• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیرداخلہ کو رینجرز کے اہلکاروں نے سابق وزیراعظم کے پیچھے جانے سے روک دیا۔ شہبازوں سے ممولے لڑا دئیے گئے۔ ریاست کے اندر ریاست کا الزام انگریز آقائوں تک شکایت پہنچانے کے لئے انگریزی زبان میں لگایا گیا۔ انسان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک سزا یافتہ شخص کو ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والی پارٹی پر حکومت کرنے کا آئینی حق دے دیا گیا۔ دیانت داری اور بددیانتی ایک ہی پلڑے میں رکھ دی گئیں۔ پاکستان کی سیاسی اشرافیہ نے اپنے گاڈ فادر کی قوتِ اقتدار کو برقرار رکھنے کے لئے آئین کے چہرے پر سیاہی تھوپ دی۔ حیف صد حیف کہ وہ لوگ جو عمر بھر سچائی، ایمان داری اور قانون کی حاکمیت کی تحریک چلاتے رہے آج ایک گاڈ مافیا کے لئے جھوٹ کے جسم پر سچ کا لباس چڑھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ شاید دولت کی ریل پیل اور اقتدار کے کھیل نے اُن کے ہوش و حواس معطل کر دئیے ہیں۔ پاکستان کے سادہ لوح عوام حیرت سے انہیں دیکھ رہے ہیں کہ کل تک یہی تھے جو کہتے تھے کہ یوسف رضا گیلانی! تم نے ابھی تک اقتدار چھوڑ نہیں۔ تمہیں عدالت نے تیس سیکنڈ کی سزا سنا دی ہے۔ اداروں میں موجود چند ایمان دار شخصیات بھی ششدر ہیں کہ انصاف اور بے انصافی کے درمیان کیسے جوڑ لگا دیا گیا ہے۔ آج اگر ایک نااہل شخص صدر ہوسکتا ہے تو کل ایک چور قاضی القضاہ بھی بن سکے گا۔ ملک پاک کے نظام کے پائوں اُس ڈھلوان پر رکھ دئیے گئے ہیں جہاں واپسی ممکن نہیں۔ اب یہ نظام لڑکھڑاتا ہوا پستیوں کی طرف جائے گا۔ وہ جو چند گنے چنے وطن پرست دانشور ہیں وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں کہ اب جھوٹ کی کالک اور سچ کی سفیدی کو کیسے جدا کیا جائے۔ اب وہ لڑائی مجبوری بنتی چلی جارہی ہے جس نے دن اور رات کے فرق کو اجاگر کرنا ہے۔ یقیناً یہ لڑائی بھی شاہراہ دستور پر ہی لڑی جائے گی۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ دونوں قوتیں اِسی سڑک پر آباد ہیں۔ میری مراد پارلیمنٹ ہائوس اور سپریم کورٹ سے ہے۔ وہ جن کے بارے میں مریم نواز فرماتی ہیں کہ وہ نظر نہیں آتے۔ شاید اُن کا بھی اِسی سڑک کے کسی کنارے پر بسیرا ہے۔ لگتا ہے موجودہ حکومت نے سیاسی شہادت کے لئے قانون اور انصاف کو ٹکریں مارنا شروع کردی ہیں۔ اِسی سڑک پر پارلیمنٹ ہائوس بھی ہے اور ایوانِ عدل بھی اور دونوں عمارتوں میں فاصلہ نہ ہونے کے برابر ہے اور دونوں کے باسی ایک دوسرے سے کہہ رہے ہیں؎
دوگھروں کے قرب کی اِس انتہا کے باوجود
تیرے دل سے میرے دل تک فاصلہ رہ جائے گا
