• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف واپس لوٹ رہے ہیں۔صاحب اقتدار جماعت کی سربراہی کا ہماایک مرتبہ پھر نواز شریف کے سر پر آچکا ہے۔نوازشریف آج پھر پاکستان کی سیاست کے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر بن کر سامنے آچکے ہیں۔پاناما کیس کی نااہلی اور پھر مسلم لیگ ن کی صدارت سے بے دخل ہونے والے نوازشریف دوبارہ داخل ہوچکے ہیں۔ پاکستان کی سیاست کا محور پھر نواز شریف کے گرد گھوم رہا ہے۔عین ممکن ہے آئینی ترمیم کے ذریعے ہونے والی واپسی میں میزان عدل رکاوٹ بن جائے مگر نوازشریف جارحانہ موڈ میں دکھائے دیتے ہیں۔ وہ کسی صورت بھی ہارماننے کو تیار نہیں ہیں۔مسلم لیگ ن کے قائد لڑ کر ہارنا چاہتے ہیں۔اب وہ کسی بھی ڈیل یا گارنٹی پر اعتماد نہیں کرنا چاہتے۔لیکن پاکستانی سیاست میں پہلی مرتبہ پنجابی سیاستدان اور متحرک قوتوں کا آمنا سامنا ہوا ہے۔اس مرتبہ اکھاڑہ پنجاب ہے۔پنجابی سیاستدان کو مائنس کرنا اتنا آسان نہیں ہے جتنا سمجھا جارہا تھا۔گزشتہ روز نوازشریف کا اپنی تقریر میں سقوط ڈھاکہ کا ذکر کرنا غیر معمولی تھا۔آج حالات کچھ اچھے دکھائی نہیں دے رہے۔داخلی اور خارجی معاملات مستقبل کا منظر نامہ واضح کررہے ہیں۔اگر بیرونی چیلنجز سے نمٹنا ہے تو پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ جہاں سے معاملات کی خرابی کاا ٓغاز ہوا تھا ۔تمام فریقوں کو وہیں واپس لوٹنا ہوگا۔سرنڈر یا ہار ماننا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرکے ترقی کے سفر کا دوبارہ آغاز کرنا ہوگا۔فوج اور عدلیہ ملک کے اہم اسٹیک ہولڈر ہیں۔ نواز شریف صاحب اقتدار جماعت کے سربراہ ہونے کے ناطے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر ہیں۔تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنی انا اور ضد کو بالائے طاق رکھ کر پاکستان کے متعلق سوچنا ہوگا۔جب اداروں کے فیصلوں کے بعد معاملات عدم استحکام اور تناؤ کی طرف جائیں تو پھر سب کو مل کر ملک کے بارے میں خیال کرنا چاہئے۔مگر آج ایسا نہیں ہورہا۔عدلیہ کے فیصلے کے بعد نوازشریف کی نااہلی ہوئی۔نوازشریف اور مسلم لیگ ن کے درپردہ قوتوںکے حوالے سے تحفظات سامنے آئے۔ایک صورت تو یہ تھی کہ نوازشریف اپنی نااہلی اور سیاست سے بے دخلی کا فیصلہ قبول کرتے اور پاکستان سے باہر جاکر بقیہ زندگی گزارتے۔شاید ایسا ہی ہونا تھا۔مگر اسلام آباد سے لاہور مارچ نے نوازشریف کے ناقدین کی آنکھیں کھول دیں۔یہاں پر کسی شخص کے ساتھ ایک ہزار افراد کھڑے ہوں تو وہ متعلقہ ڈی پی اور اور ڈی سی کے لئے آئے روز مشکلات پیدا کرتا رہتا ہے ۔نوازشریف کے ساتھ تو پھر بھی لاکھوں لوگوں نے اظہار یکجہتی کیا۔میں سمجھتا ہوں کہ نوازشریف کی واپسی کا سفر راولپنڈی سے نکلتے ہی شروع ہوگیا تھا۔ایک شخص جسے کروڑوں عوام نے ووٹ دے کر وزیراعظم بنایا ہو پھر نااہلی کے بعد لاکھوں کی تعداد میں عوام نے کندھوں پر اٹھایا ہو۔وہ بھلا کیوں شکست تسلیم کرے؟ مگر نوازشریف کی جیت کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ تمام ادارے ہار جائیں گے۔بلکہ آج وقت ہے کہ ہر ایک کو اپنی غلطی کاا دراک ہونا چاہئے۔
