• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مریم نوازنے بجا فرمایا کہ ’’ نوازشریف کو نواز شریف ہونے کی وجہ سے نااہل کیا گیا‘‘واقعی اگر نواز شریف، نواز شریف نہ ہوتے تو کبھی نااہل نہ ہوتے۔
میں تو اس نتیجے پر پہنچ چکا کہ 70سالوں میں اتنی سازشیں پاکستان کے خلاف نہیں ہوئیں ‘جتنی 35سالہ سیاست میں میاں نواز شریف کیخلاف ہو چکیں ‘ یقین نہیں آرہا،آئیے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، چونکہ سازشیں اتنی زیادہ کہ ایک کالم کیا، ایک کتاب میں بھی نہ آسکیں، لہٰذا مجبوراً چند موٹی موٹی سازشوں پر ہی نظر مارنی پڑے گی، خوش مزاج ، خوش لباس، خوش خوراک اور کرکٹ و گاڑیوں کے شوقین میاں نواز شریف کیخلاف پہلی سازش تب ہوئی جب والد ِ محترم میاں شریف نے ان کا ہاتھ گورنر پنجاب جنرل جیلانی کے ہاتھ میں دیدیا، میاں صاحب یہ ساز ش بھانپ کر ہاتھ چھڑانے ہی والے تھے کہ دوسری سازش ہوگئی اور جنرل جیلانی نے ان کا ہاتھ جنرل ضیاء الحق کو پکڑادیا، مجبوری کے تحت یہ ہاتھ تھامے لاہور سے اسلام آباد کی طرف مارچ کرتے میاں صاحب ابھی اس سازش کا توڑ نکالنے میں ہی لگے ہوئے تھے کہ تیسری سازش ہوگئی اور طاغوتی قوتوں نے جنرل ضیاء کو ہوائی حادثے میں چلتا کر دیا، میاں نواز شریف ابھی سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ چوتھی سازش ہوئی اور انہیں وزیراعظم بنا دیا گیا اور پھر جب بل کلنٹن کے ترلوں، منتوں اور لمبی چوڑی رشوت کی آفر کے باوجود میاں صاحب نے ایٹمی دھماکہ کر دیا تو پانچویں سازش تو ہونا ہی تھی لہٰذا یہودونصاریٰ نے مل کر ان کی حکومت ہی ختم کر دی۔
اللہ کے فضل وکرم اور قوم کے تعاون سے جب دوسری مرتبہ وزیراعظم بن کر میاں صاحب معاشی دھماکہ کرنے کے قریب تھے تو چھٹی سازش ہوئی اور عالمی طاقتوں نے ان کی حکومت ختم کرکے ساتویں سازش کے تحت انہیں جلا وطن کر دیا ‘باقی یہ افواہیں کہ میاں صاحب مارشل لاء میں پروان چڑھے ، وہ پہلی بار صوبائی وزیر اور وزیراعلیٰ جنرل ضیاء کی بدولت بنے ‘ جونیجو کو زبردستی ہٹا کر مسلم لیگ ہائی جیک کر لی ‘بے نظیر بھٹو کے خلاف قومی لیڈر انہوں نے ہی بنایا جن کے آج یہ خلاف، یہ ایٹمی دھماکے کے حق میں نہیں تھے یاانہیں دھماکہ کرنے پر مجبور کیا گیا ‘ جنرل جہانگیر کرامت کو فارغ کرکے اپنے ہی لائے ہوئے جنرل مشرف سے سینگ پھنسا لیا، ایک ڈیل کے تحت سعودی عرب جانے اورواپس آنے سے سیا سی چھانگوں مانگوں،کرپشن اور کمیشنوں کی داستانوں تک سب کچھ جھوٹ ، لہٰذا یہ سوچ کر کان نہ دھریں کہ سب کچھ میاں صاحب مطلب جمہوریت کے خلاف سازشیوں کی سازشیں ۔
