• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالیہ دنوں میں پارلیمنٹ ، میڈیا اور سیاست میں شور اس بات پر ہوتا رہا کہ انتخابی اصلاحات کے نام پر بنائے جانے والے نئے قانون Elections Act 2017 کے ذریعے میاں نواز شریف کی بحیثیت سربراہ ن لیگ واپسی کا راستہ ہموارکیا جارہا ہے۔ لیکن جب یہ قانون پاس ہو گیا تو پتہ چلا کہ اس میں تو ایک سنگین نوعیت کی غلطی ہو گئی اور اُس غلطی کا تعلق کاغذات نامزدگی میں ختم نبوتؐ کے متعلق درج حلفیہ بیان سے تھا۔ ماضی میں ہر الیکشن لڑنے کے خواہشمند سے اس بیان پر حلفیہ بیان لیا جاتا تھا لیکن نئے قانون کے تحت حلفیہ بیان کی جگہ محض اقرار نامے کو شامل کر دیا گیا۔قومی اسمبلی میں اس قانون پر بحث ہوتی رہی لیکن کسی کی توجہ ان تبدیلیوں کی طرف نہیں گئی۔ اس قانون کو پہلے قومی اسمبلی نے پاس کیا اور سینیٹ کو بھجوایا جہاں سینیٹ نے کچھ تبدیلیوں کے ساتھ اس کو پاس کر کے دوبارہ قومی اسمبلی کو بھجوادیا گیا۔ قومی اسمبلی نے اس قانون کو دو روز قبل سوموار کے دن حتمی طور پر پاس کر کے صدر پاکستان کو بھجوا دیا جنہوں نے اُسی دن دستخط کر کے اس کو باقاعدہ قانون کی شکل دے کر نافذالعمل کر دیا۔ جب یہ قانون سازی پہلی بار قومی اسمبلی میں آئی تو کسی کو اس غلطی کی خبر نہ ہوئی۔ جب سینیٹ کے سامنے یہ معاملہ گیا تو نہ حکومت او ر نہ ہی اپوزیشن کو خبر ہوئی کہ نئے قانون میں کیا تبدیلی کر دی گئی۔ جب دوسری بار معاملہ قومی اسمبلی میں آیا تو جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی صاحبزادہ طارق اللہ نے اس معاملے کو اٹھایا اور اپنی ترامیم تجویز کیں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کو بھی یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ کم از کم اس معاملے پر انہوں نے آواز اٹھائی ۔میرا رب صاحبزادہ صاحب کو اس عمل کا اجر عظیم عطا فرمائے کیوں کہ اگر وہ اس معاملہ کو نہ اٹھاتے اور اس غلطی کی نشاندھی نہ کرتے تو کسی کو خبر بھی نہ ہوتی اور کاغذات نامزدگی میں ختم نبوت سے متعلق بیان کی قانونی حیثیت حلف سے محض اقرار نامے پر تبدیل ہو جاتی۔ یہ غلطی کیسے ہوئی اور کس سے سرزد ہوئی اس کا جواب تو ابھی تک نہیں ملا لیکن اس معاملےپر قومی اسمبلی کے تمام پارلیمانی رہنمائوں نے آج بدھ کے روزا سپیکر ایاز صادق کے ساتھ اپنی میٹنگ میں اس غلطی کو بلاتاخیر درست کرنے کے لیے جمعرات کو قانونی ترمیم لا کر کاغذات نامزدگی کو اپنی اصل حالت میں لانے کا فیصلہ کر لیا جو قابل تحسین عمل ہے۔ جیسا کہ قانون کے متنازعہ حصہ پرسخت عوامی ردعمل سامنے آیا، اُسی طرح قومی اسمبلی میں موجود کسی ایک بھی سیاسی جماعت نے اس نئے قانون کے متنازع حصہ کو ختم کر کے اصل حالت میں لانے کی مخالفت نہیں کی۔ قانون سازی کی اس غلطی سے ایک بات ثابت ہو گئی کہ ختم نبوتؐ کے معاملے پر پوری قوم ایک ہے ۔ یہاں میری پارلیمنٹ کے ممبران سے گزارش ہے کہ چونکہ بحیثیت قانون ساز اُن کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے اس لیے مہربانی فرما کر قانون سازی کے معاملات پر گہری نظر رکھا کریں اور اس رویہ کو بدلا جائے کہ جو پارٹی یا حکومت کے طرف سے سامنے آ جائے اُسے آنکھیں بند کر کے ووٹ دے کر پاس کروا دیا جائے۔ انہی رویوں کی وجہ سے پارلیمنٹ نے سیکڑوں قوانین ایسے بنا دیئے جو قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہیں اور جن کی نشاندہی اسلامی نظریاتی کونسل اپنی سالانہ رپورٹوں میں کر چکی ہے لیکن اس کے باوجود نہ ہی ان رپورٹوں کو پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا گیا اور نہ ہی ان قوانین کے غیر اسلامی حصوں کو ختم کیا گیا۔ اس سلسلے میںسود ی نظام کے متعلقہ رائج قوانین ایک اہم مثال ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے کوئی سات سو قوانین کے متعلق نشاندہی کی کہ وہ اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں۔ ماضی میں جو ہوا سو ہوا کم از کم اب پارلیمنٹ کے ارکین غیر اسلامی قانون سازی کی درستگی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ صاحبزادہ طارق اللہ نے الیکشن ایکٹ کی سنگین غلطی کو سامنے لاکر ایک ہیرو کا کردار ادا کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اس غلطی کو سینیٹ میں نہ پکڑسکے جو اُن کے ایک ممبر نے قومی اسمبلی میں پکڑ لی۔صاحبزادہ صاحب کا یہ وہ کردار ہے جو ہر رکن پارلیمنٹ کو ادا کرنا ہے کیوں کہ اسی کردار سے عوام کا حق نمائندگی ادا ہو گااور اسی سے ہم پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست بنا سکتے ہیں جہاںنہ صرف مسلمان اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی گزا ر سکیں بلکہ اقلیتوں کے حقوق کا بھی مکمل تحفظ ہو۔

تازہ ترین