز مجھے میرا ایک ایسا ہی دوست تیمور ملا جو اب فن لینڈ میں ہوتا ہے ہم دونوں نے ملکر خوب یادوں کے دریچے کھولے باتیں یاد کرکے ہنستے مسکراتے رہے لیکن ایک بات ایسی بھی زیربحث آئی جو قابل غور اور قابل تکلیف بھی تھی ، تیمور نے بتایا کہ فن لینڈ میں تعلیم مکمل کرکے وہ واپس پاکستان آگیا تھا ، وہ چاہتا تھا کہ وہ سب کچھ جو اس نے دوسرے ملک میں تعلیم حاصل کرکے سیکھا ہے، وہ اپنے ملک کے لئے استعمال کرے، لیکن سوائے رکاوٹوں کے اسے کچھ نہ ملا پھر تیمور نے ایک ادارے میں ملازمت اختیار کرلی اور دو سال تک پوری ایمانداری اور محنت سے کام کرتا رہا لیکن میرٹ کی بجائے پرچی سسٹم نے اسے سخت مایوس کیا اور پھر بادل ناخواستہ اس نے ایک بار پھر پاکستان کو خیرآباد کہہ کر فن لینڈ کارخ کیا۔تیمور جسے فٹبال کا کھیل بہت پسند بلکہ وہ اس کھیل کا دیوانہ تھا وہ نہ صرف یونیورسٹی میں اس کھیل سے پوری طرح لطف اندوز ہوا بلکہ اب بھی وہاں فٹبال کھیل رہا ہے کام کے ساتھ ساتھ اسے فل سکالر شپ پر پی ایچ ڈی کی آفر بھی ہوچکی ہے کیونکہ فٹبال کے عام کلب سے لیکر پروفیشنل کلب تک آپ کی میرٹ پر سلیکشن ہوتی ہے آپ کو آگے بڑھنے کے وہ تمام مواقع ملتے ہیں جو وہاں ہی پیدا ہونیوالے شہری کو ہوتے ہیں ، تیمور کے پاس اب فن لینڈ کی شہریت بھی ہے ۔ تیمورجہاں وہ فن لینڈ میں بھرپور زندگی گزار رہا ہے وہاں اس بات پر رنجیدہ بھی ہے کہ ہمارے کئی ہونہار نوجوان دنیا کے مختلف ممالک میں اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن اپنا ہی وطن انکی ان صلاحیتوں سے محروم ہے ، میں نے اور تیمور نے جب اسی حوالے سے بات کا آغاز کیاکہ ہمارے ملک کے وہ نوجوان جو بہترین صلاحیتوں کے مالک ہیں وہ کیوں ملک سے باہر رہنے پر مجبور ہیں تو ہمیں اسی بحث میں اندازہ ہوا کہ ہمارے اپنے کلاس فیلوز میں سے 95 فیصد لڑکے اس وقت بیرون ممالک کام کر رہے ہیں وہاں انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ان ملکوں نے انہیں شہریت دیتے ہوئے انہیں آگے بڑھنے کے تمام مواقع فراہم کرکے انہیں اپنے اپنے ملکوں کی ترقی کے دھارے میں شامل کرلیا ،اس طرح ہمارے ملک کے بہترین دماغ دوسرے ملکوں کے شہری بن کر ہم سے دور ہو رہے ہیں اور جو نوجوان یہاں پا کستا ن میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ بھی اس بھاگم دوڑ میں ہیں کہ کب انہیں موقع ملے تو وہ بھی بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے جائیں اور پھر وہاں کے ہی ہوکر رہ جائیں۔ اس وقت ملک میں درجنوں ادارے صرف یہ کام کر رہے ہیں کہ وہ بیرون ملک تعلیمی اداروں کے ساتھ الحاق کئے ہوئے ہیں اور یہاں سے بھاری فیسوں اور معاوضوں کے عوض ان بچوں کو غیر ملکی تعلیمی اداروں میں داخلے دلا رہے ہیں اور اس وقت نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد امریکہ ، کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا، جرمنی، متحدہ عرب امارات اور ملائیشیا جارہی ہے ،بلکہ بیرون ملک تعلیم کے سلسلے میں داخلوں اور فیسوں کی مد میں جتنا زرمبادلہ باہر جارہا ہے اس سے اپنے ہی ملک میں تعلیمی انقلاب لایا جاسکتا ہے ۔ملک میں جتنا ضروری پہلے سے چلتے ہوئے تعلیمی نظام کو بہتر بنانا ہے ،ا ن بچوں کا تعلیمی اداروں میں جانے کو لازمی بنانا ہے جو غربت کی وجہ سے یا تعلیمی اداروں کے فقدان کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر پارہے اور ہمیں 2025ء تک ایک ٹارگٹ کو پورا بھی کرنا ہے کہ تعلیم سے محروم رہ جانے والے بچوں کے لئے یہ ممکن بنانا ہے کہ تعلیم حاصل کرسکیں وہاں اپنے بہترین دماغوں اور باصلاحیت نوجوانوں کیلئے نہ صرف میرٹ پر عملدرآمد کرتے ہوئے انہیں آگے بڑھنے اور ملکی خدمت کے مواقع فراہم کرنے کیلئے پالیسی بنانا بھی ہے۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ بچے اعلیٰ تعلیم کے لئے باہر نہ جائیں لیکن ہمارے اداروں کو معلوم ہونا چاہئے کہ بیرون ملک جانیوالے نوجوان کیا تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ملک میں ان کی صلاحیتوں کو کس طرح بروئے کار لاکر ان سے کس طرح فائدہ اٹھایا جاسکتاہے ۔ میرٹ کو ہرجگہ ممکن بنا کر ، اس یوتھ کو اس حقیقت یا شک سے نکالنا ہے کہ آگے بڑھنے کے لئے خوشامد، رشتہ داری یا پرچی کا ہونا لازمی ہے اور پھر کام کے دوران اسی صورت آگے بڑھاجاسکتا ہے کہ اوپر والوں کے ناجائز احکا مات کو بھی ماننا ہوگا میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ سارے تیمور جو میرٹ نہ ہونے اور پرچی کا گلہ کرتے ہیں وہ واپس آئیں اور اپنے ملک میں اپنی صلاحیتوں سے اسکو ایک بہترین مستقبل دیں، اپنی مٹی کو سو نا بنا ئیں،لیکن ادارے انہیں میرٹ پر آ گے بڑھنے کا یقین دلا ئیں۔

تازہ ترین