میں تو اس نتیجے پر بھی پہنچ چکا کہ جب سازشیوں کی سب سازشیں ناکام بنا کر میاں صاحب تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے تو ملکی وغیر ملکی سازشیوں نے یہ قصہ ہی ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا اور یوں آٹھویں سازش کے جھنڈے تلے وہ پاناما لیکس کروائی گئیں کہ جن کا واحد مقصد میاں صاحب کو سیاست سے نکالنا تھا ‘ ان لیکس میں دیگر آف شور کمپنیاں اور دوسرے ناموں کو صرف اور صرف اس لئے ڈا لا گیا کہ میاں صاحب کے خلاف سازش کو حقیقت کا رنگ دیا جاسکے ‘ باقی نااہلی سے اب تک جو کچھ ہوایا ہورہا ، وہ میں نے کیا بتانا، آپ سمجھدار، خود ہی سمجھ جائیں ، لیکن یہاں اہم بات یہ کہ اِدھر میاں صاحب نااہل ہوئے اور اُدھر عالمی دنیا نے ہم سے آنکھیں پھیر لیں ، دیکھتے ہی دیکھتے ہماری معیشت تباہی کے دہانے پر جاپہنچی، قوم کی حالت ایسی کہ ابھی تک سکتے سے ہی نہیں نکل سکی اور اوپر سے لیڈر شپ کا بحران ایسا کہ شاہد خاقان عباسی سے شہباز شریف تک نہ کسی میں اتنی جرأت کہ دن چھوڑیں رات کو ہی میاں صاحب کی کرسی پر بیٹھ سکے اورنہ کسی میں اتنی صلاحیت کہ وہ میاں صاحب جیسی ’’عوامی خدمت ‘‘کر پائے،جہاں تک بات ہے عمران خان کی تو اگر وہ نااہلی سے بچ بھی گئے تو بھی وہ اپوزیشن لیڈ ر ہی بھلے، کہاں میاں صاحب اور کہاں کپتان، بھلا تجربے کا کوئی نعم البدل ہو سکتا ہے، عمران خان تو ایک سال میں اپنے اور جمائمہ یعنی میاں بیوی کے در میان لئے دیئے5چھ کروڑ پر سپریم کورٹ کو مطمئن نہ کر سکے جبکہ میاں صاحب پچھلے 35سالوں میں درجنوں احتسابوں میں اربوں روپے کا یوں حساب دے چکے کہ ابھی تک حساب لینے والے عش عش کررہے، لہٰذا دوستو سب کی بھلائی اسی میں کہ جتنی جلدی ہوسکے مل جل کر ایسی قانون سازی کریں کہ پھر سے اقتدارمیاں صاحب کو مل جائے، کیونکہ اقتدار چھن جانے کے بعد ان کی اور ملک کی حالت دیکھ کر مجھے تو یقین ہوگیا کہ دونوں مزید ایک دوسرے کی جدائی برداشت نہیں کرسکتے، باقی گزرے 4سالوں میں 100غیر ملکی دوروں، چھ6ماہ کابینہ کا اجلاس نہ بلانے، سوا 4سالوں میں 30سے زیادہ مرتبہ لندن جانے اور 15سے 20دفعہ قومی اسمبلی آنے اور 1947سے2007تک لئے گئے قرضوں سے ڈبل قرضے صرف 4سالوں میں لینے جیسی سازشی داستانوں پر بھی بالکل یقین نہ کریں، یہ سب سازشیوں کا کیا دھرا، ان فرضی کہانیوں پر توجہ دینے کی بجائے ہمیں صرف یہی یاد رکھنا کہ جس جمہوری جذبے کے تحت سینیٹ و قومی اسمبلی میاں صاحب کو پارٹی قیادت واپس کرچکی اور جس طرح جان پرکھیل کر پارٹی مرتے دم تک انہیں قائد مان چکی، اسی جمہوری ولولے کے تحت میاں صاحب کو اقتدار واپس دلا نا اب ہماری ذمہ داری ۔
