• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 ترکی اور شمالی عراقی کرد انتظامیہ جس کے ترکی کے ساتھ حالیہ کچھ عرصے سے بڑے گہرے تعلقات چلے آرہے تھے اب یہ تعلقات نہ صرف سردمہری کا شکار ہوچکے ہیں بلکہ ان دونوں کے درمیان جاری یہ سردمہری کسی وقت بھی ناخوشگوار واقعہ کا سبب بن سکتی ہے۔ شمالی عراق میں عراقی کرد انتظامیہ کی جانب سے کروائے جانے والے 25ستمبر کے کردش آزادی سے متعلق ریفرنڈم جس میں کرد انتظامیہ کے مطابق 97فیصد ووٹ آزادی کے حق میں پڑے ہیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ ترکی جس کے عراقی کرد علاقائی انتظامیہ کے ساتھ عراق کی مرکزی حکومت کے تمام تر انتباہ کے باوجود بڑے گہرے تعلقات موجود تھے نے عراقی کرد انتظامیہ کے علاقے سے نکلنے والے پٹرول کو عالمی منڈیوں تک پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا اور اس نے اس سلسلے میں عراق کی مرکزی حکومت کی جانب سے ترکی کی دی جانے والی وارننگ کی ذرہ بھر بھی پروا نہ کی تھی بلکہ ترکی نے عراقی کرد علاقائی انتظامیہ کو ہر ممکنہ سہولتیں فراہم کرتے ہوئے خود بھی کم نرخوں پر عراقی کرد انتظامیہ سے پٹرول حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا حالانکہ عراق کی مرکزی حکومت نے ترکی اور عراقی کرد انتظامیہ کے درمیان اس موضوع سے متعلق طے پانے والے تمام سمجھوتوں کو غیر قانونی قرار دیا تھا اور حکومتِ ترکی سے عراق کی مرکزی حکومت ہی سے بین الاقوامی قوانین کے تحت سمجھوتہ طے کرنے کی ضرورت پرزور دیا تھا۔ عراق کی مرکزی حکومت اور حکومتِ ترکی کے درمیان ان سمجھوتوں کی وجہ سے اختلافات بھی پیدا ہوگئے تھے اور دونوں ممالک عراق کی کرد انتظامیہ کے رویے کی وجہ سے ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئے۔ اس دوران ترکی کے کئی ایک سرمایہ کاروں نے شمالی عراق میں اور خاص طور پر عربیل میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی اور عربیل کو دبئی کے مقام تک لانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ حکومتِ ترکی نے عراقی کرد انتظامیہ کے کئی ایک رہنمائوں جن میں مسعود بارزانی پیش پیش ہیں کو کئی بار ترکی مدعو کیا اور حکومت کی سطح پر شاندار اور بڑی گرمجوشی سے استقبال بھی کیا حالانکہ ترکی میں دیگر سیاسی جماعتوں نے حکومتِ ترکی کے شمالی عراق کرد انتظامیہ کے ساتھ گہرے اور دوستانہ تعلقات کی مخالفت بھی کی اور حکومت ترکی کی اتحادی پارٹی نیشنلسٹ موومنٹ نے اس بارے میں حکومت سے محتاط رویہ اختیار کرنے اور شمالی عراقی کرد انتظامیہ کے ساتھ گہرے روابط قائم کرنے کی صورت میں اس کے منفی اثرات ترکی کی سیاست پر مرتب ہونے اورترکی کی دہشت گرد تنظیم ’’پی کے کے‘‘ کے اس صورتِ حال سے بھرپور استفادہ کرنے کے بارے میں متنبہ بھی کیا لیکن حکومتِ ترکی نے عراق کی مرکزی حکومت اور اپنے مخالفین کے خبردار کرنے کی ذرہ بھر بھی پروانہ کی اور شمالی عراق کرد انتظامیہ کے ساتھ اپنے گہرے روابط کو جاری رکھا۔
شمالی عراقی کرد انتظامیہ نے پٹرول کی دولت کو جمع کرنے کے بعد عراق کی مرکزی حکومت کو کافی عرصے سے آنکھیں دکھانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا۔ خاص طور پر متحدہ امریکہ نے عراق کی کرد انتظامیہ سے تعلق رکھنے والے پیش مرگوں کو شام اور عراق میں دہشت گرد تنظیم داعش کے خلاف استعمال کیا اوریوں شمالی عراق کرد انتظامیہ امریکہ کی آنکھوں کا تارہ بھی بن گئی اور اس نےآزادی کے ریفرنڈم پر اپنی آنکھیں بند رکھیں جسے شمالی عراقی کرد انتظامیہ نے خاموش حمایت سمجھتے ہوئے اپنے آزادی کے سفر کو جاری رکھا اور عراق میں داعش کے مختلف علاقوں پر قبضے کی وجہ سے عراق کی مرکزی حکومت بھی شمالی عراقی انتظامیہ کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھنے ہی میں اپنی عافیت سمجھتی رہی اور کرد انتظامیہ نے اس کا بھر پور فائدہ اٹھایا اور امریکہ سے حاصل کردہ اسلحہ پر تکیہ کرتےہوئے اپنی آزادی کی راہ ہموار کی۔