ایک عمارت کے باسی مفادات کے کھیل میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹا رہے ہیں اور اپنے نااہل سربراہ کےبچائو کے لئے ترمیم پہ ترمیم کرتے جا رہے ہیں۔ شاید ان لوگوں کو نہ جمہور سے غرض ہے نہ جمہوریت سے۔ نہ آئین سے خوف آتا ہے نہ قانون سے۔ بس دل میں ایک ہی خیال ہے کہ ہمارا کھیل جاری رہنا چاہئے چاہے آئین کا چہرہ مسخ ہی کیوں نہ ہوجائے۔ دوسری عمارت کے باسی نہ صرف اِن الٹی سیدھی ترمیموں کو تول رہے ہیں بلکہ ترمیمیں کرنے والوں کی اندرونی پرتیں کھول بھی رہے ہیں۔
یقیناً یہ تمام معاملات کسی طوفان کی نشان دہی کررہے ہیں۔ لگتا ہے کوئی آندھی آنے والی ہے۔ بڑے بڑے درخت اکھڑنے والے ہیں۔ ممکن ہے یہی کھیل کا آخری منظر ثابت ہو۔ مجھے اس طوفان کا رنگ تو نہیں دکھائی دے رہا۔ لال، پیلا، سبز خاکی کچھ بھی ہوسکتا ہے مگر ہوائوں کے تیور بتا رہے ہیں کہ کچھ ہونے والا ہے۔ کہتے ہیں کہ زلزلوں اور آندھیوں کا پتہ پرندوں کو پہلے چل جاتا ہے۔ کل شام اپنی ملاقات بھی ایک پرندے سے ہوئی۔ اس کے پر مٹی جیسے تھے اور پنجے کالے سیاہ تھے۔ سر پر کلغی ٹوپی بھی تھی۔ اس نے مجھے بتایا کہ اب کے جو طوفان آرہا ہے اس میں صرف شاخیں اور تنے نہیں ٹوٹیں گے درخت ہی جڑوں سے اکھڑ جائیں گے۔ منظروں میں دور دور تک اکھڑے ہوئے درخت، ٹوٹی ہوئی شاخیں، بکھرے ہوئے پتے، گرد آلود ہوائیں نظر آئیں گی لیکن اس مرتبہ ہر چیز کی ری سائیکلنگ کی جائے گی۔ اکھڑنے والے بڑے بڑے درختوں سے عام لوگوں کے استعمال کے لئے فرنیچر بنایا جائے گا۔ درختوں کی جڑیں غریبوں کے چولہوں میں آگ جلانے کا کام دیں گی۔ ٹوٹے ہوئے پتے نئی فصلوں کے لئے کھاد کا کام کریں گے۔ اُس پرندے نے بتایا کہ اس مرتبہ مالی ایسے درخت لگائیں گے جن پر چڑیلوں کا بسیرا نہیں ہوگا۔ جن کے سائے میں بھوت پریت نہیں ہونگے اور نہ ہی اِن سایہ دار درختوں کا ثمر ایکسپورٹ کرنے دیا جائے گا۔ سارا ثمر گھر کے لوگ کھائیں گے مگر اس خوبصورت منظر سے پہلے کے خوفناک منظر سے ڈر لگ رہا ہے۔ کیونکہ جب طوفان آتے ہیں آندھیاں چلتی ہیں تو پھر وہ کچھ تمیز نہیں کر پاتیں ان کی بربادیاں ہر سمت اپنے رنگ بکھیر دیتی ہیں اللہ تعالیٰ اس ملک پاک کو اُن تباہیوں سے محفوظ رکھے۔ بے شک بستیاں اجڑتی ہیں تو انہیں نئے سرے سے آباد کیا جاتا ہے۔ پہلے سے زیادہ خوبصورت انداز میں اور زیادہ مضبوط بنیادوں پر۔ ممکن ہے اِسی وجہ سے وہ پرندہ بار بار مجھے کہہ رہا تھا کہ میری برسوں کی زندگی گواہ ہے کہ جب بھی راتوں کو جنوں اور بھوتوں کا رقص ہوا۔ جب بھی سیاہیوں نے خوف کی فضا پیدا کی تو کوئی چراغ جل اٹھا۔ اس مرتبہ جو چراغ جلےگا۔ ان شاء اللہ وہ صبح ہونے تک جلتا رہے گا اس کی روشنی ہمارے راستوں کو منور کرتی رہے گی۔ اللہ کرم کرے مجھے اُس اندھیرے سے بھی بہت خوف آتا ہے جو چراغ تلے ہوتا ہے۔

تازہ ترین