دوستو! یہاں یہ بتانا بھی بڑا ضروری کہ نواز شریف صاحب کو اقتدار واپس کرنے میں تاخیر کا مطلب یحییٰ خان والی غلطی دہرانا (میاں صاحب خود بھی اس طرف اشارہ فر ماچکے)، لہٰذا مزید دیر نہ کی جائے، باقی سمجھ نہیں آرہی کہ سراج الحق اور مولانا فضل الرحمان 62‘ 63کے خلاف کیوں حالانکہ جب وقت آیا تو ان دونوں کا خود بھی 62،63پر پورا اترنا مشکل، پھر نجانے کیوں زرداری صاحب اس بار میاں صاحب کو Bail Outکرنے سے ہچکچا رہے، حالانکہ وہ تو جمہوریت یعنی میاں صاحب کی مضبوطی کیلئے ہمیشہ تیار رہتے تھے، اب جب نواز شریف پھر سے ایک نئی اننگز کھیلنے کیلئے ’’تازہ دم‘‘ ہوچکے، ان میں ’’رنز کی بھوک‘‘ جاگ چکی اور ان کی عوامی خدمت کی سب حسیّں پھر سے بیدار ہوچکیں، تواب سراج الحق، مولانا صاحب اور آصف زرداری کو مل کر میاں صاحب کی راہ میں حائل سب قانونی رکاوٹیں دور کرنی چاہئیں تا کہ عوام کو ان کا محبوب قائد مل سکے، ترقی وخوشحالی کا سلسلہ جہاں سے ٹوٹا تھا وہیں سے جڑ سکے، ٹرمپ سے مودی تک ہماری عالمی تنہائی ختم ہو سکے، موٹرویز، پاور پروجیکٹس ،میٹرواور اورنج ٹرینوں جیسے ’’صاف شفاف‘‘ منصوبے آگے بڑھ سکیں، سویلین بالادستی قائم ہو اور جمہوریت پھر سے اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکے، ویسے بھی ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ریلی میں کروڑوں افراد کی شرکت اور ریکارڈ ساز مارجن سے اپنی آبائی سیٹ جیت کر میاں صاحب جہاں یہ ثابت کرچکے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ غلط وہاں یہ بھی بتا چکے کہ22کروڑ عوام انہی کے ساتھ، جاتے جاتے یہاں دو گزارشات اور بھی، پہلی گزارش یہ کہ میاں صاحب کو وزیراعظم بنا کر یہ فضول قسم کا حدیبیہ کیس فوراً بند کیا جائے تاکہ شہباز شریف یکسو ہو کر چین وترکی کی بچی کچھی ترقی بھی لاہور میں لاسکیں اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچا سکیں اور دوسر ی گزارش یہ کہ اسحاق ڈار کو فوراً ’’کلین چٹ ‘‘
دی جائے تاکہ وہ پھر سے آئی ایم ایف اورورلڈ بینک کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ادھار مانگ سکیں، ملکی معیشت کے رہے سہے ’’بل کس‘‘ نکال کر بچے کچھے ایک آدھ ملکی ادارے کو بھی ’’منافع بخش‘‘ بنا سکیں، آخر میں میاں صاحب سے یہی کہنا کہ جلد یا بدیر اقتدار تو آپ کو مل ہی جانا، آپ نے چوتھی بار وزیراعظم بن ہی جانا‘ بس یہ ذہن نشین رہے کہ کسی اگلی سازش کے بعد بچوں کو ٹی وی انٹرویوز نہیں دینے دینا، خود کوئی تقریر نہیں کرنی، دوچار تقریریں کرنا پڑ بھی جائیں تو وہ ایک جیسی ہونی چاہئیں اور اگر خدانخواستہ کوئی معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ جائے تو ہرگز ہرگز جے آئی ٹی نہیں بننے دینی، کیونکہ پھر سازشیں کامیاب ہو جاتی ہیں، باقی لاکھ باتوں کی ایک بات تو مریم نواز کر ہی چکیں کہ ’’نواز شریف کو نواز شریف ہونے کی وجہ سے نااہل کیا گیا‘‘ واقعی اگر نواز شریف، نواز شریف نہ ہوتے توکبھی نااہل نہ ہوتے۔

تازہ ترین