اسی دوران عراقی وزیرِ اعظم حیدر العبادی نے دھمکی دی ہے کہ وہ تین دن کے اندر اندر ہوائی اڈوں کا کنٹرول ان کے حوالے کر دیں ورنہ ہوائی ناکہ بندی کے لئے تیار ہو جائیں۔ سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق حیدر العبادی نے مطالبہ کیا کہ ترکی، شام اور ایران کے ساتھ تمام چوکیاں بغداد کی نگرانی میں دی جائیں۔ اس سے قبل وزیراعظم عبادی نے ریفرنڈم کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔
شمالی عراق میں 25ستمبر کو ہونے والے ریفرنڈم کے بعد عراق کی مرکزی حکومت کے علاوہ، شام، ایران اور ترکی نے اس ریفرنڈم کو کسی بھی صورت قبول نہ کرنے کاا علان کررکھا ہے اور اور اس سلسلے میں سب سے سخت موقف ترکی کا ہے اورصدر ایردوان اس بارے میں برملا کہہ چکے ہیں کہ پیر کو ہونے والے آزادی کے ریفرنڈم کے بعد ان کی تعزیری کارروائیوں کے نتیجے میں عراقی کرد بھوکے رہنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ انھوں نے بین الاقوامی مخالفت کے باوجود ریفرنڈم منعقد کروانے پر کردوں کی تنظیم کے آر جی کے سربراہ پرغداری کا الزام عائد کیا۔انھوں نے کہا کہ مسعود بارزانی کو اب اپنی مہم جوئی ترک کر دینی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کرد انتظامیہ سے کسی بھی صورت اس قسم کا رویہ اختیار کرنے اور شمالی عراق میں ریفرنڈم کروانے کی امید نہ تھی اور اس سلسلے میں شامل عراقی انتظامیہ کو کئی بار متنبہ بھی کرچکے تھے اور ہمیں امید تھی کہ مسعودبارزانی جس کے ترکی کے ساتھ بڑے اچھے تعلقات ہیں اس قسم کا کوئی فیصلہ نہیں کریں گے لیکن شمالی عراقی کرد انتظامیہ نے ہماری ایک نہ سنی اور اپنے فیصلے پر اڑی رہی۔ ترکی نے ریفرنڈم سے قبل ہی شمالی عراق کے ساتھ اپنی سرحدوں پر فوجی مشقوں کا سلسلہ شروع کردیا تھا جو کہ ابھی بھی جاری ہے۔ صدرایردوان نے اس سلسلے میں ترک مسلح افواج کے سربراہ جنرل حلوصی آقار سے ملاقات بھی کی اور اس موضوع کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لیا۔ صدر ایردوان سے ملاقات کے بعد ترک مسلح افواج کے سربراہ ایران روانہ ہوگئے جہاں انہوں نے ایرانی حکام سے مذاکرات کیے ہیں اور اس ریفرنڈم پر بات چیت کی ہے۔ علاوہ ازیں قومی اسمبلی کے امسال کے افتتاحی اجلاس کے موقع پر کہا کہ ترکی کے فوجی دستے کسی بھی وقت شمالی عراق میں ترکمینوں اور دیگر اقلیت کے تحفظ کے لئے داخل ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں اپنی اتحادی جماعت نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کے چیئرمین دولت باہچے لی سے جلد ہی تفصیلی ملاقات کرنے کے علاوہ حزبِ اختلاف کی جماعت ری پبلکن پیپلز پارٹی کے چیئرمین کمال کلیچدار اولو اور دگر رہنمائوں سے بھی مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ تمام سیاسی جماعتوں کی رضامندی حاصل کی جاسکے۔ اس بار عراق کی مرکزی حکومت جو ہمیشہ ترکی کے فوجی دستوں کے شمالی عراق میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے پر اپنے شدید ردِ عمل کا اظہار کرتی رہی ہے اس بار خاموشی پر اکتفا کیے جانے کی توقع ہے۔ ترک صدر نےریفرنڈم کو قومی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیتے ہوئے فوجی اور معاشی کارروائی کی دھمکی دی۔ترکی کو خطرہ ہے کہ ریفرنڈم کے بعد ملک کے اندر کردوں کی بغاوت کے شعلے بھڑک اٹھیں گے۔ اس کے علاوہ اسے کرکوک شہر میں بسنے والے ترکوں کی سلامتی کا خدشہ بھی لاحق ہے۔ کرد اس شہر کو مستقبل میں بننے والی کرد ریاست کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔صدر ایردوان نے واضح طور پر کہا ہے کہ ترکی بارزانی کی حکومت پر پابندیاں لگا سکتا ہے۔ اور تیل کے نلکوں کو بند کرسکتا ہے جس کے نتیجے میں عراقی کرد بھوکے مرسکتے ہیں۔
کرد حکام کے مطابق 2017کے پہلے چھ ماہ میں کے آر جی اور ترکی کے درمیان تجارت کا حجم پانچ ارب ڈالر کے لگ بھگ رہا ہے، اور عراق سے بذریعہ ترکی روزانہ لاکھوں بیرل تیل بحیرۂ روم پہنچ رہا ہے۔صدر ایردوان نے کہا ہے کہ اگر بارزانی ریفرنڈم کی غلطی کو تسلیم کر کے اسے مسترد کردیں تو ترکی ان کی ہر ممکنہ مدد کے لئے تیار ہے۔

تازہ ترین