نوازشریف پر اللہ کی خاص مہربانی ہے کہ انتہائی نامساعد حالات اور کٹھن راستوں کے باوجود دوبارہ مسلم لیگ ن کی صدارت پر براجما ن ہوچکے ہیں۔مگر ہر فتح کو دوسرے فریق کی شکست کے بجائے اللہ کی خاص کرم فرمائی سمجھیں۔وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف صاحب درست فرماتے ہیں کہ ایک ،دو مشیروں نے گاڑی اور عہدے کیلئے غلط مشورے دئیے۔بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ سیاست کے رموز سے ناآشنا لوگوں نے تخت سے تختہ کردیا۔اگر مشاورتی عمل میں شامل ہونے کا اتنا ہی شوق تھا تو نوازشریف کو وہ مشورہ دیتے جو اس کی ذات اور مسلم لیگ ن دونوں کے لئے فائدہ مند ہوتا۔صرف اس ڈر سے کہ کہیں کوئی مجھے مشاورتی عمل سے باہر نہ کردے۔ایسے ایسے مشورے دئیے گئے کہ الامان الحفیظ۔نوازشریف کے مضبوط اقتدار کوتہس نہس کرنے والوں میں انہی مشیران کا ہاتھ ہے ،جن کی زندگی کا مقصد صرف عہدہ ہوتا ہے۔اپنی مختصر سی زندگی میں چند ایسی مثالیں سامنے آئی ہیں ۔جن کی کہیں کوئی نظیر نہیں ملتی۔میں نے نوازشریف جیسا لیڈر اور شہباز شریف جیسا بھائی نہیں دیکھا۔ہر شخص جانتا ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران مختلف حلقوں کی طرف سے کس قسم کی خبریں اڑائی جارہی تھیں۔شہباز شریف پر بھی دباؤ ہوگا۔مگر میری اطلاعات کے مطابق شہباز شریف نے ہر آفر اور ہر بات کے جواب میں یہی کہا کہ نوازشریف کا دوست میرا دوست ہے اور نوازشریف کا دشمن میرا دشمن ہے۔ میری تمام سیاست نوازشریف کے ساتھ ہے۔میں وہی کام کروں گا جس سے نوازشریف کا فائدہ ہوگا۔ایسے جذبات رکھنے والا شخص کوئی عام نہیں ہوسکتا۔بھائی کے اپنے بھائی کیلئے ایسے جذبات کی مثال کم ملتی ہے۔ اسی طرح نوازشریف کی شہباز شریف کیلئے شفقت بھی مثالی ہے۔دونوں بھائیوں کے درمیان باپ اور بیٹے والا رشتہ ہے۔اسی لئے نوازشریف کو جو مشورہ شہباز شریف دے سکتے ہیں ،کوئی اور اتنا مخلص نہیں ہوسکتا۔جو شخص وزارت عظمیٰ پر نوازشریف کی محبت اور وفاداری کو ترجیح دے، اس کے اخلاص کا پیمانہ آپ خود طے کر سکتے ہیں۔
آج شہباز شریف کے مشوروں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔اس وقت نوازشریف کے بعد شہباز شریف واحد آدمی ہے۔جس پر عوام اپنے ووٹ کاا عتماد کرسکتے ہیں۔شہباز شریف کی رائے کو اہمیت دیتے ہوئے معاملات کو حکمت سے حل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔سول عسکری تعلقات کے حوالے سے شہباز شریف کے جو نظریات ہیں،شاید مجھ سے بہتر کوئی نہ جانتا ہو۔مگر شہباز شریف دیوار میں ٹکر مارنے کا قائل نہیں ہے۔آج جذبات سے فیصلے کرنے کا وقت نہیں ہے۔نوازشریف صاحب کو اپنے پرانے قابل اعتماد ساتھیوں پر مشتمل مشاورتی حلقہ بحال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔تمام لوگوں کی رائے لے کر چلیں،ہر معاملے کا حل نکل آئے گا۔امید ہے حالیہ حالات کے دوران اداروں کو بھی اپنی غلطی کاا حساس ہوا ہوگا۔مگر اب تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنی اناؤں سے بالاتر ہوکر سوچنے کی ضرورت ہے۔وگرنہ نقصان نوازشریف کا ہوگا تو باقی کسی اور کا بھی ہوگا۔عدلیہ کی مضبوطی اور دیگر اداروں کو غیر متنازع رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو سیاسی معاملات سے دور رکھیں اور جس جماعت کو بھی عوام نے مینڈیٹ دیا ہے اس کا احترام کریں۔

تازہ ترین